جیل اصلاحاتی کمیٹی سے توقعات ( سولہواں حصہ)

تحریر: امتیاز عاصی
عجیب تماشا ہ ہے ملک میں فوجداری قوانین تو ایک ہیں ؟ قتل کے مقدمات میں جن قیدیوں کی ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات لگی ہوں ان کی سزائے موت عمر قید میں بدل جائے تو پنجاب کی جیلوں سے 25سال پورے کرنے والوں کو رہائی ملتی ہے جب کہ انہی دفعات کے تحت عمر قید کے ملزمان کو دیگر صوبوں میں اٹھارہ سال بعد رہا کر دیا جاتا ہے جو اس امر کا غماز ہے انہیں ماہانہ کوارٹر اور تعلیمی معافی ملتی ہے جب کہ پنجاب کی جیلوں کے قیدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ستم ظرفی دیکھئے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید خان کھوسہ دہشت گردی کی دفعات کی تشریح کچھ اس طرح کرتے ہیں۔ قتل کے جن مقدمات میں جہاں کسی سے ذاتی عناد کی وجہ سے قتل ہو گیا ہو ایسے ملزمان پر دہشت گردی کی وہ دفعات لاگو نہیں ہوتی جن پر معافیوں کا اطلاق نہیں ہوتا اس کے باوجود پنجاب کی جیلوں میں کئی ہزار قیدی معافیوں سے محروم ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صوبے کی جیلوں میں ایسے قیدی جنہیں معافیوں سے محروم رکھا گیا ہے بائیس بائیس سال ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے جیلوں میں اصلاحات کے لئے جو کمیٹی قائم کی ہے قیدیوں کے ساتھ اس امتیازی سلوک کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے قیدیوں کو جیل میں ملنے والی سزائوں کے خلاف اپیل کا حق دے کر احسن اقدام کیا ہے ورنہ قیدی اپنی سزائوں کے بارے لاعلم ہوتے تھے انہیں سزائوں کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مروجہ طریقہ کار کے مطابق جیل کا اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کسی قیدی کے ہسٹری کارڈ پر اس کی خلاف کچھ لکھ دے جس کا جیل سپرنٹنڈنٹ کو علم نہیں ہوتا ہے۔ بیرک کا کوئی انچارج ہیڈ وارڈر یا اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کسی قیدی سے ناخوش ہو تو اس کے ہسٹری کارڈ پر پیشی لکھ دی جاتی ہے۔ کمال سسٹم ہے قیدیوں کے ہسٹری کارڈ قیدی نگرانوں کے پاس ہوتے ہیں جنہیں کسی دور میں نمبردار کہا جاتا تھا۔ ہمیں خود اس کا ذاتی طور پر تجربہ ہوا ہے ایک اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جو کلرک سے افسر بنا تھا اس نے ہماری اپنے طور پر پیشی لکھ دی قیدی نے بھوک ہڑتال کی ہے۔ یہ تو بھلا ہو ایک اور افسر کا جب ہم نے اس بات کا ذکر اس سے کیا تو اس نے دریافت کیا تمہیں اس بات کا کیسے علم ہو ا ہے۔ جب ہم نے بتایا جس قیدی کے پاس ہسٹری کارڈ ہوتے ہیں اس نے بتایا ہے جس کے بعد اللہ بھلا کرے اس افسر کا اس نے ہمارا ہسٹری کارڈ منگوا کر پھاڑ دیا اور ایک نیا کارڈ بنا کر اس پر جیل سپرنٹنڈنٹ کے خود دستخط کر دیئے۔ جن قیدیوں کے ہسٹری کارڈ پر بھوک ہڑتال کرنے کا لکھا ہو جب انہیں کسی دوسری جیل میں بھیجا جاتا ہے تو ایسے قیدیوں کو خوب درگت ہوتی ہے کیونکہ ایسے قیدی جیل حکام کی نظر میں بہت برے سمجھے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ تحریر کرنے کا مقصد یہ بتلانا مقصود ہے جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ کیا کیا زیادتیاں ہوتی ہیں۔ حقیقت میں ہونا چاہیے جن قیدیوں کے ہسٹری کارڈ پر کسی قسم کی پیشی لکھی جائے انہیں اس سے متعلق آگاہ کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنی اصلاح کر سکیں۔ یہ بات ویسے بھی انصاف کے اصولوں کے منافی ہے سولہ گریڈ کا اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ قیدیوں کے ہسٹری کارڈ پر جو چاہئے لکھ تھے اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو اس کا علم نہ ہو لہذا کسی قیدی کے خلاف کوئی پیشی لکھنی مقصود ہو تو ہسٹری کارڈ پر جیل سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایگزیکٹو دونوں کے دستخط ضروری ہیں یا کم از کم ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے ہونے چاہئیں۔ جیل ملازمین کا معمول ہے معمولی معمولی باتوںپر قیدیوں کی پیش لکھوا دیتے ہیں۔ ایک جیل افسر داعی اجل کو لبیک کہہ چکا ہے اس کا کام یہی تھا جو قیدی پیسے نہیں دیتا تھا اس کا چالان محض انتظامی امور تحریر کرکے نکال دیتا تھا۔ جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس کو اپنے وارنٹ آفس پر بھی نظر رکھنی چاہیے قیدیوں کے چالان کی سفارش کرتے وقت ان کے ریکارڈ کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ اور آئی جی جیل خانہ جات کو ایسے قیدیوں کے کیسز بھیجنے چاہئیں۔ پنجاب کے محکمہ داخلہ نے انگریز دور کی روایت کو ختم کرتے ہوئے قیدیوں کو جیلوں کے کسی بھی دورہ کے موقع پر اپنے سر نیچے رکھنے سے منع کر دیا ہے ورنہ جیلوں میں روزانہ دورہ کے موقع پر جب سپرنٹنڈنٹس ان کی بیرکس یا سیلوں میں دورہ کرتے تھے تو قیدیوں نے اپنے اپنے سر جھکا رکھے ہوتے تھے۔ بلاشبہ جیلوں کا کئی عشروں والا وہ ماحول نہیں رہا ہے بہت سے سپرنٹنڈنٹس قیدی دوست ہوتے ہیں۔ اگلے روز سنٹرل جیل راولپنڈی جانے کا اتفاق ہوا چودھری عبدالغفور انجم کے آفس ریک پر پڑھی کتابیں دیکھ کر معلوم ہوا وہ جیلر کے ساتھ ایک ادبی شخصیت بھی ہیں۔ دو گھنٹے پرمحیط ملاقات میں مرنجا مرنج شخصیت کے مالک عبدالغفور انجم کو ایک روایتی جیلر کی بجائے قیدی دوست جیلر پایا۔ منگل کا دن سزائے موت کے قیدیوں کی ملاقات کے لئے مختص ہونے کے باعث جیل کے باہر ملاقاتی شیڈول میں معمول کے مطابق گہماگہمی نہیں تھی۔ ایک طرف جہاں وہ مہمانوں سے محو گفتگو تھے تو دوسری طرف جیل کے نظم و ضبط پر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ ہمارے استفسار پر پیرول پر رہائی کے لئے ماہر نفسیات کی سفارش کو کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے تو جیل میں متعین ماہر نفسیات خاتون افسر کو انہوں نے جواب دینے کو کہا۔ انہوں نے بتایا دورہ کے دوران وہ قیدیوں سے حال احوال ضرور کرتے ہیں البتہ ڈسپلن خراب کرنے والے قیدیوں کے لئے کسی قسم کی رو رعایت نہیں رکھی جاتی۔ انہوں نے بتایا جب سے وہ سنٹرل جیل راولپنڈی تعینات ہوئے ہیں حق تعالیٰ کے فضل سے لڑائی جھگڑے میں کسی قیدی کی موت واقع نہیں ہوئی ہی۔ منگل کے روز سابق وزیراعظم عمران خان کی ملاقات کے موقع پر باقاعدہ ایس او پیز کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ سینٹرل جیل کے اطراف میں ہو کا عالم تھا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے آفس سے اندرون جیل داخلے کے موقع پر ملاقاتیوں کے ہاتھوں پر خصوصی مہر لگائی گئی تاکہ جیل سے باہر آتے وقت ان کی شناخت میں دشواری کا سامنا نہ ہو۔۔۔ (جاری ہے)





