Column

اور اب ڈاکو راج

تحریر : سیدہ عنبرین
ہالی وڈ کی ایک تقریب میں خالق ارض و سماوات کے حوالے سے رکیک جملے کہے گئے، پھر چند گھنٹے بعد لاس اینجلس میں قیامت برپا ہو گئی۔ قیامت بھی ایسی جس میں ابھی پہاڑوں نے اپنی جگہ نہیں چھوڑی، وہ روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں نہیں اڑنے لگے تھے، صرف آگ لگی اور پھر تیز ہوا کے زور پر شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جا پہنچی، آگ بجھانے والے میدان میں آ گئے، ان کی تعداد ہزاروں میں تھی، وہ بھڑکتی ہوئی آگ پر جتنا پانی پھینکتے آگ اتنی ہی شدت سے آگے بڑھنے لگتی، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آگ پر پانی نہیں پٹرول چھڑکا جا رہا ہے۔ ہوائی جہاز آئے اور آگ پر کیمیکل ملا گلابی پانی پھینکنے لگے، آگ پھر بھی نہ بجھی۔ جہازوں نے فوم پھینکنا شروع کیا مگر تمام تر ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود آگ لگنے کے چوتھے روز بتایا گیا بلکہ اعتراف کیا گیا کہ ہم تمام تر کوششوں کے باوجود کہیں ایک فیصد، کہیں 3فیصد آگ پر قابو پا سکے، بھڑکتی آگ نے دہکنے کے بعد انسانوں کے جسموں سے کھال اور درختوں کی چھال کو ایک ہی طریقے سے اتارا۔ اندازہ کیجئے جب اصل قیامت برپا ہو گی تو صورت کیا ہو گی ۔ لاس اینجلس کے باسیوں کو دن قریباً 12بجے ریڈیو کے ذریعے آتشزدگی کی پہلی اطلاع ملی، نصف سے زیادہ لوگ جو رات گئے گھر لوٹے تھے ابھی محو خواب تھے، کچھ مدہوش تھے، یہی وہ لوگ تھے جو ایسے سوئے کہ پھر نہ اٹھ سکے، ان کے کمرے سائونڈ پروف، ایئر ٹائٹ، انہیں علم ہی نہ ہو سکا باہر کیا ہو رہا ہے، ان کی تعداد اب تک بتائی گئی، تعداد سے بہت زیادہ ہے، شاید سیکڑوں تک پہنچ جائے، جو تعداد بتائی گئی ہے وہ تو ان کی ہے جو زخمی حالت میں ہسپتالوں تک لائے گئے اور وہاں دم توڑ گئے، ان کی لاشیں شمار ہو گئیں، لاتعداد ایسے ہیں جو ملبے تلے دبے ہیں، آگ پر مکمل قابو پانے کے بعد جب صفائی کرنے والا عملہ آئے گا تو وہ ان لاشوں کو کہیں پہنچائے گا، جس کے بعد درست تعداد سامنے آئے گی۔ امریکہ اپنی روایت پر قائم رہتے ہوئے کسی بھی جنگ یا کسی بھی حادثے میں مرنے والوں کی درست تعداد کبھی نہیں بتاتا، لیکن اس معاملے میں حقائق چھپ نہ سکیں گے کہ سب کچھ اب ان کے اداروں کے کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے ۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے آگ کی خبر سن کر باہر نکل کر دیکھا تو انہیں اپنے آس پاس کوئی ایسی پریشانی کی بات نظر نہ آئی، وہ یہ سمجھ کر سوچ کر مطمئن ہو گئے کہ آگ ان کے گھروں سے کہیں بہت دور لگی ہے، وہ مطمئن ہو کر اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے، آگ لگنے کی پہلی خبر پا کر جو علاقے سے نکل گئے، ان پر خیریت گزری، ان کی املاک ضرور تباہ ہوئیں، لیکن تاخیر کرنے والے پھر آگ کے اس دریا سے نہ نکل سکے۔
جن گھروں میں کوئی بیمار تھا یا بہت زیادہ ضعیف تھا، انہیں ویل چیئر یا اسٹریچر کے ذریعے وہاں سے نکالنا آسان نہ تھا، کچھ ایسے تھے جو اپنے پالتو کتوں اور بلیوں کو ساتھ لے جانے پر مصر تھے، جب اچانک ہزاروں گاڑیاں ایک وقت میں سڑکوں پر آئیں تو ٹریفک جام ہو گیا، آگے راستے بند ہو گئے، جبکہ عقب سے آگ پھنکارتی ہوئی ان کے تعاقب میں تھی۔
ٹیکنالوجی پر ناز کرنے والے اس موقع پر مصنوعی بارش نہ برسا سکے، کیونکہ نہ بادل سر پر تھے، نہ ان میں پانی تھا کہ عرصہ دراز سے علاقے میں بارش نہ ہوئی تھی، جس کے سبب ہر پتہ، ہر ڈالی، ہر درخت خشک تھا اور جلنے پر آمادہ نظر آتا تھا، رہی سہی کسر چیڑ کے درختوں نے پوری کر دی، جو ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں لگائے گئے تھے، ان میں سے نکلنے والے تیل نے آگ کا کام مزید آسان کر دیا۔
عمر بھر فائر فائٹنگ کرنے والے تجربہ کار افراد نے بتایا کہ آگ کی رفتار 10کلو میٹر فی گھنٹہ تک ہو تو ہم آگ پر قابو پا سکتے ہیں لیکن یہی رفتار اگر 30کلو میٹر فی گھنٹہ ہو جائے تو پھر آگ کو بجھایا نہیں جا سکتا، صرف اسے آگے ہی آگے بڑھتا دیکھا جا سکتا ہے۔ لاس اینجلس میں یہی ہوا، سب تدبیریں الٹی ہو گئیں۔ پانی کے ٹینک خالی ہونے کے بعد آگ بجھانے کیلئے ایسے جہاز استعمال کئے گئے جو سمندر سے پانی لے کر آگ پر پھینک رہے تھے، یہ جہاز ہنگامی طور پر کینیڈا حکومت نے بھیجے تھے، وہی کینیڈا جیسے امریکہ اپنی ریاست بنانا چاہتا ہے اور اس خواہش کا اظہار ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھانے سے قبل ہی کر چکے ہیں۔
آگ جس تیزی سے پھیلی اس نے کسی کو اتنا وقت نہ دیا کہ کوئی اپنی قیمتی اشیاء کو نکال سکتا، لاتعداد افراد ایسے تھے جو شب خوابی کے لباس میں گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے، انہوں نے اپنے جلتے گھروں پر آخری نظر ڈالی، اس گھر میں ان کی زندگی کی جمع پونجی کے ساتھ ان کے خواب بھی جل کے راکھ ہو گئے۔
چند ماہ قبل ہالی وڈ سے تعلق رکھنے والا جیمزوڈ غزہ پر بمباری کے دوران ٹی وی کے پروگرام میں کہہ رہا تھا کہ غزہ کو جلد سے جلد ملیا میٹ کر دینا چاہئے، پھر یہی جمیزوڈ اپنا گھر جل جانے کے بعد روتا ہوا اس واقعے کی تفصیلات بتا رہا تھا۔ کیلیفورنیا حکومت اور انتظامیہ نے بغیر وقت ضائع کئے خیمہ بستیاں آباد کر دی ہیں، جہاں افراد پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ان جہازی سائز کے خیموں میں ضروریات زندگی کے انبار لگا دیئے گئے ہیں۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ ان کے پالتو جانوروں کیلئے خوراک کے انتظامات کئے گئے ہیں، جبکہ انسانوں اور جانوروں کیلئے ڈاکٹر بھی 24گھنٹے ان کیمپوں میں موجود ہیں، ان کیمپوں میں دنیا کی ہر آسائش بشمول شراب موجود ہے، لیکن ہر طرف ایک پراسرار خاموشی ہے، لوگ حالت صدمہ میں ہیں، کوئی کسی سے زیادہ گفتگو نہیں کرتا نظر آتا۔ این جی اوز اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، جو بہت مثبت ہے، بوڑھوں اور عمر کے آخری حصے میں پہنچ جانے والوں کی دلجوئی کی جا رہی ہے، انہیں بتایا جا رہا ہے کہ وہ بہت جلد اپنے گھروں میں ہوں گے، لیکن وہ خوب جانتے ہیں، ان کی دنیا جس طرح اجڑی ہے، شاید اب کبھی اس طرح ان کی زندگی میں آباد نہ ہو سکے گی۔
امریکہ کو آگ کے مکمل طور پر بجھ جانے کے بعد نئے چیلنجز کا سامنا ہو گا، راکھ کے ڈھیر اور چلنے والی ہوا آنکھ، ناک، کان، گلے اور معدے کی بیماریاں ساتھ لائے گی، ہزاروں بے گھر افراد کو نئی رہائش کی تلاش ہو گی، کرائے کے گھر اتنی تعداد میں دستیاب نہیں ہیں، جن کے کاروبار تباہ ہو گئے، وہ کرایہ کہاں سے دیں گے اور گزر بسر کیسے کریں گے، وہاں ہر چیز قسطوں پر خریدی جاتی ہے، آمدن کا بڑا حصہ ان کی اقساط میں ادا ہوتا ہے، گھر بار تو جل گیا، ان کی اقساط کون اور کیسے ادا کرے گا، بڑی مشکل یہی ہے۔ حکومت کی طرف سے بڑے ریلیف پیکیج کے بغیر تباہ حال خاندانوں کی بحالی ممکن نہ ہو گی، مہذب ترین سمجھے جانے والے ملک امریکہ میں آتشزدگی کے بعد ڈاکو اس علاقے میں پہنچ گئے ہیں، انہوں نے تباہ حال گھروں میں گھس کر قیمتی اشیاء کی تلاش اور بچ جانے والے سامان کی لوٹ مار شروع کر دی ہے۔ صورتحال کے پیش نظر نیشنل گارڈز کو حفاظت کیلئے طلب کر کے کرفیو لگا دیا گیا ہے، کاش دنیا غزہ اور لاس اینجلس میں بسنے والوں کو ایک نظر سے دیکھے، دونوں کو ایک جیسا انسان سمجھے، دونوں کی مشکلات ایک جیسی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button