Column

چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں

تحریر: ندیم اختر ندیم
عمران خان اقتدار سے پہلے فرمایا کرتے تھے کہ جنوبی کوریا میں کشتی ڈوبنے پر وزیراعظم کے مستعفی ہوگئے تھے یہ الگ بات کہ انکے دور حکومت میں کئی حادثات پیش آئے قوم کی نیا ڈوبتی نظر آئی لیکن جناب عمران خان مستعفی نہ ہوئے عمران خان تو رہے ایک طرف ہمارے موجودہ حکمرانوں کا انداز حکمرانی دیکھئے تو یہ بھی تغافل میں عمرانی دور سے کچھ کم نہیں کراچی شاہ فیصل کالونی میں کھلے مین ہول میں گرکر 8سالہ بچہ جاں بحق ہوا تو کراچی میں اس واقعے پر ندامت کی بجائے میر کراچی اور اپوزیشن میں لفظی گولہ باری شروع ہوگئی۔ 8سالہ عباد شاہ فیصل کالونی کے قریب کھلے مین ہول میں گرا۔ واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد ریسکیو ٹیمیں جائے حادثہ پر پہینچیں اور بچے کی تلاش شروع کردی۔ ریکسیو اہلکاروں نے 2گھنٹے کی کوشش کے بعد شاہ فیصل ندی سے بچے کی لاش نکالی۔ ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ بچہ شادی کی تقریب میں آیا ہوا تھا اور شادی ہال کے قریب ہی کھلے مین ہول میں گرا آٹھ سالہ بچے کی اچانک حادثاتی موت پر اس کے والدین پر جو گزری یہ وہی جانتے ہیں اور معصوم بچے نے جس اذیت اور وحشت میں جان دی ہوگی یہ بھی کوئی نہیں جان سکتا ضرب المثل ہے ’’ جس تن لاگے سو تن جانے‘‘ مین ہول میں گر کر بچے کی ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ایسے جاں گداز واقعات ہمارے ملک کے شہروں میں آئے روز ہوتے رہتے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے ایسے حادثات کی ذمہ داری لے لی ہو یا کوئی مارے شرم کے مستعفی ہوگیا ہو آٹھ سالہ عباد کی ہلاکت سے سانحہ ساہیوال یاد آگیا جہاں جناب عمران خان کے اقتدار میں ایک فیملی کی گاڑی روک انہیں دن کے اجالوں میں فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا کار میں سوار آٹھ سالہ بچی کو پہلے کار سے نکالا گیا پھر ہمارے شیر جوانوں نے اس آٹھ سالہ بچی کو دوبارہ کار میں بٹھا کر مبینہ طور پر اس احتمال سے مار ڈالا کہ کہیں وہ واقعہ کی گواہ نہ بن جائے یہ دلدوز واقعہ میڈیا پر سب دیکھ چکے ہیں وہ ویڈیو بہت وائرل ہوئی جس میں المناک واقعہ کو دیکھا گیا مقبوضہ کشمیر میں بھارت اور غزہ میں فلسطین کے معصوم بچوں پر اسرائیلی سورما ایسے ظلم روا رکھے ہوئے ہیں جن مظالم کے مترادف پاکستان میں حادثات رونما ہوتے ہیں اور ستم تو یہ کہ حکمران اسے ایک دوسرے پر الزامات دھر کر بات آئی گئی کر دیتے ہیں جیسے کراچی میں آٹھ سالہ بچے کے مین ہول میں گر کر بچے کی ہلاکت کے واقعے کے بعد مئیر کراچی اور اپوزیشن کے مابین تکرار میں اس حادثے کا شور کہیں کھو کر رہ گیا ہے مئیر صاحب اسکی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ایک بار اپنے ایک کالم میں اپنے شہر کی اس بات کا ذکر کر چکا ہوں کہ ایک مین ہول پر میونسپل کمیٹی کی طرف سے ڈھکن لگایا گیا تو ڈھکن کے لگائے جانے کی خبر کو بہت سراہا گیا میونسپلٹی کے اہلکاروں کو مبارکبادیاں دی گئیں میں بہت حیران ہوا کہ یہ کونسا سونے یا چاندی کا ڈھکن تھا جس کے لگائے جانے پر اتنی مبارکبادیں دی گئیں لیکن آج یہ عقدہ کھلا کہ وہ ڈھکن سونے چاندی سے بھی زیادہ قیمتی ہے کہ جسے بروقت لگا دیا گیا اس سے پہلے کہ خدانخواستہ کوئی کراچی جیسا ناخوشگوار حادثہ پیش آتا در اصل ہمارے ملک کے مسائل ہی اس قدر زیادہ اور گمبھیر ہیں کہ حکمران انہیں حل کرنے کی بجائے ان مسائل کو اپنی سیاست کیلئے بچا رکھتے ہیں سیاستدان جانتے ہیں مسائل باقی رہیں گے تو انکی سیاست کو دوام حاصل ہوگا اگر مسائل ہی ختم ہوگئے تو سیاستدانوں کے پاس سیاست کیلئے موضوع ہی کیا رہ جائے گا وگرنہ کیا امر مانع تھا کہ قیام پاکستان کے آج ستتر سالوں بعد بھی ہم محروم تمنا رہتے چائنہ نے ہمارے بعد ترقی کا جو سفر کیا وہ ہم سے پہلے وہاں جا پہنچا جہاں پہنچتے شائد ہمیں صدیاں لگ جائیں چائنہ آج اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں کوئی بھی اس پر رشک کرے چائنہ تو ترقی کی آج اس منزل پر جہاں اسے بعض اوقات اپنی ترقی کے آگے بندھ باندھنا پڑ جاتے ہیں چائنہ نے جب ترقی کا سفر شروع کیا تو نہ صرف عوام بلکہ حکمرانوں نے بھی عزم کرلیا تھا کہ انہوں نے حالات کے دھارے کا رخ موڑنا ہے عوام نے سادہ غذائیں کھانا شروع کر دیں اور حکمرانوں نے ملک کے ساتھ اخلاص کی حد کردی کرپشن کے صرف نعرے نہیں لگائے کرپشن کے خاتمے پر ہماری طرح صرف سیاست نہیں کی بلکہ کرپشن کے سارے نقش ہی مٹا ڈالے ابھی ہمارے عوام بھی اتنے سنجیدہ نہیں نہ ہی ہمارے حکمران کہ ملک کو ایسی ہی ترقی کے طرف لے جائیں کہ مسائل نہ ہونے کے برابر ہوں ابھی تو ہمارے ملک کے شہروں کے مین ہولز پر ڈھکن ہی نہیں لگائے گئے تو ہم آگے کی ترقی کا سفر کیسے طے کریں گے اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔ سوچتا ہوں قوم اپنی حالت کے بدلنے کو کس بات کی منتظر ہے کہ سیاست دان قوم کے ساتھ جو کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں یہ کسی سنگین مذاق سے کم نہیں سیاست دان باری باری اقتدار میں آتے ہیں اور قوم کے ساتھ کھیل کر چلتے بنتے ہیں آپ اس کھیل کو بلی چوہے کا کھیل بھی کہہ سکتے ہیں ۔
قابل اجمیری کے اشعار ہیں
پھر کوئی کم بخت کشتی نذر طوفاں ہو گئی
ورنہ ساحل پر اداسی اس قدر ہوتی نہیں
رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں

جواب دیں

Back to top button