تعلیم اور صحت پر خرچ سب سے کم، قرضے ریکارڈ توڑ

تحریر : محمد ناصر شریف
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان ، بھارت، فلپائن، ترکی، سری لنکا، بنگلہ دیش اور خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں تعلیم اور صحت پر سب سے کم خرچ کرنے والا ملک پاکستان ہے، جس نے خطے کے تمام ممالک کے مقابلے میں تعلیم اور صحت پر سب سے کم خرچ کیا ہے۔ پاکستان نے ایک سال میں تعلیم پر جی ڈی پی کا 1.9فیصد اور صحت پر جی ڈی پی کا 0.8فیصد خرچ کیا۔ قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا۔ کمیٹی کو گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے بتایا کہ اس وقت ملک پر مجموعی طور پر 130ارب ڈالر کا غیر ملکی قرض ہے، اس میں سے 100ار ب ڈالر حکومت اور اسٹیٹ بینک کا قرض ہے ، 82ارب ڈالر حکومتی قرض ہے ، 30ارب ڈالر نجی شعبے کا قرض ہے، پاکستان نے رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں پانچ ارب 70کروڑ ڈالر کا قرض واپس کیا ہے جبکہ آئندہ چھ ماہ میں ساڑھے چار ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہے، جس میں کوئی مسئلہ نہیں، 16ارب ڈالر کا قرض ری رول ہو جائے گا۔ رواں مالی سال پاکستان نے 10ارب ڈالر
کے قرضے کی ادائیگی کرنی ہے۔ رواں مالی سال پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح 3فیصد رہے گی۔ اس وقت اسٹیٹ بینک میں موجود زرمبادلہ کے ذخائر قرض کی رقم کے نہیں ہیں، یہ رقم اسٹیٹ بنک نے انٹر بینک مارکیٹ سے خریدی ہے اور تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے ذخائر بغیر کسی قرض کے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان دنیا کے اکثر ممالک کے مقابلے میں تعلیم اور صحت پر سب سے کم خرچ کرنیوالا ملک بن گیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ رواں مالی سال 35ارب ڈالر غیر ملکی ترسیلات زر ہونے کی توقع ہے۔ چھ ماہ میں ساڑھے 14ارب ڈالر کی ترسیلات ہوئی ہیں۔ قائمہ کمیٹی میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے مقامی کرنسی کے استعمال پر سالانہ اربوں ڈالر کی فیس بیرون ملک منتقل ہو جاتی ہے۔ کمیٹی نے اسٹیٹ بینک سے تمام بینکوں کے
کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ سے ویزا ماسٹر کارڈ کا ریکارڈ طلب کر لیا جبکہ مقامی کرنسی کارڈ کے ذریعے کس طرح غیرملکی کرنسی میں ادائیگی ہوتی ہے اس کا مکمل پلان بھی طلب کر لیا۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سری لنکا، فلپائن اور بنگلہ دیش بھی ہم سے آ گے ہوں تو یہ بات انتہائی تشویشناک ہے۔ عوام کی صحت اس قدر خراب ہے کہ ایک ایک شخص کو کئی کئی مہلک بیماریاں لاحق ہیں جنکے علاج معالجے کے لئے ان کے پاس وسائل نہیں۔ حکمرانوں نے عوام کی تعلیم و صحت کے حوالے سے ہمیشہ مجرمانہ غفلت برتی، عوامی مسائل کا حل کبھی کسی حکمران اور
سیاسی جماعت کی ترجیح نہیں رہی، اسی لئے ہر برس بجٹ میں سب سے کم رقم تعلیم اور صحت کے شعبوں کیلئے مختص کی جاتی ہے۔حکومتی دعووں کے باوجود پاکستان میں تعلیم کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ پاکستان میں تعلیمی بجٹ کا 90فیصد تنخواہوں اور پنشن پر خرچ ہوتا ہے۔ وطن عزیز کی تقریبا نصف آبادی بچوں پر مشتمل ہے لیکن ان میں سے بھی کروڑوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ باقی جو بچے اسکول جاتے بھی ہیں، اُن کو فراہم کی جانے والی تعلیم بھی کچھ زیادہ معیاری نہیں ہے۔ اڑتالیس فیصد اسکولوں کی عمارتیں خطرناک اور خستہ حال ہیں، جن کو فرنیچر، ٹوائلٹس، چار دیواری، پینے کے صاف پانی اور بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔
ویسے دیکھا جائے تو صرف عمارتیں کھڑی کرنے سے تعلیم میں بہتری نہیں آئے گی بلکہ اساتذہ کی تربیت اور نصاب پر توجہ دینا بھی ضروری ہے، ساتھ ہی اساتذہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے جانچ پڑتال کا موثر نظام بھی متعارف کرانا چاہیے۔ چین دنیا کی سب سے بڑی طاقت اپنے وسائل سے نہیں بنا، چین دنیا کی سب سے معروف یونیورسٹی سے سالانہ 30 ہزار پی ایچ ڈی تیار کر رہا ہے، چین کے 50فیصد پی ایچ ڈی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ہیں، ٹیلنٹ اور ٹیکنالوجی ساتھ چلیں گے تو ہی ترقی ہوگی۔
سال 2024میں نگران اور منتخب حکومتوں کے فیصلے مریضوں کو بہت مہنگے پڑ گئے، ادویہ ساز کمپنیوں کو اختیار دینے سے قیمتوں پر سرکاری کنٹرول کا نظام ہی ختم کردیا گیا، 80ہزار سے زائد ادویات 200فیصد سے زائد مہنگی ہو چکیں، میڈیکل ڈیوائسز پر بھی 70فیصد تک ٹیکس عائد کردیا گیا، 2ہزارروپے والے کورس کا خرچ 6سے 7ہزار روپے تک پہنچ گیا،جبکہ میڈیکل ڈیوائسز بھی مہنگی، کمپنیوں نے ٹیکسوں کا سارا بوجھ عوام پر منتقل کردیا۔ پاکستانی عوام پر مہنگائی کا مزید بار ڈال دیا گیا۔ علاج کے ساتھ ساتھ ادویات بھی مہنگی ہوگئیں، دوائیں ڈی ریگولیٹ کرکے مقابلے کی فضا پیدا کرنے کا فیصلہ نگران حکومت نے کیا، جسے موجودہ حکومت نے برقرار رکھا اور خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ڈی ریگولیشن سے انسولین، ٹی بی، کینسر اور دل کے امراض کی دواں کی قلت تو ختم ہوگئی لیکن نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ ادویات کی مہنگائی کے حساب سے 2024بدقسمت ترین رہا، 18فروری 2024کو نگران کاکڑ حکومت نے ادویات کی قیمتوں کا کنٹرول اور نظام ہی ختم کردیا، پاکستان میں 80ہزار سے زیادہ ادویات مہنگی ہوگئیں اور میڈیکل ڈیوائسز پر 65سے 70فیصد ٹیکس لگایا گیا۔ پاکستان 960ارب کی فارما مارکیٹ ہے، جس پر نئے ٹیکسز کا اضافی بوجھ بھی عوام ہی کو ڈھونا پڑ رہا ہے۔ 2024کے دوران اینٹی بایوٹک، پین کلرز، شوگر کی ادویات 100سے 200 فیصد تک مہنگی ہوئیں، ہر دوسرے دن قیمتوں میں ردوبدل سے میڈیکل اسٹورز پر دکاندار اور خریدار الجھتے نظر آتے ہیں۔
حکمرانوں سے اپیل ہے کہ عوام پر رحم کریں اور ان کے بنیادی حقوق کا خیال رکھتے ہوئے انہیں بہترین تعلیم اور صحت کی سہولیات بہم پہنچائیں تاکہ تعلیم یافتہ باشعور اور صحت مند قوم علاقائی اور عالمی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکے۔دوسری جانب دیکھیں تو وفاقی حکومت کے قرضوں کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ نومبر 2024تک مرکزی حکومت کے قرضے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ستر ہزار تین سو چھیاسٹھ ارب روپے پر پہنچ گئے۔ نومبر 2024تک ایک سال کے دوران وفاقی حکومت کے قرضوں میں چھ ہزار نوسو پچھترارب روپے کااضافہ ریکارڈ کیا گیا۔وفاقی حکومت کا قرضوں پرانحصار مزید بڑھ گیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نومبر 2024تک وفاقی حکومت کے قرضوں کا ڈیٹا جاری کردیا۔ اسٹیٹ بینک کی دستاویز کیمطابق رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ جولائی سے نومبر 2024کے دوران وفاقی حکومت کے قرضوں میں ایک ہزار452ارب روپے جبکہ نومبر کے ایک مہینے میں مرکزی حکومت کے قرضوں میں ایک ہزار 252ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ دستاویز کے مطابق دسمبر 2023سے نومبر 2024کے ایک سال میں وفاقی حکومت کے قرضوں میں6 ہزار975ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ نومبر2024تک وفاقی حکومت کے قرضوں کا حجم 70ہزار366ارب روپے رہا جس میں مقامی قرضہ 48 ہزار585ارب روپے اور بیرونی قرضے کا حصہ21ہزار780ارب روپے تھا۔
حکمران سب اچھا کی گردان کر رہے ہیں لیکن جو رپورٹس آرہی ہیں وہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ وزیراعظم سمیت تمام اتحادیوں کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ انہیں دوبارہ اقتدار میں آنے کیلئے ایک دفعہ پھر عوام کے پاس ہی جانا ہوگا اور پاکستان کے عوام وقت کے ساتھ ساتھ باشعور ہوتے جارہی ہیں۔





