Column

ایٹمی غرور کے خلاف عوامی عزم کی طاقت

تحریر: واجد علی تونسوی
دنیا کے طاقتور ممالک، جن کے پاس ایٹمی ہتھیار اور جدید اسلحہ ہے، اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی فوجیں اور ٹیکنالوجی ان کے دشمنوں کے لیے ایک بڑا خطرہ بن کر سامنے آئیں گی اور وہ ہمیشہ جیت جائیں گے، لیکن تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان طاقتور فوجوں کو کئی جنگوں میں ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ وہ لوگ جن کے پاس جدید اسلحہ، بڑی فوج یا طاقتور جنگی حکمت عملی نہیں ہوتی، ان کا ایمان، عزم اور جذبہ انہیں ایٹمی قوتوں کے غرور کو شکست دینے میں مدد دیتا ہے۔
افغانستان کی جنگ اس کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ 2001ء میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو یہ دعویٰ کیا گیا کہ چند دنوں میں طالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے گا اور افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا۔ مگر بیس دن نہیں، بلکہ بیس سال تک جنگ چلتی رہی۔ دنیا کی سب سے طاقتور فوج، جو نیٹو اور امریکہ کی فوج پر مشتمل تھی، افغان پہاڑوں اور طالبان کی مزاحمت کے سامنے بے بس ہو گئی۔ امریکہ نے جتنے جدید ہتھیار اور ٹیکنالوجی استعمال کئے، وہ سب بے کار ثابت ہوئے، کیونکہ افغان عوام کے عزم اور طالبان کے مضبوط جذبے کے سامنے وہ کچھ نہ کر سکے۔ اس جنگ نے یہ ثابت کر دیا کہ جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی کبھی بھی کسی قوم کے عزم کے سامنے کامیاب نہیں ہو سکتے۔
افغانستان کی جنگ نے یہ دکھایا کہ وہ لوگ جو اپنی سرزمین، آزادی اور اسلام کی حفاظت کے لیے لڑتے ہیں، وہ کبھی نہیں ہارتے۔ افغان مجاہدین کے پاس جدید اسلحہ نہیں تھا، لیکن ان کا عزم اور اپنی سرزمین کے دفاع کا جذبہ اتنا مضبوط تھا کہ انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔ افغانستان کے پہاڑوں میں چھپے ہوئے یہ جنگجو امریکہ کے جدید ہتھیاروں کے خلاف ناقابل یقین مزاحمت فراہم کرتے تھے۔
یہ جنگیں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ جنگ میں صرف اسلحہ اور ٹیکنالوجی کا نہیں، بلکہ اصل طاقت عوام کا عزم، ان کی حمایت اور اپنے ملک کے لیے لڑنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ طاقتور فوجوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں یا جدید ٹیکنالوجی، جب تک مقامی عوام اپنے ملک کی آزادی کے لیے لڑنے کا عزم رکھتے ہیں، تب تک کوئی بھی فوج ان کے سامنے کامیاب نہیں ہو سکتی۔
غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ بھی ایک اور اہم مثال ہے۔ اسرائیل، جو دنیا کے جدید ترین فوجی اسلحے سے لیس ہے، نے کئی بار حماس کو شکست دینے اور اسے مکمل طور پر تباہ کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔ اسرائیل نے اپنی فوجی طاقت کا بھرپور استعمال کیا اور حماس کے خلاف کئی آپریشن کئے، مگر حماس کی مزاحمت نے اسرائیل کو مسلسل مشکلات میں ڈال دیا۔ گزشتہ سال اسرائیل نے فیصلہ کیا تھا کہ حماس کا خاتمہ کئے بغیر پیچھے نہیں ہٹے گا، لیکن اس جنگ کے دوران بھی حماس کے پاس ایٹمی ہتھیار یا جنگی جہاز نہیں تھے، مگر ان کا عزم، حکمت عملی اور عوام کی حمایت نے اسرائیل کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ نیتن یاہو کو ابتدا سے ہی یہ شرمندگی محسوس ہو رہی تھی، لیکن وہ اس لیے پیچھے نہیں ہٹ رہا تھا کیونکہ اس کی سیاسی زندگی ختم ہو جاتی۔ آج وہ نہ صرف جنگی طور پر شکست خوردہ ہے، بلکہ سیاسی طور پر بھی اس کی شکست ہو چکی ہے۔
آج بھی دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں اور جدید اسلحہ کی اہمیت پر بات کی جاتی ہے، لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اصل طاقت انسان کے عزم میں ہوتی ہے۔ چاہے وہ افغان مجاہدین ہوں، حماس کے جنگجو ہوں، یا کوئی اور قوم جو اپنی آزادی کے لیے لڑ رہی ہو، ان کا عزم اور طاقت دنیا کی سب سے بڑی فوجوں کو بھی شکست دے سکتی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو ایٹمی قوتوں اور جدید اسلحہ کے باوجود ہمیشہ باقی رہے گی۔

جواب دیں

Back to top button