Column

44 ہلاکتیں، ایک اور المیہ

تحریر : رفیع صحرائی
یورپ جانے کے جنون میں مبتلا مزید 44 پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہلاک ہونے والے تمام پاکستانی غیر قانونی طریقے سے بحیرہ روم کے ذریعے ایک کشتی پر سوار ہو کر موریطانیہ سے اسپین جا رہے تھے۔ کشتی میں کل 86تارکینِ وطن سوار تھے۔ جن میں سے 50افراد ہلاک ہو گئے۔ پتا چلا ہے کہ یہ افراد کسی قدرتی حادثے کے سبب نہیں مرے بلکہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔ یہ کشتی 2جنوری کو اسپین کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ انسانی اسمگلروں نے بیچ سمندر میں جانے کے بعد مسافروں سے مزید رقم کا مطالبہ کیا۔ یہ بھی پتا چلا ہے کہ آٹھ روز تک کشتی کوسمندر میں روکے رکھا گیا۔ کشتی میں کھانے پینے کے سامان کی کمی تھی۔ اوپر سے موسم شدید سرد تھا۔ کچھ لوگ بھوک پیاس سے مرے۔ موسم کی شدت سے بیمار ہونے والوں کو کشتی کے عملے نے سمندر میں پھینک دیا۔ مسافروں پر شدید تشدد کیے جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔ وزیرِ اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے اور انسانی سمگلروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
حکومت پاکستان کو یقیناً معاملے کی سنگینی کا احساس ہے۔ چند روز قبل بھی ایسا ہی ایک حادثہ رونما ہو چکا ہے جس میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوگئی تھی۔ وزیر اعظم پاکستان نے اس معاملے کو بڑی سنجیدگی سے لیا تھا۔ ملک بھر میں انسانی سمگلروں کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے۔ سرکاری ایجنسیاں اور ادارے بڑی شد و مد سے اس گھنائونے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ ایسے میں ایک اور بڑے واقعے کے رونما ہونے نے المیے کو جنم دیا ہے۔ یہ افراد چار ماہ قبل اپنی آنکھوں میں سنہرے مستقبل کے سپنے سجائے اپنے گھر والوں اور پیاروں سے رخصت ہوئے تھے۔ کون جانتا تھا کہ وہ سفر آخرت پر روانہ ہو رہے ہیں۔ کسے معلوم تھا کہ وہ اپنے پیاروں کو آئندہ کبھی نہ دیکھ پائیں گے۔
انسانی سمگلنگ اور غیرقانونی طریقے سے لوگوں کا بیرون ملک جانا کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ طویل عرصے سے یہ کام جاری ہے تاہم گزشتہ چند سالوں میں اس دھندے میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اسی تناسب سے آئے روز ایسے حادثات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں انسانی جانیں چلی جاتی ہیں۔ حکومت کی بھرپور کوششوں کے باوجود اس دھندے پر قابو نہیں پایا جا سکا بلکہ اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس کاروبار کا روز افزوں بڑھنا ظاہر کرتا ہے کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث مافیا کو بڑے اور بااثر ہاتھوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ہر بڑے جرم کے پیچھے معزز سفید پوش ہی چھپے نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی کتنا بھی معزز، بااثر اور طاقتور کیوں نہ ہو۔ اس پر آہنی گرفت ڈال کر انصاف کے کٹہرے میں لانا بہت ضروری ہے۔ جب تک ان انسانی جانوں کے قاتلوں کو کڑی سزا نہیں ملے گی تب تک یہ دھندا ختم نہیں ہو گا۔
اب آتے ہیں اس معاملے کے ایک دوسرے اہم پہلو کی طرف کہ آخر کیا وجہ ہے لوگ لاکھوں روپے خرچ کر کے غیرقانونی طور پر اپنے ملک سے جانا چاہتے ہیں؟ لوگ کیوں خود کو موت کے منہ میں دانستہ ڈال کر یورپ کا سفر کرتے ہیں؟۔ اس کی ایک وجہ تو بہتر مستقبل کی تلاش ہے۔ وہاں روزگار پاکستان جیسا ہی ہے مگر خدمات کا پورا پورا معاوضہ ملتا ہے۔ گھنٹوں کے حساب سے معاوضہ حکومت طے کرتی ہے۔ کم از کم اجرت بھی اتنی ہوتی ہے کہ بندہ آسانی سے گزارا کر لیتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جو چند ڈالرز، پائونڈز یا یورو وہ بچا لیتا ہے جب انہیں پاکستان بھیجتا ہے تو وہ روپوں میں ایک بہت بھاری رقم بن جاتی ہے جو اس کے گھر والوں کے لیے خوشحالی کا باعث بنتی ہے۔ وہاں چھوٹے کام کی وجہ سے کسی کو گھٹیا یا کمی کمین نہیں سمجھا جاتا۔ قانون سب کا محافظ اور رکھوالا ہوتا ہی۔ قانون کی پابندی عام شہری سے لے کر حکمرانوں تک سب یکساں کرتے ہیں۔ وہاں ٹریفک اشارے پر روکنے کے جرم میں کسی پولیس والے کو گاڑی کے نیچے کچل کر نہیں مارا جاتا کہ سب کو قانون کی حکمرانی کا ڈر ہوتا ہے۔ وہاں قانون کسی کے گھر کی باندی نہیں ہے۔
یورپ، امریکہ اور برطانیہ میں سب کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع موجود ہیں۔ وہاں نسلی تفاوت نہیں۔ ذات برادری کی وجہ سے کسی کو رذیل اور کسی کو معزز کے عہدے پر فائز نہیں کیا جاتا۔ اگر ریسٹورنٹ میں عام مزدور لائن میں لگ کر کھانا لے گا تو بل گیٹس بھی اسی قطار میں لگا نظر آئے گا۔ انسانی جان کی وہاں قدر ہے۔ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ وہ تمام ممالک فلاحی ریاستوں کی عملی تفسیر ہیں۔ جو مراعات حکمرانوں کو حاصل ہیں انہی مراعات کا عام آدمی بھی حقدار ہے۔ وہاں سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی سیلری میں کٹ لگا کر حکمرانوں کی تنخواہیں 900فیصد تک بڑھانے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ سوشل سکیورٹی کی مد میں دی جانے والی رقم ان ممالک میں عزتِ نفس کو مجروح کئے بغیر ادا کی جاتی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ کی ادائیگی کی طرح پریشان اور ذلیل نہیں کیا جاتا۔ وہاں سیاسی اختلاف رکھنے والوں کو جیلوں میں ڈال کر وفاداری تبدیل کروانے کا سوچا بھی نہیں جاتا۔ وہاں سرکاری اداروں کی سربراہی سیاسی وزن کے حساب سے بانٹنے کا تصور بھی نہیں ہے۔
حکومت انسانی سمگلروں کو تو گرفت میں لے لے گی لیکن کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟ اصل کام ان وجوہات کا تدارک کرنا ہے جو ہمارے نوجوانوں کو اپنی زندگیوں سے کھیل کر یورپ کا سفر کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں، حکومتوں، اداروں اور سسٹم نے ملک کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ یہاں پر دوسروں کی عزت نفس کو پائوں تلے کچل کر تسکین حاصل کرنے کا چلن ہے۔ مخالفت کو برداشت کرنا تو دور کی بات ہے اختلاف رائے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ کرپشن کو قومی شناخت بنا دیا گیا ہے۔ ٹیلنٹ کی قدر کرنے کی بجائے اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ مخالف سیاسی بیانیے کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ سروس کو بند، محدود یا کم کر کے لاکھوں لوگوں کا کاروبار تباہ اور ملک کو روزانہ اربوں روپے کے نقصان سے دوچار کرنا یہاں معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ مزدور کی کم از کم تنخواہ 37 ہزار مقرر کر کے جب لاکھوں سرکاری ملازمین کو خود حکومت اس سے آدھی تنخواہ دے گی تو کون اس سسٹم پر اعتماد کرے گا۔ وجوہات تو اتنی ہیں کہ دس کالم بھی کم پڑ جائیں۔
بس گزارش یہی کرنی ہے کہ حضور! انسانی سمگلروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے ضرور نمٹیے لیکن ان وجوہات کو بھی دور کیجئے جو اس مکروہ دھندے کا باعث بنتی ہیں۔ اس ملک کو رہنے کے قابل بھی بنائیے۔ ورنہ ہمارے نوجوان آنکھوں میں سنہرے سپنے سجائے اسی طرح موت کی آغوش میں جاتے رہیں گے۔

جواب دیں

Back to top button