Column

اللہ کی رضا۔۔۔(حصہ سوم)

تحریر : پروفیسر محمد عبد اللہ بھٹی
مجبور بے بس باپ آغوش میں معذور بچہ لیے ملتجی نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں امید کے چراغ روشن تھے وہ مجھ گناہ گار کو مسیحا سمجھ بیٹھا تھا اور میں اپنے ہی عرقِ ندامت میں غرق اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا معذور بچوں کے ڈھانچہ نما مڑے تڑے جسم باپ کی بے چارگی، لا چارگی اور بے بسی نے کمرے کی فضا پر سوگواریت کی سیا ہ چادر تان دی تھی۔ کوئی جب بھی مدد طلب نظروں سے میری طرف دیکھتا ہے تو میرا دل کر تا ہے اپنا آپ بیچ کر اس کی مدد کروں اسے اس تکلیف درد اور بیماری سے نکالوں ہمیشہ ایسے لوگوں کے دکھ کو دیکھ کر ہی خالقِ بے نیاز کے حضور سر جھکاتا ہوں کہ وہ رحمٰن، رحیم اپنی رحمت کی برسات ایسے دکھی لوگوں پر کر دے اور میرے سوہنے رب نے ہمیشہ ہی اِس فقیر کی لاج رکھی اور دستِ رحمت سے ہی نوازا اب میں نے شفقت بھرے لہجے میں مجبور باپ سے کہا آپ حکم کریں میں آپ کے لیے جو بھی کر سکا ضرور کروں گا اور آپ کے لیے کچھ کر نا میرے لیے بہت بڑی سعادت ہو گی اب میری بات سن کر باپ نے اپنی بیٹی کو آواز دی تو چند لمحوں بعد ایک خوش شکل شریف حیا دار لڑکی اندر آئی اور سلام کیا، ساتھ ہی لڑکی کی کمزور بیمار ماں بھی اندر آگئی، اب باپ نے بات شروع کی سر میرے پانچ بچے ہیں جن میں چار لڑکیاں اور ایک بیٹا ہے، یہ میری سب سے بڑی بیٹی ہے، جو تندرست ہے، باقی چاروں بچے معذور ہیں، آپ اِن بچوں کو دیکھ رہے ہیں، آپ نے بہت سارے معذور بچے دیکھے ہوں گے لیکن اِن بچوں کی معذوری بہت ہی درد ناک اور پراسرار ہے وہ اِس طرح کہ باقی بچے حرکت بھی کرتے ہیں چلتے بھی ہیں اور اکثر تو بولتے بھی ہیں لیکن میرے بچے ان بچوں سے بہت مختلف ہیں میرے بچوں کی معذوری زیادہ پیچیدہ ہے اِس بیماری نے اِن کو اِس طرح کھا لیا ہے کہ اب اِن کی ہڈیوں کے گودوں تک سرائیت کر گئی ہے شدید بیماری نے کمزوری اور نقاہت کو اِس درجہ بڑھا دیا ہے کہ یہ اپنی مرضی سے حرکت تک نہیں کر سکتے اِن کے منہ سے ہوں ہاں بس اِس سے زیادہ یہ بول بھی نہیں سکتے ہی اپنی مرضی سے کروٹ بھی نہیں بدل سکتے کھا نا پینا یہ بتا نہیں سکتے اِن کی بھوک پیا س اور حاجات کا خیال میں اور میری یہ بڑی بیٹی رکھتے ہیں ہم نے دن رات کا وقت بانٹا ہوا ہے ہم اِن کی آنکھوں کے اشاروں یا وقت سے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں اِن بچوں میں بیٹا اور بڑی بیٹی اپنی آنکھوں کے اشاروں سے اپنی حاجت یا با ت ہمیں سمجھا سکتے ہیں دوسری دو بیٹیاں تو اِس درجہ تک معذور ہیں کہ بے حس زندہ لا شوں کی طرح پڑی ہیں ان کو ہم وقت کے ساتھ ہی ڈیل کر تے ہیں اِب بچوں کی معذوری اور صحت کے لیے میں نے وطن عزیز کے چپے چپے کی خاک چھانی ہے جہاں کہیں بھی مجھے امید کی کرن نظر آئی میں دوڑنا ہوا وہاں گیا عاملوں بابوں گدی نشینوں کی لوٹ مار کی داستانیں بہت درد ناک ہیں جنہوں نے مجھے خوب لوٹا کسی نے جادو کی بات کی کسی نے جنات کا رونا رویا ہر کسی نے تجربہ ہی کیا میرے بچے لیبارٹری بنے رہے اور میں لٹتا رہا اس باپ کی درد ناک داستان سن کر کانپ اور لرز رہا تھا کہ اِن معذور بچوں کو دیکھ کر بھی اگر کسی کو خدا یا د نہیں آیا تو وہ یقینا ظالموں میں سے ہی ہوں گے اِن بچوں کو دیکھ کر تو شدت سے خدا یاد آجاتا ہے کون جہنمی اور لعنتی لوگ تھے جنہوں نے اِس بے بس باپ کو بھی لوٹنے سے گریز نہیں کیا وہ درد ناک لہجے میں در بدر بھٹکنے کی داستان سنا رہا تھا سر میں نے اپنی پو ری کو شش کی جہاں مجھے خبر ملی میں دوڑ کر گیا اور پھر تھک ہا ر کر اِن بچوں کی معذوری خدا کی رضا سمجھ کر بیٹھ گیا کہ جس رنگ میں میرا خدا راضی ہے میں بھی اسی رنگ میں ہی راضی ہوں ۔ میری جنرل سٹور نما پر چون کی دوکان ہے میں صبح جا کر دوکان کھول لیتا ہوں سارا دن مزدوری کر کے جب واپس آتا ہوں اور جب اپنے بیٹے یا بیٹی کو گود میں لے کر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہوں تو تب اِن کی آنکھوں میں آشنائی کی چمک آتی ہے تو یہ صرف ہاں ہوں کرتے ہیں اِن کا یہ معصوم رد عمل میری دن بھر کی تھکاوٹ کو دور کر دیتا ہے میں سارا دن اِس انتظار میں رہتا ہوں کہ کب گھر جائوں گا اپنے معذور بچوں کو اپنی آغوش میں لوں گا ان کی آنکھوں کی چمک اور معصوم ہوں ہاں سے میری دن بھر کی تھکاوٹ دور ہو جا تی ہے سر میں اللہ کی رضا میں راضی ہوں مجھے اپنے اللہ سے کوئی شکوہ شکایت نہیں ہے اگر اس نے مجھے اِس حال میں رکھنا ہے تو میں اِس میں بھی راضی ہوں میں آپ سے صرف یہ درخواست کر تا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے اور اتنا رزق کہ میں اِن بچوں کی خدمت کر سکوں میں میری بیوی اور میری بیٹی اِن معصوم فرشتوں کی ڈیوٹی میں ہی بہت خو ش ہیں میری بڑی بیٹی کیونکہ صحت مند ہے اور ا ن کی ماں جیسی بہن بھی ہے میری یہ بیٹی اپنی بیمار ماں اور اِن بچوں کی سارا دن دیکھ بھال کر تی ہے سر آپ کو جس مسئلے کے لیے بلایا وہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں راضی تھے بیٹی جوان ہوئی تو رشتے آنے شروع ہو گئے پہلے تو بیٹی نے بہت انکار کیا کہ میں اپنے بہن بھائیوں کو چھوڑ کر نہیں جائوں گی لیکن پھر ہما رے رشتہ داروں میں ایک ایسا رشتہ آیا جنہوں نے کہا کہ آپ ہما رے بیٹے کو گھر داماد بنا لیں ہم اِس خدمت میں آپ کا بھر پور ساتھ دیں گے اور پھر میں نے اپنی بیٹی کی ناں ناں کر نے پر ا س کی شادی کر دی اور ہمارا داماد ہما رے گھر آگیا شروع میں تو ہما رے داماد نے اعتراض نہیں کیا لیکن آہستہ آہستہ اس نے اعتراض کر نا شروع کر دیا کیونکہ داماد کا ہما رے بچوں سے خونی رشتہ نہ تھا اِس لیے وقتی ہمدردی چند دنوں میں ہی دم توڑ گئی اس کے روئیے میں پہلے سر د مہری پھر غصے کی آمیزش بڑھتی گئی اب اس نے کھلے لفظوں میں کہنا شروع کر دیا کہ میں گھر داماد بن کر یہاں نہیں رہ سکتا ہما ری بیٹی پر پریشر ڈالنا شروع کر دیا کہ تم یہ گھر چھوڑ کر میرے گھر چلو ہماری بیٹی نے دبے لفظوں میں بار بار وہ وعدے یاد دلائے کہ یہ شادی تو ہوئی ہی اِس شرط پر تھی کہ میں اپنے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کروں گی اور تم گھر داماد بن کر رہو گے لیکن داماد صاحب پر کوئی بھی اثر نہ ہوا آخر اس نے ہمارا گھر چھوڑ دیا ہم نے داماد کی بہت منتیں کیں کہ اس طرح نہ کرو ہمارا گھر نہ چھوڑو ہم نے تو پہلے ہی سب کچھ بتا دیا تھا لیکن وہ اپنی ضد پر اڑا رہا وہ ایک ہی بات کرتا ہماری بیٹی سے کہ یا مجھے چن لو یا اپنے معذور بہن بھائیوں کو آخر جب وہ باز نہ آیا تو ہما ری بیٹی نے اپنے بہن بھائیوں کو چن لیا اب ہماری بیٹی دو سال سے ہمارے گھر ہی بیٹھی ہے یہ دن رات اپنے بہن بھائیوں کی خدمت کر تی ہے لیکن ہم میاں بیوی جب بھی اِس کی آنکھوں کی نمی اور سوگواریت دیکھتے ہیں تو کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ میں جو اپنے معذور بچو ں کی معذوری کو مقدر کا لکھا سمجھ کر صبر شکر کر کے بیٹھا تھا جب بھی اپنی جوان بیٹی کو اپنے گھر میں سوگوار دیکھتا ہوں تو کبھی کبھی میرے صبر کا پیمانہ چھلک پڑتا ہے اور میں اللہ تعالیٰ سے عرض کرتا ہوں اے میرے خدا میں نے تیرا ہر فیصلہ دل سے قبول کیا دل سے مانا لیکن اے اللہ بیٹی کا دکھ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا میں روزانہ اپنی بیٹی کو دیکھ کر ریزہ ریزہ ہوتا ہوں یہ غم میری برداشت سے باہر ہے یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر دھاڑیں مار کر رونے لگا اور میری آنکھوں سے بھی آنسوئوں کے آبشار ابل پڑے ۔

جواب دیں

Back to top button