Column

Tax System

خالد محمود

فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) سروے کے مطابق، کراچی سب سے زیادہ ٹیکس پیدا کرنے والا شہر ہے۔ مارکیٹوں کا جائزہ لیا تو وہ اجتماعی طور پر30.87ارب روپے ٹیکس ادا کرنے والا شہر ہے۔ ہمیں ٹیکس کو بطور رجحان دیکھنا ضروری ہے وہ ہے عوام سے اجتناب۔ بھارت اپنے عوام پر سالانہ 70ارب ڈالر خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستان عوام پر سالانہ6ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ اسے عوام پر ایک سال میں 12ارب ڈالر خرچ کرنا چاہئے۔ اسی طرح ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کرکے یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 33کروڑ افراد میں سے 14سے زائد فائلر ہیں۔ دوسرے ترقی یافتہ ممالک، جیسے چین ، برطانیہ اور کینیڈا میں انکم ٹیکس دہندگان کا80فیصد ہیں۔ ٹیکس ماہرین کے مطابق ایف بی آر کا موجودہ غالب نظام کسی بھی شعبے میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اسی لئے ٹیکس اصلاحات کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے جو باضابطہ شعبے پر ٹیکسوں کو کم کرتے ہوئے مناسب دستاویزات کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرے گی۔ اس سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے انٹرپرائز ( ایس ایم ای) کے شعبے کے لئے باقاعدہ فنانسنگ تک رسائی حاصل ہوگی۔
پاکستان میں ٹیکس کے نظام پر عوام صرف اسی وقت اعتماد کر سکتے ہیں جب حکومت کے ذریعہ انفراسٹرکچر، نقل و حمل، تعلیم، صحت میں ترقی نظر آئے گی اور ٹیکس ادا کرنے والوں کے پیسوں سے اور وقت گزرنے کے ساتھ ہی حکومت کے اخراجات کو روکنے کے لئے یہی واحد پیمانہ ہے۔ جب بھی ٹیکس کا لفظ آتا ہے، لوگ خوفزدہ ہوکر اپنی آمدنی اور اثاثے چھپانے پر مجبور ہوجاتے ہیں، پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے۔ حکومت کی کوشش کے باوجود عوامی اور کاروباری سطح پر وہ اعتماد نہیں پیدا نہیں ہو پا رہا جس کی ملک کو ضرورت ہے۔ کاروباری سرگرمی ختم کرنے کی قیمت پر اصلاحات ممکن نہیں ہیں۔ لہذا، بہتر ہے کہ مرحلہ وار اصلاحات کی جائیں، لیکن اس میں100فیصد آٹومیشن ہونی چاہئے اور یہ اصلاحات کسی بھی ڈونر ایجنسیوں کے حکم پر نہیں ہونی چاہئیں۔ ہمیں اپنے کاروباری رجحانات اور ثقافت کو مدنظر رکھتے ہوئے اصلاحات کی ضرورت ہے پھر یہ پائیدار ہوگا، بصورت دیگر یہ عمل جو پچھلے 72سال سے جاری ہے اس سے پائیدار پاکستان کی بہتری کے بجائے ٹیکس کے نظام کو نقصان پہنچے گا۔ ٹیکس ماہرین کا کہنا ہے کہ چند اقدامات کرکے ہم ٹیکسوں کا بہتر نظام وضع کر سکتے ہیں۔
1۔ سب سے پہلے وفاقی اور صوبائی ٹیکسوں کی وصولی کے لئے واحد ٹیکس اتھارٹی قائم کی جائے
2۔ پیشہ ورانہ تعلیم رکھنے والے افسران اور اہلکاروں کی بھرتی ضروری ہے۔
3۔ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں اور ٹیکس چوری کرنے والوں کے لئے فوری طور پر جزا اور سزا کے نظام کا تعارف
4۔ پورے ملک میں براہ راست ٹیکس وصولی کے لئے آٹومیشن کا موثر استعمال
5۔ بینکنگ ٹرانزیکشن ٹیکس تمام وفاقی صوبائی اور مقامی ٹیکس کو کامیابی کے ساتھ بدل سکتا ہے
6۔ تمام لوگوں کے کاروبار اور زندگی کو آسان اور آرام دہ بنایا جائے۔
7۔ ملک بھر میں ٹیکس کا یکساں نظام وضع کیا جائے۔
پاکستان میں ٹیکس کے نظام کو موثر اور مستحکم بنانے کے لئے کوئی طویل مدت حکمت عملی وضع نہیں کی گئی، ہر حکومت ٹیکس کا مناسب نظام بنانے میں ناکام رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اقتدار سنبھالنے والی حکومت نے آگے کی پالیسیاں مرتب کرنے کے بجائے سابقہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرایا اور سابقہ حکومتوں کے دور میں تھوڑی بہت بھی کی گئی اصلاحات کو آگے بڑھانے اور بہتر کرنے کے بجائے دوبارہ سے نئی اصلاحات پر کام شروع کیا گیا۔ یہ اقدامات ہمیشہ دو قدم آگے لے جانے کے بجائے تین قدم پیچھے جانے کا سبب بنے۔ بین الاقوامی افق پر دیکھا جائے تو دنیا بھر میں ٹیکس کی تین اقسام ہیں۔
1۔ کمائی پر ٹیکس ، جو براہ راست وفاقی حکومت کے خزانے میں جاتا ہے۔
2۔ لوکل گورنمنٹ ٹیکس ، لوکل سروسز کے لئے وصولی۔
3۔ سیلز یا ویلیو ایڈڈ ٹیکس ، یہ بالواسطہ ٹیکس کے زمرے میں آتا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس بنیادی طور پر بالواسطہ ذرائع کے ذریعے جمع ہوتا ہے اور براہ راست ذرائع سے بہت کم ہوتا ہے۔ کرپشن فری ٹیکس سسٹم کا واحد راستہ یہ ہے کہ ایف بی آر ایک واچ ڈاگ کی حیثیت سے کام کرے اور پوری مشق انفارمیشن ٹکنالوجی کے ساتھ کی جائے گی۔ ایف بی آر کی طرف سے بار بار کوئی نوٹسز، پانچ سال تک کوئی آڈٹ نہیں اور پانچ سال بعد جب کیس منتخب جائے تو ایف بی آر کے سسٹم میں ٹیکس ادا کرنے والے کا پورا ڈیٹا ہونا چاہئے، تاکہ کوئی بھی اسے چھپائے یا اسے حذف نہ کر سکے۔

جواب دیں

Back to top button