پردوں میں چھپا کیا ہے

تحریر : سیدہ عنبرین
خلیفہ ہارون رشید کو اپنے کمسن بیٹے کیلئے قابل استاد کی تلاش تھی، اس نے صاحب علم شخصیات سے بذات خود ملاقاتیں کیں اور ایک صاحب کو اس اعتبار سے موزوں سمجھ کر ان کا تقرر کر دیا۔ استاد محترم روزانہ تشریف لاتے ماموں رشید کو نیا سبق پڑھانے سے قبل ایک روز پہلے پڑھایا ہوا سبق سنتے اور اس دوران سر جھکائے بیٹھے رہتے۔ مامون رشید سے اگر سبق سنانے میں کوئی غلطی ہو جاتی تو استاد صاحب سر اٹھا کر اسے دیکھتے، اس طرح سر اٹھا کر دیکھنے سے ننھے مامون رشید کو اندازہ ہو جاتا کہ اس سے کوئی غلطی ہو گئی ہے، وہ اپنی غلطی درست کر لیتا اور آگے بڑھ جاتا، ایک روز اسی طرح سبق سناتے ہوئے مامون رشید سبق کے ایسے حصے پر پہنچا جس کا ترجمہ تھا تم لوگوں سے وہ عہد کیوں کرتے ہو جسے پورا نہیں کر سکتے، اچانک استاد نے مامون کی طرف سر اٹھا کر دیکھا، مامون رشید وہیں رک گیا، اس نے دوبارہ احتیاط سے پڑھا فقرہ وہی تھا جو اس نے اس سے قبل پڑھا تھا، استاد نے پھر سر اٹھا کر اسے دیکھا، مامون رشید بہت نادم ہوا کہ اس سے پھر کوئی غلطی ہو گئی ہے۔ مامون رشید نے تیسری مرتبہ پڑھا، استاد نے پھر سر اٹھایا اور اسے دیکھا، مامون رشید نے تین مرتبہ پڑھنے کے بعد جان لیا کہ اسے پڑھنے میں کوئی غلطی نہیں ہوئی، لیکن وہ تذبذب کا شکار رہا۔ استاد محترم تدریس کے بعد چلے گئے تو ننھا مامون سوچتا رہا کہ اس نے سبق پڑھنے میں کوئی غلطی نہیں کی لیکن استاد نے اسے بار بار کیوں یوں دیکھا جیسے اس نے کہیں کچھ غلط پڑھا ہے، شام ڈھلے خلیفہ ہارون رشید امور مملکت سے فارغ ہوا تو اس نے پیار سے بیٹے کو پاس بلایا اور پوچھا کہ وہ آج خلاف معمول کچھ خاموش خاموش ہے، بیٹے نے باپ سے پوچھا بابا جان آپ نے میرے استاد صاحب سے کوئی ایسا وعدہ تو نہیں کیا جو پورا نہ کیا ہو۔ ہارون رشید چونکا، اس نے سوچنا شروع کیا تو اسے یاد آیا کہ اس نے استاد صاحب سے کوئی وعدہ کیا تھا، جو بعد ازاں اسے یاد نہ رہا۔ ہارون رشید نے شرمندگی سے اقرار کیا کہ ہاں اس نے ایک وعدہ کیا تھا، لیکن وہ اسے بھلا بیٹھا، پھر اس نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ وہ یہ سب کیوں پوچھ رہا ہے، کیا استاد صاحب نے اس سے کوئی شکوہ کیا ہے؟۔ بیٹے نے جواب دیا نہیں بابا جان انہوں نے کوئی شکوہ نہیں کیا، پھر تمام ماجرا سنایا۔ ہارون رشید نے اگلے روز اپنے بیٹے کے استاد سے معذرت کی، اپنا کیا گیا وعدہ پورا کیا، اس کے علاوہ استاد صاحب کیلئے انعام کے طور پر بہت کچھ عطا کیا۔ یہ تھا ایک معصوم بچے کا ویژن، یہ تھا ایک صاحب علم استاد کا طریقہ، انہوں نے کوئی شکوہ کئے بغیر کس شائستگی سے دل کی بات ہارون رشید تک پہنچائی۔ آج کے جمہوری خلیفہ اور ان کے درباری کیا چلن اختیار کئے ہیں، دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، کاش کسی نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہو، تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا، اپوزیشن جماعت کے ساتھ مذاکرات جس انداز میں شروع کئے گئے اور کئی دنوں میں جس طرح اس کے دو دور ہوئے، وہ مذاق کے سوا کچھ نہیں، حکومتی فرمائش ہے کہ اپنے مطالبات تحریری طور پر دیئے جائیں، گویا وہ آج بھی 1950ء میں بس رہے ہیں، جب گائوں کی لڑکی نہا کر اپنے کپڑے دھو کر چھت پر پھیلانے کیلئے آتی تو اس کی ایک جھلک دیکھ کر ہمسائے کا لڑکا اس کے عشق میں مبتلا ہو جاتا، سال اسی تاک جھانک میں گزر جاتا، پھر نوبت رقعہ بازی پر آتی، سال بھر کی رقعہ بازی کے بعد لڑکی کی شادی کہیں اور طے پا جاتی یا لڑکا پڑھنے کیلئے شہر منتقل ہو جاتا تو ناراضی شروع ہوتی اور اپنے اپنے لکھے رقعے واپس مانگے جاتے تاکہ ناکام محبت کی تحریریں دیکھ دیکھ کر آنسو بہائے جا سکیں۔ حکومت شاید آج بھی رقعے بازی پر یقین رکھتی ہے، لیکن ناکام مذاکرات کے بعد وہ اپوزیشن کے لکھے رقعے واپس نہیں کرے گی بلکہ انہیں بدنام کرنے کیلئے دنیا کو دکھائے گی کہ یہ ہم سے این آر او مانگتے رہے ہیں، عشق پیچے لڑانے والے ماضی میں یہ کچھ بھی کیا کرتے تھے۔
حکومت اگر مذاکرات میں سنجیدہ ہو تو یہ سب کچھ پہلی ملاقات میں طے پا سکتا ہے، لیکن سنجیدگی متانت حق گوئی اور حق دہی ہماری سیاست میں دور دور تک نظر آتی بھی نہیں، مکر و فریب کے جال میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں ہیں، اس کے سوا کچھ نہیں، ملک بھر کی نظریں ان مذاکرات پر جمی ہیں کہ ان کے بطن سے کوئی سمجھوتہ ہو، ملک میں جاری بحران اپنے انجام کو پہنچے اور سرکار کو فرصت ملے تو وہ عوامی مسائل کی طرف توجہ دے، عام آدمی کا جینا مشکل ہوئے دو برس سے زیادہ ہو چکے جبکہ سرکاری کل پرزے، اشیائے صرف کے کم ہونے کی مرضی اطلاعات دے کر سمجھ رہے ہیں کہ قرض ادا ہو گیا ہے۔ اب حقیقی معنوں میں مارکیٹ سروے کرنے، حقائق معلوم کرنے، ہر شعبہ زندگی میں موجود مافیا کی خبر لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
بیتے برس کے آخری روز ملک پر چڑھے قرضوں کے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، جو راتوں کی نیندیں اڑانے کیلئے کافی ہیں، مگر اس کے باوجود نہایت فخر سے اعلان کیا جاتا ہے کہ فلاں ملک سے نیا قرض حاصل ہو گیا ہے یا فلاں ملک نے اپنا قرض ری شیڈول کر دیا ہے۔ تازہ ترین خبر امارات کے صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر سامنے آئی ہے، وہ نجی دورے پر پاکستان آئے ہوئے ہیں، انہوں نے کیا کہا ہے ہمیں نہیں معلوم، لیکن بتایا گیا ہے کہ دو ارب ڈالر کا قرض ری شیڈول ہو گیا ہے۔ ہم نے یہ قرض جاری ماہ جنوری میں واپس کرنا تھا، لیکن ہمارے یہاں جس معیشت کی بہتری کے بہت چرچے ہیں، اس میں ذرا برابر بھی کوئی حقیقت ہوئی تو ہم یہ چھوٹا سا قرض بروقت واپس کر کے اپنے وعدوں کی صداقت ثابت کرتے، اس قرض کو ری شیڈول کرانے کیلئے مختلف سطحوں پر کوششیں کی گئی ہیں، کچھ کریڈٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی ملنا چاہئے، اس کامیابی میں ان کے ویژن اور ان کی کوششوں کا دخل بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ شریف خاندان کے امارات کے حکمرانوں سے خاندانی تعلقات اور دوستی کا ذکر سننے میں آتا ہے۔ جناب وزیراعظم ان کی مہربانیوں کا اکثر ذکر کرتے نظر آتے ہیں، انہوں نے منصب نبھانے کے بعد امارات کے متعدد دورے کئے ہیں۔
حکومت کی طرف کئے گئے ایک اعلان پر پورے ملک سے قہقہوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ بجلی سستی کرانے کیلئے آئی ایم ایف کی طرف جا رہے ہیں۔ یاد رہے بجلی مہنگی کرنے کیلئے آئی ایم ایف نے پاکستان پر شدید دبائو ڈالا، ہم دبائو میں آنے کیلئے بروقت تیار بیٹھے رہتے ہیں، پس ان کے صرف دبائو میں ہی نہیں آئے بلکہ پورا بجٹ ان کے حوالے کر دیا کہ ہماری قسمت کے تمام فیصلے وہ اپنی سوچ اپنی پسند سے کر دیں۔ ہم سر تسلیم خم کر دیں گے، کاش آج حکومت کی صف میں کوئی ننھا مامون رشید ہوتا جو جان سکتا پردوں میں چھپا کیا ہے۔





