ColumnRoshan Lal

پنجاب میں دریافت سونا، کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟

روشن لعل
پنجاب میں 800بلین روپے مالیت کے سونے کی دریافت کا آج کل صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں چرچا ہے ۔عجیب بات ہے کہ سونا پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک میں دریافت ہوا لیکن بھارتی سوشل میڈیا پر متحرک لوگوں نے پہل کرتے ہوئے اس دریافت کو پوری دنیا میں بحث کا موضوع بنا دیا۔ سونے جیسی قیمتی دھات کی دریافت چاہے ملک کے جس بھی حصے میں ہو اسے پورے ملک میں خوش آئند اور قابل مسرت امر تصور کیا جانا چاہیے لیکن ضلع اٹک میں سونے کی دریافت پر تمام تر پاکستان کیا پنجاب کی حد تک بھی واضح خوشی کا اظہار دیکھنے میں نہیں آسکا۔ اگر پنجاب میں دریافت ہونے والے سونے پر اس صوبے کے باسیوں نے بھی واجب مسرت کا اظہار نہیں کیا تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں کہ اٹک میں سونے کی دریافت پر جو کچھ کہا جارہا ہے وہ مکمل سچ ہے۔ اگر پنجاب کے لوگ بھی اٹک میں سونے کی دریافت پر سچ اور جھوٹ کے مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ ان کے سابقہ تجربات ہیں۔ پنجاب کے لوگ جن تجربات کی وجہ سے اٹک میں سونے کی دریافت پر سچ اور جھوٹ کے مخمصے میں پھنسے ہوئے ان میں سے ایک تجربہ چنیوٹ میں لوہے کے زیر زمین ذخائر کی دریافت کی بے ثمر ثابت ہونے والی خبروں سے جڑا ہوا ہے۔ یہ تجربہ پنجاب کے لوگوں کو اس وقت ہوا جب موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف ، پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے ۔ سال 2015ء میں ہوشربا خبروں کے ذریعے بتایا گیا کہ چنیوٹ میں صرف لوہے نہیں بلکہ تانبے اور سونے کے ذخائر بھی دریافت ہوئے ۔ ان زیر زمین ذخائر کو جب باہر نکالا جائے گا تو اس سے صرف پنجاب نہیں تمام تر پاکستان کے عوام کی زندگیوں میں مثبت اور انقلابی تبدیلیاں رونما ہونگی۔ بعد ازاں دیکھا گیا کہ جس طرح سی پیک جیسے منصوبوں کے آغاز پر عنقریب خوشحالی آنے اور عوام کا مقدر تبدیل ہونے کے دعوے محض سراب ثابت ہوئے اسی طرح چنیوٹ میں قیمتی دھاتوں کی دریافت کا اعلان بھی طفل تسلی کے علاوہ کچھ اور نہ بن سکا۔
جہاں تک اٹک میں سونے کے ذخیرے کی دریافت کا معاملہ ہے تو سونے کی دریافت کی بجائے اگر یہ کہا جائے کہ وہاں سونے کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اٹک میں 130کلومیٹر تک بہنے والے دریائے سندھ کے جس مقام پر سونے کے ذخائر کا اعلان کیا گیا ہے وہاں لوگ کئی دہائیوں سے دریا کی ریت میں سے سونے کے ذرات علیحدہ کرنے کا محنت طلب کام کر رہے ہیں۔ ریت سے سونے کے ذرات علیحدہ کرنے کا کام صرف اٹک میں ہی نہیں ہو رہا بلکہ گلگت بلتستان سے دریائے سندھ میں دریائے کابل ملنے تک مختلف مقامات پر لوگ عرصہ دراز سے کر رہے ہیں۔ اٹک سمیت دریائے سندھ کی ریت میں سونے کے ذرات کی موجودگی اور دریافت کا سہرا عام لوگوں کے علاوہ کسی اور کے سر نہیں سجایا جاسکتا۔ عام لوگوں کی اس دریافت پر مزید پیش رفت کے لیے پنجاب کے محکمہ کان کنی و معدنیات نے جیالوجیکل سروے آف پاکستان کی معاونت سے سائنسی بنیادوں پر کی گئی تحقیق کے بعد یہ اخذ کیا کہ اٹک کے ساتھ بہنے والے دریائے سندھ کی ریت میں سونے کے ذرات کا تناسب اس قدر ہے کہ ان سے سیکڑوں بلین روپے کی آمدن حاصل کی جاسکتی ہے۔
پنجاب میں مریم نواز کی موجودہ حکومت اس وقت اٹک میں سونے کی دریافت کا کریڈٹ لینے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ جس بات کا کریڈٹ مریم نواز کی حکومت لینے کی کوشش کر رہی ہے اس کا اعلان اس حکومت نے نہیں بلکہ سابقہ نگران حکومت کے وزیر معدنیات پنجاب ابراہیم حسن مراد نے 10جنوری 2025ء کو اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے کیا۔ ابراہیم حسن مراد کی مذکورہ ٹویٹ کے مطابق اٹک میں دریائے سندھ کے 32کلومیٹر بہائو کے علاقے میں 2.8 ملین تولے کے ذخائر موجود ہیں جن کی مالیت 800بلین پاکستانی روپوں کے برابر ہے۔ حسن ابراہیم مراد کی یہ ٹویٹ پاکستانی میڈیا سے پہلے بھارتی سوشل میڈیا کے لیے لوگوں نے اچک لی اور اس پر تبصرے کرنے شروع کر دیئے۔ بعد ازاں ان تبصروں پر پاکستانی میڈیا نے مزید تبصرے کرتے ہوئے اس معاملہ میں حکومت پنجاب سے حاصل کردہ تصدیق کو بھی اپنی خبروں کا حصہ بنا لیا۔ ہمارے میڈیا نے اپنے پروگراموں میں پنجاب حکومت کے نمائندوں سے اٹک میں سونے کی موجودگی کی تصدیق تو کر لی لیکن شاید ہی کسی نے کوئی نامور جیالوجسٹ بلاکر اس سے ماہرانہ رائے حاصل کرنے کی کوشش کی ہو۔ اس معاملے میں مزید جانکاری کے لیے جب راقم نے کچھ جیالوجسٹ دوستوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ جیالوجسٹ صرف یہ تحقیق کر سکتے ہیں کہ اٹک میں دریائے سندھ کی ریت میں سونے کے ذرات کا تناسب کیا ہے لیکن جو ٹیکنالوجی دریا کی ریت سے سونے کے ذرات علیحدہ کرنے کے لیے معاون ثابت ہو سکتی ہے اس کے حصول اور درکار فنڈز کی دستیابی کے لیے وہ کچھ بھی طے نہیں کر سکتے۔ پنجاب کے سابق وزیر معدنیات ابراہیم حس مراد نے اپنی ٹویٹ کے ذریعے 10جنوری کو اٹک میں سونے کے ذرات کی موجودگی کا جو اعلان کیا اس پر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے جیالوجسٹ عرصہ دراز سے تحقیق کر رہے ہیں ۔ اس تحقیق کے ضمن میں جیالوجسٹوں نے صرف دریائے سندھ کے اٹک میں بہنے والے حصے کو مرکز نگاہ نہیں بنایا بلکہ اس کے لیے انہوں نے داسو گلگت بلتستان سے اٹک میں دریائے کابل کے دریائے سندھ میں ملنے کے مقام تک ان تمام علاقوں میں دریا کی ریت پر تحقیق کی جہاں عام لوگوں نے دہائیوں سے ریت اور سونا الگ کرنے کو اپنا ذریعہ معاش بنایا ہوا ہے۔ جو لوگ دریائے سندھ کی ریت سے سونے کے ذرات الگ کرتے ہیں ان کا کام کس قدر محنت طلب اور صبر آزما ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ہزار سے پندرہ سو تک ریت کے ذرات میں سونے کے ذرات کی تعداد صرف چار سے پانچ تک ہوتی ہے۔ جیالوجسٹوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دریائے سندھ کی ریت پر تحقیق کر کے اس میں سے سونے کے ذرات کا تناسب دریافت کرنا بڑی بات نہیں ہے بلکہ بڑی بات یہ ہے کہ جن پہاڑوں کی رگوں میں بہتا ہوا پانی اپنے ساتھ سونے کے ذرات لے کر آتا ہے ان پہاڑوں میں سونے کے ذخائر کی یقینی موجودگی پر تحقیق کی جائے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کی تحقیق نہ ہماری ترجیح ہے اور نہ ایسی تحقیق کے لیے ہمیں فنڈز دستیاب ہیں۔
سطور بالا میں بیان کی گئی باتوں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دریائے سندھ میں سونے کے ذرات کی موجودگی کی خبریں تو سو فیصد درست ہیں لیکن جن خبروں کے ذریعے ہمیں یہ تاثر اور تسلیاں دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ 2.8ملین تولا سونا یکا یک ریت سے علیحدہ ہو جائے گا اور یکایک پنجاب کے خزانے میں 800بلین روپی جمع ہونے سے پنجاب میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی ان خبروں کو کسی صورت قابل بھروسہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔

جواب دیں

Back to top button