دو چہرے

تحریر: علیشبا بگٹی
چہرہ شخصیت کا عکاس ہوتا ہے۔ مگر انسان کے دو چہرے ہوتے ہیں۔ ایک جو وہ اپنے گھر والوں کو، لوگوں کو اور اپنے دوست احباب کو دکھاتا ہے، دوسرا وہ چہرہ جو وہ کسی کو نہیں دکھاتا اور یہی اس کا اصلی چہرہ ہوتا ہے۔ یعنی دنیا میں ہم سب مختلف روپ میں نظر آتے ہیں۔ ایک چہرہ وہ ہے جو ہم دنیا کو دکھاتے ہیں یہ ہمارا سماجی چہرہ ہے، خوش اخلاق، ہمدرد اور مہذب۔ لیکن دوسرا چہرہ ہمارا اندرونی چہرہ ہے، جو ہماری اصل شخصیت اور نیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ چہرہ اکثر چھپا ہوا رہتا ہے اور وقت یا حالات کے دبائو میں سامنے آتا ہے۔
’’ دو چہرے‘‘ ایک اردو محاورہ یا استعارہ ہو سکتا ہے۔ جس کا مطلب منافقت یا دوغلا پن بھی ہوسکتا ہے، یعنی وہ شخص جو مختلف حالات میں مختلف رویے یا کردار اپناتا ہے۔ یہ کسی ایسے انسان کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جو ایک وقت میں ایک چہرہ دکھائے اور دوسرے وقت میں کچھ اور۔
ہر آدمی کا ایک اپنا ذاتی ’’ صندوقچہ‘‘ ہوتا ہے۔ جس میں اس کی زندگی کے سارے سچ، کچھ تصویریں، چند خطوط اور گزرے وقتوں کے نقشے پڑے رہتے ہیں، جن کو وہ وقتاً فوقتاً زندگی میں نئے لائحہ عمل کے لئے استعمال میں لاتا ہے۔ اور ہم کہتے ہیں کہ یہ بندہ بہت ’’ سیانا‘‘ ہے، یہ کوئی کوئی ہی سمجھ پاتا ہے کہ وہ سچ کتنے ’’ تلخ‘‘ تھے، وہ تصویریں کتنے ’’ خوبصورت‘‘ لمحوں کی تھیں، وہ خطوط میں کیسی ’’ حسین یادیں‘‘ تھیں اور وہ نقشے کتنے ’’ مسحورکن‘‘ تھے کہ جن کو کبھی منزل سوچا تھا۔ یہ بھی اندرونی چہرے کے کچھ حصے ہوتے ہیں۔
انسانی زندگی عجیب بھول بھلیوں کا مجموعہ ہے، جہاں ہر راستہ ایک کہانی سناتا ہے۔ مگر کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں۔ جو زبان پر کبھی نہیں آتیں، مگر اپنے نقوش دل و دماغ پر چھوڑ جاتی ہیں۔ یہ کہانیاں وہ نہیں جو کسی کتاب کے ورق پر لکھی جائیں، بلکہ وہ ہیں جو چہروں کے پیچھے چھپے رویوں میں دفن ہوتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ قتل ہمیشہ خنجر یا بندوق سے نہیں ہوتا۔ کچھ قتل ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ نہ خون بہتا ہے، نہ لاش نظر آتی ہے، مگر پھر بھی ایک زندگی دم توڑ دیتی ہے۔ رویے انسان کو اندر ہی اندر سے مار دیتے ہیں۔ رویے انسان کے اندر کے چھپے چہرے کو مسخ کر دیتے ہیں۔
کمال کی بات یہ ہے کہ قاتل اپنی چالاکی میں مظلومیت کا ایسا کھیل رچاتے ہیں، کہ مقتول کو خود اپنے انجام کا قصوروار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ ظالم کے چہرے پر معصومیت کا ایسا نقاب ہوتا ہے کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان لکیر دھندلا جاتی ہے۔ کوئی عدالت ان رویوں کا مقدمہ نہیں سن سکتی، اور نہ کوئی گواہی ان زخموں کو ثابت کر سکتی ہے۔
یہی تو المیہ ہے کہ دنیا کے سب سے خطرناک قاتل وہ ہیں جن کے ہاتھوں پر کوئی نشان نہیں ہوتا، مگر وہ دلوں پر ایسے گھائو چھوڑ جاتے ہیں جو کبھی نہیں بھرتے۔ جو انسان کے اندرونی چہرے کو سدا دکھی کرتے ہیں۔
زندگی ایک گہری گتھی کی طرح ہے، جہاں ہر چہرے پر ایک نقاب ہے اور ہر دل میں ایک راز چھپا ہوا ہے۔ ہم جنہیں قریب سمجھتے ہیں، ان کے اندر کا جہان کتنا مختلف ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔ یہ دنیا ایک ایسا اسٹیج ہے جہاں ہر کوئی اپنے کردار میں مگن ہے، سچائی اور فریب کی لکیر دھندلی ہو چکی ہے۔ ہنسی کے پیچھے دکھ، محبت کے پیچھے مصلحت، اور الفاظ کے پیچھے بے شمار کہانیاں چھپی ہوتی ہیں۔ شعر ہے کہ
کیا دلکش، کیا بدصورت،
ہر چہرہ نقاب ہے ہر شخص باحجاب ہے۔
بقول شاعر
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ۔۔۔
مگر مومن کے چہرے پر نور اور منافق کے چہرے پر پھٹکار ہوتی ہے۔ منافق انسان باہر سے کچھ اور اندر سے کچھ ہوتا ہے۔ منافقت بھی بالکل ویسے ہے جیسے کوئی چہرے پر نقاب پہن لے، سامنے سے وہ ہنستا مسکراتا مخلص اور خیر خواہ لگے گا لیکن اندر سے اس کا دل تمہارے لیے کچھ اور ہی سوچ رہا ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ لوگوں کے عمل پر دھیان دینا چاہے ان کی باتوں پر نہیں۔
شعر ہے کہ
ہمارے شہر میں کچھ دن گزار کر دیکھو
اداسی رقص کرے گی اچھل کے چہرے پر
فضائے مکر نے صحرا کو کر دیا دریا
سراب سجنے لگے ہیں رمل کے چہرے پر
دو چہرے انسان کو کبھی نہیں بھولتے ایک مشکل میں ساتھ دینے والا دوسرا مشکل میں ساتھ چھوڑ جانے والا۔ بہرحال انسان کی شخصیت ایک پیچیدہ گتھی ہے جو مختلف پہلوئوں اور رویوں سے تشکیل پاتی ہے۔ مگر جب ہم ’’ دو چہرے‘‘ کی بات کرتے ہیں، تو یہ عام طور پر ایسے افراد کے لیے استعمال ہوتا ہے جو منافقت، دوغلے پن یا ظاہری اور باطنی تضاد کا شکار ہوں۔ ایسے لوگ ایک وقت میں ایک چہرہ اور دوسرے وقت میں دوسرا چہرہ دکھاتے ہیں، اور ان کی حقیقت کو سمجھنا اکثر مشکل ہوتا ہے۔
یہ دو چہرے معاشرے میں کئی مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ دوغلے لوگ اعتماد کو توڑتے ہیں اور تعلقات کو کمزور کرتے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے، اور یہی تضاد معاشرے کی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ وہ دوستوں کے سامنے مخلص بنتے ہیں مگر پیٹھ پیچھے برائی کرتے ہیں۔ ایسے لوگ خود کو فائدہ پہنچانے کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانے سے بھی نہیں کتراتے۔ مگر سوال یہ ہے کہ انسان دو چہرے کیوں اپناتا ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ بعض اوقات یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر اصل چہرہ سامنے آیا تو لوگ قبول نہیں کریں گے۔ کبھی مفاد پرستی اور خود غرضی انسان کو دوغلا بنا دیتی ہے، اور کبھی سماجی دبا اور مقابلے کی فضا۔ دو چہرے نہ صرف فرد کی ذات کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے بھی۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں لوگ ایک دوسرے پر اعتماد نہ کر سکیں، وہاں ترقی اور سکون ممکن نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی شخصیت کو سچائی اور خلوص کے ساتھ پروان چڑھائیں۔ ایک ایسا چہرہ اپنائیں جو ہمارے اندر اور باہر دونوں کو ظاہر کرے، تاکہ ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔
آئیے خود احتسابی کریں اور دیکھیں کہ کہیں ہم بھی ان دو چہروں کے حامل تو نہیں۔ سچائی، ایمانداری اور خلوص ہی وہ اقدار ہیں جو ہمیں ایک بہتر انسان اور ایک مضبوط معاشرہ بنانے میں مدد دیتی ہیں۔





