پنشنرز بوجھ نہیں ہیں

تحریر : رفیع صحرائی
موجودہ حکومت نے پنشن اصلاحات کے نام پر پنشنرز کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ساری دنیا میں بزرگ شہریوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہانے کا رواج ہے۔
پنشنرز کسی ملک کے وہ سنیئر سٹیزن ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی بھرپور جوانی ادھیڑ عمری اور بڑھاپے کے چند سال حکومتی مشینری کے کل پرزے کے طور پر گزارے ہوتے ہیں۔ یعنی اپنی زندگی کا آدھے سے دو تہائی عرصہ کسی حکومتی ادارے میں اپنی خدمات سرانجام دی ہوتی ہیں۔ ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد یہ سرکاری ملازمین محنت مزدوری یا کاروبار کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ ان کی ساری جسمانی اور ذہنی طاقت حکومتی نوکری نے نچوڑ لی ہوتی ہے۔ اس کے بدلے میں انہیں قلیل رقم بطور پنشن دی جاتی ہے جس سے وہ اپنے اخراجات اور ضروریات پوری کرتے ہیں۔
یاد رکھیے! پنشن صرف چند ہزار روپے نہیں ہوتی۔ یہ پنشنر کی عزتِ نفس کو محفوظ رکھنے کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔ ساٹھ سال سے اسی سال کی عمر تک کے یہ بزرگ عمر کے اس حصے میں کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ عمرِ عزیز کا سنہرا دَور یہ حکومت کی نذر کر چکے ہوتے ہیں۔ بال بچوں کی شادیاں ہو چکی ہوتی ہیں۔ نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں جب اپنے والدین کے ساتھ ان کے پاس رہنے کے لئے آتے ہیں تو اخراجات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ بیٹیوں کو خالی ہاتھ رخصت بھی نہیں کیا جاتا۔ یہ لوگ برادری کے سربراہ بن چکے ہوتے ہیں۔ رشتے داروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے جو اخراجات کا متقاضی ہے۔ برادری میں بیاہ شادی، خوشی و غمی کے موقع پر بھی انہیں جانا پڑتا ہے جو اضافی اخراجات کا موجب ہے۔ بڑھاپا بذاتِ خود ایک مرض ہے اور اپنے ساتھ کئی بیماریاں لے کر آتا ہے۔ ادویات کی قیمتیں آسمانوں پر اور ڈاکٹروں کی فیسیں آسمانوں سے بھی اوپر جا چکی ہیں۔ پنشنرز کو بوجھ نہ کہیں۔ ان کے حالات کو سمجھیں۔ یہ سب اخراجات انہیں اپنی پنشن سے ہی پورے کرنے ہوتے ہیں۔ یہ پنشن ان کی ضروریات اور اخراجات پورے کرنے کا واحد سہارا ہوتی ہے۔ یہ صرف چند ہزار روپے نہیں ہوتے بلکہ ان کی عزتِ نفس کے محافظ بھی ہوتے ہیں۔ انہوں نے ساری عمر اپنی اولاد اور بہن بھائیوں کی ضروریات پوری کی ہوتی ہیں۔ اب اپنی ضروریات کے لیے اولاد کے آگے ہاتھ پھیلا کر وہ شرمندہ نہیں ہونا چاہتے۔ پنشن ان بزرگوں کے لیے اندھے کی لاٹھی ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے موجودہ حکومت نے پنشنرز کے معاملے میں انتہائی سنگدلی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پنشنرز کو خزانے پر بوجھ سمجھنے والے ہمارے عوامی نمائندے خود خزانے پر سب سے بڑا بوجھ ہیں۔ یہ اپنے ایک ٹینیور میں جتنا کما لیتے ہیں کوئی سرکار ملازم آغاز ملازمت سے لے کر گریجویٹی اور پنشن لیتے ہوئے اپنے مرنے تک اس قدر رقم وصول نہیں کرتا۔ یعنی سرکاری ملازم کی عمر بھر کی کمائی ہمارے عوامی نمائندوں کے پانچ سال کی سرکاری کمائی سے بھی کم ہوتی ہے۔ اگر ملکی خزانے پر پنشن کا واقعی شدید دباv ہوتا تو گزشتہ ماہ ایم پی ایز، ایم این ایز، وزرائ، مشیران اور اسپیکرز کی تنخواہوں میں 900فیصد تک اضافہ نہ ہوتا۔ ایک طرف حکومت مراعات یافتہ طبقے پر نوازشات کی بارش کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف پنشن اصلاحات کے نام پر زندگی کا بڑا حصہ حکومت کو دینے والوں کے لیے عذاب نازل کر رہی ہے۔ اگر آئی ایم ایف کو واقعی پنشن پر اعتراض ہے تو آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی نا کہ اس کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر اپنے بزرگ شہریوں کو کند چھری سے ذبح کر دیا جاتا۔ حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ پنشن پر اعتراض کرنے والے آئی ایم ایف کو عوامی نمائندوں کی تنخواہوں میں تاریخ کے سب سے بڑے اضافے پر اعتراض کیوں نہیں ہوا۔ اپنی تنخواہوں میں ہوش ربا اضافہ کر کے حکومتی نمائندگان نے پنشنرز کی بے بسی کا مذاق اڑایا ہے۔
خدارا پنشنرز کو بوجھ نہ سمجھیں۔ ان کے حالات کو سمجھیں۔ ملکی معیشت پر پنشنرز بوجھ نہیں ہیں۔ اصل بوجھ ملک پر قابض اشرافیہ ہے۔ معیشت کی کشتی کو ڈبونے والا بھاری پتھر اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقہ ہے جو اسے ڈبو رہا ہے۔ آپ ایک معمولی سے شاپر کو بھاری پتھر سمجھ کر اس سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں۔
مہنگائی کے تناسب سے اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرتے ہوئے حکومتی نمائندگان کو ایک لمحے کے لیے یہ پنشنرز یاد نہیں آئے جنہیں اس حکومت نے ان کی خدمات کا صلہ ان کی مراعات میں کٹوتی کی صورت میں دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک خبر وائرل ہے کہ ترکی میں پنشنرز نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مہنگائی کے تناسب سے ان کی پنشن میں اضافہ کیا جائے۔ حکومت نے ان کے مطالبے کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ پنشنرز نے اتفاقِ رائے سے فیصلہ کیا اور حکومت کو دھمکی دی کہ اگر ان کی پنشن میں اضافہ نہ کیا گیا تو تمام پنشنرز بیس سالہ لڑکیوں سے شادی کر لیں گے ۔ حکومتی زعماء کے کان کھڑے ہو گئے۔ اگر واقعی ایسا ہو جاتا تو پنشنرز کی وفات کے بعد ان کی بیوگان کو مزید چالیس، پچاس سال پنشن کی ادائیگی کرنا پڑتی۔ ترک حکومت نی پنشنرز کا مطالبہ ماننے میں ہی عافیت سمجھی۔ ان کی پنشن میں چالیس فیصد اضافہ کر دیا گیا۔
پاکستانی پنشنرز کے لیے یہ ایک قابلِ عمل اور بہتر تجویز ہے۔ ایسے بزرگوں کے ساتھ نوجوان لڑکیاں شادی پر آمادہ ہو جاتی ہیں جن کی معقول پنشن ہو اور زندگی کے آخری دن چل رہی ہوں۔ بزرگ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ساری عمر اس کی بیوہ بن کر پنشن وصول کر کے اپنی زندگی آرام و سکون سے گزارنا یقیناً ایک پرکشش ڈیل ہو گی۔ ہمارے پنشنرز کو اس آپشن پر ضرور غور کرنا چاہیے۔





