بھارت سب سے بڑا دہشت گرد ہے!

تحریر : شاہد ندیم احمد
بھارت گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے ذریعے عالمی برادری کو گمراہ کرنے میں مصروف ہے، لیکن اس کی ساری کوششیں رائیگاں جارہی ہیں، اس کے باوجود پاکستان مخالف بیان بازیوں سے باز نہیں آرہا ہے، اپنی دہشت گرد کارروائیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے دوسروں پر الزام لگا رہا ہے، گزشتہ دنوں بھارتی آرمی چیف جنرل اوپیندر دویدی نے ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے کشمیری مزاحمتی تحریک کی پشت پناہی کا الزام پاکستان پر عائد کر کے خطے میں بھارتی فوج کی بڑی تعداد کی موجودگی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ دنیا کشمیر کو سب سے بڑی انسانی جیل قرار دیتی ہے تو اس کے پیچھے بھارت کی فسطائیت اور جابرانہ اقدامات ہیں، جو کہ گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں سے زائد عرصہ سے کشمیریوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔
دنیا دیکھ رہی ہے کہ بھارت ایک طرف زبر دستی مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت بدل رہا ہے تو دوسری جانب کشمیریوں پر بے انتہا مظالم ڈھائے جارہے ، بھارت کو کشمیری عوام سے کوئی سروکار نہیں، اسے محض زمین کا ایک ٹکڑا چاہیے اور اس مقصد کی لیے خطے کا نسلی تناسب بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے ایک رپورٹ کے مطابق نئے ڈومیسائل قوانین کے تحت 50 لاکھ سے زائد ہندوئوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دے کر یہاں بسایا گیا ہے، جبکہ پانچ لاکھ پنڈتوں کیلئے اسرائیل کی طرز پر کالونیاں بھی بنائی جا رہی ہیں، اس وجہ سے مقامی آبادی میں بھارت سرکار کے خلاف نہ صرف نفرت بڑھتی جا رہی ہے، بلکہ اس کے خلاف مزاحمت بھی ہورہی ہے ، اس کو پاکستان کے ساتھ جوڑا جارہے اور اس آزادی کی تحریک کو دہشت گردی سے جوڑ کر پاکستان پر الزام لگایا جارہا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بھارتی آرمی چیف کے پاکستان سے متعلق بیان پر مسکت ردِعمل دیتے ہوئے مذکورہ بیان کو حقائق کے منافی اور مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش قرار دیا ہے، اس کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم سے توجہ ہٹانا ہے، پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی بھارتی چیف آف آرمی سٹاف اور وزیر دفاع کے بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بین الاقوامی طور پر ایک تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے، جس کی حتمی حیثیت کا تعین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل قرار دادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کیا جانا ہے، لیکن بھارت مان رہا ہے نہ ہی اپنے جارحانہ عزائم سے پیچھے ہٹ رہا ہے ، بھارت خود دہشت گردی کا گڑھ ہوتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دئیے رہا ہے۔
اس وقت بھارت جو کچھ کہہ رہا ہے اور جو کچھ کر رہا ہے ، اس کو عالمی سیاست پہ نظر رکھنے والے بڑی باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں، یہ سب کچھ اس وقت کیا جارہا ہے، جب کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے پرنسپل سٹاف افسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں ملاقات کر رہے ہیں اور دونوں ممالک کی عسکری قیادت نے پائیدار باہمی شراکت داری کو بیرونی اثرات سے محفوظ رکھنے پر اور خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے کیلئے مشترکہ کوششوں کی اہمیت کا اعادہ کیا ہے، یہ سب کچھ بھارت سے برداشت ہو پا رہا ہے نہ ہی اس پر خاموش رہ پا رہا ہے ، ایک کے بعد ایک پاکستان مخالف بیان داغ رہا ہے ، لیکن اس بیان بازی سے اپنا اصل چہرہ نہیں چھپا پائے گا ، جو کہ نہ صرف جنوبی ایشیائی میں، بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک دہشت گرد اور مذہبی انتہا پسند ریاست کے طور پر صاف دکھائی دے رہا ہے۔
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو گزشتہ برس اپریل میں برطانوی جریدے گارجین نے ایک جامع رپورٹ میں 2020ء سے اپریل 2024ء تک بھارت کو 20پاکستانیوں کے قتل کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت دنیا بھر میں ان لوگوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ جنہیں وہ اپنا دشمن سمجھتا ہے، پاکستان میں سرجیت سنگھ، سربجیت سنگھ اور کشمیر سنگھ سے کلبھوشن یادیو تک بھارت کی منظم ریاستی دہشت گردی کے لاتعداد شواہد موجود ہیں کہ جنہیں عالمی فورمز پر بھی پیش کیا جا چکا ہے، لہٰذا دوسروں پر الزام تراشی سے قبل بھارت کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور یہ باور کر لینا چاہیے کہ اس قسم کے پاکستان پر بھونڈے الزامات سے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالا جا سکتا ہے نہ ہی پاکستان کی سرزمین پر بھارت کے دہشتگردی میں ملوث ہونے کو چھپایا جاسکتا ہے۔
ے





