Column

سمجھنے کی بات

تحریر : ندیم اختر ندیم
آپ کچھ نہ کرتے نہ احتجاج نہ مذمتیں نہ اجلاس نہ کوئی کانفرنس نہ بیانات دیتے صرف مسلم ممالک اسرائیلی جارحیت پر اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ ہی کر دیتے تو حالات کچھ اور ہوتے۔ اسرائیل گھٹنے ٹیک دیتا ، اسکی کمر ٹوٹ جاتی اور غزہ میں تقریباً ڈیڑھ سال سے فلسطینیوں کی نسل کشی کا جو سلسلہ جاری ہے وہ رک جاتا اور فلسطین میں اسرائیل نے جو قیامت خیزی ڈھائی ہے ایسا نہ ہوتا ۔ اسرائیلی ظلم اس انتہا کو نہ پہنچتے ،کافروں نے غزہ کو دنیا کے نقشے پر ایک عبرت کے طور پر پیش کر دیا ہے ، صرف غزہ ہی نہیں کافروں کی طرف سے مسلمانوں کے لیے اس سے پہلے بھی عبرت کو اور بہت سی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ صدام حسین کو عین عید کے روز پھانسی دے کر بھی مسلمانوں کو عبرت کا ایک پیغام پہنچایا گیا۔ دنیا میں جہاں بھی کافر چاہتا ہے وہ اپنے مذموم عزائم کے مقاصد کے لیے چڑھ دوڑتا ہے جس کے لیے اسے کسی کی اجازت کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس وقت دنیا میں انصاف کو طاقت کا روپ دے دیا گیا ہے یعنی قانون اور انصاف کا دوسرا نام طاقت ہے کہ طاقتور اپنے انداز سے آئین قانون اور انصاف کی تشریح کرتے ہیں۔ اگر کوئی اس بات کو عذر بناتا ہے کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تو بالفرض آپ کسی کی زیادتی کا جواب اتنی ہی زیادتی یا اس سے دگنی زیادتی یا ظلم سے تو دے سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں کہ آپ کرہ ارض سے اس کا نام و نشان مٹانے پر ہی آجائیں لیکن کیا کہیے کیا کیجئے کہ دنیا میں طاقت ہی شرافت طاقت ہی دیانت طاقت ہی کو ہر فیصلوں سے تعبیر کر دیا گیا ہے ۔ بظاہرکائنات میں مسلمان بڑی تعداد میں ہیں لیکن طاقت میں اس وقت کافر زیادہ ہیں ، ایسا بھی نہیں کہ کافر پہلے تعداد اور طاقت میں زیادہ نہ ہوتے کافروں کو 1400 سال پہلے تعداد اور طاقت میں زیادہ ہونے کے
باوجود مسلمانوں نے اپنے جذبہ ایمانی سے شکست دی لیکن آج کا مسلمان اپنے حرص و ہوس، اقتدار اور کافر کے خوف کے گرداب میں ہے۔ کافر کا خوف کچھ مسلم حکمرانوں کے دلوں میں اس قدر راسخ ہو چکا ہے کہ شاید اس کے دل میں اب ایمان کی شمع روشن نہیں ہوتی، اس کی آنکھوں میں ایمان کی رعنائیاں نہیں پھوٹتی۔ں ایک چھوٹا سا اسرائیل اس وقت پوری دنیا کے مسلمانوں کو جیسے ہانک رہا ہے، اسرائیل نے غزہ سے لے کر لبنان تک، لبنان سے ایران، مصر، یمن اور اب شام تک وہ اپنے ناپاک قدم جما چکا ہے لیکن یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ اسرائیل ایران سے ہوتا ہوا کہاں تک پہنچنا چاہتا ہے۔ خیر یہ باتیں بارہا کی جا چکی ہیں اسرائیل کیا کرنا چاہتا ہے کہاں پہنچنا چاہتا ہے لیکن یہ بات ازبر ہو کہ اسرائیل جو کرنا چاہتا ہے وہ کر گزرتا ہے جہاں پہنچنا چاہتا ہے پہنچ جاتا ہے ،کافر نے علم اور سائنس ٹیکنالوجی میں اس قدر ترقی کر لی ہے کہ وہ کہیں دنیا کے کسی ایک کونے میں بیٹھ کر دنیا کے کسی دوسری کونے میں اپنے ہدف کو باآسانی نشانہ بنا سکتا ہے ۔ لبنان میں حزب اللہ کے رہنمائوں ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ یا جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت ہو یہ سب مثالیں مسلمانوں کے لیے عبرت کے طور پر پیش کی جا چکی ہیں۔ انہیں انجام کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ کافر مسلمانوں کو خوفزدہ کر کے وہ
دنیا میں اپنا تسلط جمانا چاہتا ہے جس میں وہ بہت حد تک کامیاب ہو چکا ہے۔ مسلمان حکمران کافروں کے خوف سے عالی شان محلات میں دبکے پڑے ہیں، مسلم امہ کے بااثر حکمران ہر طرح کے وسائل سے مالا مال تو ہیں لیکن ان کے دلوں میں کافر کا خوف اس قدر پختہ ہو چکا ہے کہ وہ دنیا میں کہیں بسنے والے کسی مسلمان یا کسی مسلم ملک پر کافروں کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کی صرف مذمت تو کر سکتا ہے لیکن وہ عملی اقدامات نہیں اٹھا سکتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کی طرف سے اسرائیلی یرغمالیوں کو جو پیغام پہنچا دیا گیا ہے کہ وہ اپنے صدارتی دفتر پہنچنے تک یرغمالیوں کو رہا کر دے ورنہ وہ غزہ کو جہنم بنا دیں گے ۔ مسلمانوں کیلئے نئے امریکی صدر کا یہ پیغام بھی کافروں کی مسلمانوں کے خلاف جاری نسل کشی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کا ایک پیغام ہے کہ مقبوضہ کشمیر ہو شام ہو لبنان ہو، ایران ہو دنیا کا کوئی بھی مسلم ملک اسرائیل اور امریکہ کے انتقام سے محفوظ نہیں اب فیصلے کا وقت آ پہنچا ہے مسلمان دنیا میں طاقت کے پجاریوں کے آگے سرنگوں ہونا چاہتے ہیں یا آبرو کے ساتھ سربلند ہونا چاہتے ہیں اور اگر مسلمان کافروں کے سامنے مل کر کھڑے ہوگئے تو کوئی انہیں تسخیر نہیں کر سکے گا۔ کافر جانوروں کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ،کوئی بھیڑیا یا جنگلی کتے جب ہرن یا ایسے دوسرے جانوروں کا شکار کرتے ہیں تو پہلے انہیں منتشر کرتے ہیں تاکہ وہ ایک جھنڈ، ایک غول سے الگ ہو جائیں جیسے ہی جانوروں کا جھرمٹ بکھرتا ہے تو جنگلی کتوں کو انکے شکار میں آسانی ہوتی ہے۔ یہی حال اس وقت اسرائیل امریکہ مسلم ممالک سے کر رہا ہے مسلمانوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی۔

جواب دیں

Back to top button