Column

مذاکرات میں ڈیڈ لاک

تحریر : رفیع صحرائی
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئے ہیں۔ یہ ڈیڈ لاک حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ پی ٹی آئی مذاکراتی ٹیم کی طرف سے نئے مطالبات اور سابقہ موقف سے یوٹرن لینے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ مذاکرات کی گزشتہ دونوں میٹنگز کے مشترکہ اعلامیہ میں بتایاگیا تھا کہ اگلی میٹنگ میں پی ٹی آئی اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ تحریری شکل میں پیش کرے گی اور اس چارٹر کی روشنی میں مذاکرات کا عمل آگے بڑھے گا۔ اس وقت پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم اپنے آپ کو شاید بااختیار سمجھ رہی تھی اس لیے اس نے یہ اعلان کر دیا تھا۔ کہنے کو تو پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر اس دوران عدالت سے عمران خان کو سزا بھی ہو گئی تو اس کا مذاکرات کے عمل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کے غبارے سے اس وقت ہوا نکل گئی جب مشترکہ اعلامیے کے بعد اسے عمران خان کی طرف سے اڈیالہ جیل سے نئی ہدایت ملی۔ عمران خان نے اپنی ٹیم کو چارٹر آف ڈیمانڈ تحریری طور پر پیش کرنے سے سختی سے منع کر دیا۔ عمران خان کا خیال ہے کہ یہ تحریر ان کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔ حکومت اس چارٹر کو پبلک کر کے کہہ سکتی ہے کہ عمران خان کے لیے این آر او مانگا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جناب اسد قیصر نے موقف اختیار کیا ہے کہ مذاکراتی عمل کے درمیان جو منٹس تیار ہوئے ہیں انہیں ہی ہماری طرف سے چارٹر آف ڈیمانڈ سمجھا جائے، کاغذات دینا نہ دینا فارمیلٹی ہے جبکہ ایک روز پہلے ہی انہوں نے چارٹر آف ڈیمانڈ پر مشاورت کے لیے وقت مانگا تھا۔
جناب اسد قیصر کی جانب سے ایک نیا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ حکومتی کمیٹی اصل فیصلہ سازوں اور اسٹیک ہولڈرز کو بھی آن بورڈ لے۔ ان نئی شرائط نے مذاکرات کے اگلے اجلاس کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ایک طرف پی ٹی آئی کہتی ہے کہ حکومت کو اسٹیک ہولڈرز کا اعتماد حاصل ہے اور دوسری طرف اپنے ہی موقف کو تبدیل کر کے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وعدے کے مطابق پی ٹی آئی نے مطالبات باضابطہ تحریری شکل میں پیش نہ کیے تو مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے بار بار موقف تبدیل کرنے سے مذاکراتی عمل مثبت طور پر آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ حکومت اپنی یقین دہانی پر عمل کرتے ہوئے پی ٹی آئی مذاکراتی ٹیم کو عمران خان سے ملاقات کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔ اسد قیصر کے نئے موقف سے لگتا ہے کہ وہ اپنے وعدے اور یقین دہانی کو پورا کرنے میں مشکلات محسوس کر رہے ہیں۔
جہاں تک اسٹیک ہولڈرز سے بات کرنے یا مذاکرات کے عمل میں انہیں آن بورڈ لینے کا سوال ہے تو یہ حقیقت ہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم نے یہ مطالبہ پیش نہیں کیا تھا۔ ان کا یہ نیا مطالبہ عمران خان سے ہدایت ملنے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اسی طرح دونوں اجلاسوں کے مشترکہ اعلامیہ میں پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات تحریری شکل میں پیش کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ جس سے اب وہ گریزاں ہے۔ جہاں تک اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لینے کا تعلق ہے تو پی ٹی آئی گزشتہ اڑھائی سال سے ان کے ساتھ بات چیت کی کوشش کر رہی ہے مگر دوسری طرف سے ہمیشہ ہی اسے انکار سننے کو ملا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی معاملات کو سیاست دان ہی بات چیت کے ذریعے طے کریں۔ پاک فوج کی طرف سے بار بار یہ بات دہرائی گئی ہے کہ اس نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ وہ صرف اپنے پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی تک محدود رہے گی۔ بظاہر پی ٹی آئی ہمیشہ سے فوج کی سیاست میں مداخلت کی ناقد رہی ہے۔ حقیقی آزادی کے نعرے کے پیچھے بھی بظاہر ان کا یہی موقف رہا ہے لیکن اپنے اس نعرے یا موقف کا عملی مظاہرہ کرنے سے پی ٹی آئی ہمیشہ گریز کرتی رہی ہے۔ وہ سیاسی قوتوں سے بات چیت کی مخالف رہی ہے۔ وزیراعظم بننے کے فوراً بعد عمران خان نے اپوزیشن لیڈر جناب شہباز شریف کا میثاقِ معیشت کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ حقارت سے ٹھکرا دیا تھا۔ وہ فوج سے ایک مرتبہ پھر 2018ء والا لاڈ پیار چاہتے ہیں۔ تب وہ آزمائے ہوئے نہیں تھے۔ اب ان کی آزمائش ہو چکی ہے۔ عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ اقتدار کے لیے مقبولیت کے ساتھ قبولیت ضروری ہے لیکن 9مئی اور 26نومبر ان کی قبولیت کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
دوسری طرف فیاض الحسن چوہان نے ایک بڑی خبر بریک کر دی ہے کہ یہ مذاکرات سموک سکرین سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ صرف دکھاوا ہیں۔ اصل مذاکرات بشریٰ بی بی کسی جگہ کر رہی ہیں جو کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بقول فیاض الحسن چوہان کے وہ گارنٹی دے رہی ہیں کہ عمران خان 2027ء تک سیاسی منظر نامے سے دور رہیں گے ۔ بات صرف 9مئی کی معافی پر اڑی ہوئی ہے۔ عمران خان معافی مانگنے کو تیار نہیں ہیں۔ کوئی درمیانی صورت نکالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
اگر فیاض الحسن چوہان کی بات درست ہے تو عمران خان کی قسمت کا فیصلہ خود ان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ حسبِ سابق انا اور ضد کو مقدم رکھتے ہوئے اپنی بات پر اڑے رہے تو ممکن ہے آئندہ ہفتے عدالت سے ان کے خلاف فیصلہ آ جائے۔ دوسری صورت میں این آر او لے کر اچھے وقت کا انتظار کر کے ایک مرتبہ پھر اپنے لیے اقتدار کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button