’’ ہک شخص‘‘

تحریر : امجد آفتاب
انگریزوں کا ایجاد کیا چھوٹا انقلابی آلہ جسے ہم ’ موبائل‘ فون کہتے ہیں وہ باقی دنیا کے انسانوں کی طرح میرے پاس بھی موجود ہے کیونکہ اس کی اہمیت اور ضرورت سے کوئی ذی شعور انکاری نہیں ہو سکتا۔ موبائل فون میں حسبِ روایت دیگر سوشل میڈیا کی طرح چینی مشہور ایپ ’’ ٹک ٹاک‘‘ بھی موجود ہے۔ ہر خاص و عام بالخصوص نوجوانوں میں مشہور اس چینی ایپ کی ’ آئی ڈی‘ شاید ڈیڑھ دو سال پہلے میں نے بنائی تھی، مگر اس کا استعمال بہت کم کرتا ہوں یا یوں سمجھ لیں اسے بنا کر بھول ہی گیا ہوں۔
زندگی کی مصروفیات اور الجھنوں سے کبھی جان ہی نہیں چھوٹتی کہ بندہ سوشل میڈیا پر رونق میلہ دیکھنے کیلئے اس ایپ پر جائے جہاں منچلوں کا مکمل راج ہے جو چند سیکنڈ کی ویڈیو بنا کر خوب داد سمیٹتے ہیں۔ کچھ شعر و شاعری، کچھ گانے وغیرہ اور کچھ مزاحیہ ڈائیلاگ پر اپنی اداکاری دکھاتے ہیں۔ اسلامی ویڈیوز بھی اس میں موجود ہوتی ہیں ۔
بہرحال، میں اپنے اصلی موضوع کی جانب آنا چاہوں گا۔
گزشتہ روز میری بوریت اور ذہنی تھکاوٹ کا انتہائی سخت دن تھا تو موبائل کی سکرین کو اوپر نیچے گھماتے ہوئے اس سوشل میڈیا ایپ ’’ ٹک ٹاک‘‘ کو کھول لیا جہاں کی رنگین دنیا مجھے بہا کر لے گیا، جہاں نئے نئے گانوں پر منچلے ویڈیوز بناتے اور اداکاری کرتے نظر آئے۔ جہاں دیگر ویڈیوز کو دیکھتے ہوئے کچھ لمحے کے لیے محظوظ ہوا تو وہاں ایک وائرل سرائیکی سونگ بار بار میرے سامنے آتا رہا، جس پر خوب ویڈیوز بنی ہوئیں تھیں جس کے بول کچھ یوں تھے،
’’ ہک شخص اے زہن توں نئی لہندا‘‘
جس کی تشریح کچھ یوں ہے کہ ’’ وہ ایک شخص جو میرے ذہن سے نہیں اتر رہا‘‘ آگے وہ کہتا ہے کہ
’’ ہتھ قلم کوں چینداں یاد آندے‘‘ اس کی تشریح یہ ہے کہ ’’ جب کچھ لکھنے کے لیے قلم اُٹھاتا ہوں تو وہ یاد آتا ہے‘‘۔ اسی سونگ اور ڈوہڑے کو جسے باقر نامی نوجوان گلوکار نے گایا ہوا ہوتا ہے بار بار سنتے اور اس لطف اندوز ہوتے ہوئے اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ گزشتہ سال 2024ء میں ایسا کون سا وہ شخص ہے جو مجھے بار بار یاد آتا رہا،
بقول شاعر
’’ ہک شخص زہن توں نئی لہنداں‘‘
وہ کون سا ایسا شخص ہے جس کی یاد مجھے 2024ء کے سال میں ستاتی رہی؟
ایسا کون سا وہ شخص ہے جو 2024ء میں میرے دل و دماغ پر سوار رہا، چھایا رہا جس کا درد مجھے آج تلک محسوس ہو رہا ہے جو میری محبت، اُنسیت وچھوڑے، وصال کا وہ مستحق ٹھہرے مگر میری رومانوی زندگی میں ایسا کوئی نہیں تھا۔ بہت ڈھونڈا مگر دنیا کی حسین وادیوں میں ایسا کوئی نہیں تھا ہاں مگر دور دنیا کے ایک ویران کونے میں جہاں اس دھرتی پر قیامت جاری ہے جہاں پر ظلم و جبر کے نئی داستاں لکھی جا رہی ہے وہاں ایک شخص کھڑا ہے۔ جس کی درد و آہ بکا نے مجھے سارا سال سونے نہیں دیا، جس کی آہ و بکا سے زمین و آسمان کانپ رہے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ وہی شخص میرے ہجر و وصال کا مالک ٹھہرا اور وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ ایک ’’ فلسطینی باپ‘‘ تھا۔
جی ہاں ایسے ہی ہے اگر سال 2024ء میں میری محبت اور ہجر و وصال کا کوئی مالک ٹھہرا تو وہ ایک مظلوم فلسطینی باپ ہے۔ وہ فلسطینی باپ جس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں پھول جیسے ننھے بچوں کی لاشیں اُٹھائی ہوئیں تھیں معصوم بچوں کی لاشے اُٹھائے ہوئے پیار سے کبھی ایک کو چومتا تھا تو کبھی دوسرے کو اور آسمان کی طرف منہ کر کے زور زور سے دھاڑیں مار کر رونے لگتا مگر جب وہ اپنے بچوں کے چہروں کو دیکھتا تو بالکل خاموش ہو جاتا جیسے بچے زندہ ہوں اور اسے دیکھ رہے ہوں اور اس سے سوال کر رہے ہوں کہ بابا آپ کیوں رو رہے ہو ہم تو زندہ ہیں۔
وہ مظلوم، بے بس اور بدنصیب باپ میرے ذہن سے ابھی تک نہیں اُتر رہا حالانکہ اس کی یہ دلخراش ویڈیو دیکھے عرصہ بیت مگر یقین جانیں میں اب بھی اُس کا درد محسوس کر رہا ہوں۔ جیسے اُس سرائیگی گانے میں اگلا مصرعہ آتا ہے کہ
’’ ہتھ قلم کوں چیندا یاد آندے‘‘ بالکل اسی طرح میرے ساتھ بھی ہجر و وصال کی یہی کیفیت ہے میں جب بھی کسی موضوع پر لکھنے کے لیے قلم اُٹھاتا ہوں تو وہ فلسطینی باپ مجھے یاد آجاتا ہے دل کرتا ہے کہ سب موضوع سب درد جو اس قلم سے بیان کرنے ہوتے ہیں اُن کو چھوڑ کر فلسطینی باپ کا درد لکھوں، ایک فلسطینی ماں کا درد لکھوں، ایک فلسطینی بچے کا درد لکھوں جو ایک دوسرے کے سامنے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔
آپ قارئین! اہل درد نے فلسطینی بچوں کی وہ والی ویڈیو بھی ضرور دیکھی ہو گی جہاں فلسطینی بچے لائن میں کھڑے ہاتھوں میں برتن اٹھائے کھانا لینے کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں تو ایکدم سے یہودی ریاست کا بھیجا ایک ڈرون اُن کے سروں کے اوپر سے گزرتا ہے اور فلسطینی بچے کھانی کو بھول کر ڈرون کو دیکھنے لگتے ہیں کہ اب یہ ہمارے سروں پر بم برسائے گا اور ہم یہی پر کھانے کے دو نوالے ملنے سے پہلے لقمہ اجل بن جائیں گے۔
یقین جانیں اُس لمحے فلسطینی بچوں کی آنکھوں میں اپنی موت کو سامنے دیکھ کر جو بے بسی اور درد محسوس ہوتا ہے اُس کے سامنے ہمارے دکھ درد کچھ نہیں۔ وحشی ریاست کی جانب سے آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ یہودی ریاست فلسطینوں کی نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر اُن پر مظالم ڈھا رہی ہے۔ غزہ مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ اس خونی کھیل میں اسرائیل کو امریکہ اور مغربی ممالک کی مکمل سربراہی حاصل ہے مگر مسلم ممالک صرف بیانات کی حد تک محدود ہیں وہ صرف زبانی جمع خرچ پر گزارہ کئے ہوئے ہیں اس کے علاوہ فلسطینوں کی مدد کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ بے بس و معصوم فلسطینی اسی طرح وحشی ریاست کے ظلم کا شکار ہو رہے ہیں۔ مسلم امہ اور باقی دنیا کے امن پسند ممالک کو چاہیے کہ وہ فلسطین میں کھیلے جانے والی خون کی ہولی کو بند کروانے کے لیے عملی اقدامات کریں تاکہ فلسطینوں کی نسل کُشی بند ہو سکے۔





