کیا اڑان پاکستان عوام کیلئے منصوبہ یا کوئی اور مقصد؟

تحریر : عبد الرزاق برق
ایک ایسا ملک جنہیں دہشت گردی، سیاسی بحران اور معاشی چیلنجز درپیش ہوں اور ساتھ ہی ملک کے قیام سے لیکر آج تک 3919ارب روپے قرضہ لے چکا ہو اور یہ قرضہ اس ملک کی زمین پر بسنے والوں پر خرچ نظر نہ آرہا ہو تو ایسے حالات میں اس ملک کی وفاقی حکومت کی جانب سے اڑان پاکستان کے نام سے ایک خواہشمندانہ معاشی منصوبے کا اعلان چاروں صوبائی حکومتوں کے چیف منسٹرز کی موجودگی میں کریں توکیا اڑان پاکستان کے مقررکردہ معاشی اہداف جو آئندہ پانچ برس کیلئے رکھے گئے ہیں وہ انہیں پورا کرنے میں کامیاب ہوں گے؟ یا یہ معاشی منصوبہ بھی ایسا ہی ہوگا جیسا ہم سالہا سال سے سن رہے ہیں کہ دہشت گردی کو ہم جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے لیکن شاید اس کی جڑیں ہی نہیں مل رہی ہیں یا اس اڑان کا حشر بھی وہی ہوگا جو sifc کا ہوا تھا کیونکہ ہمیں سب خیالی پلائو دکھانے سے ملک میں اس وقت دو صوبوں میں نہ رکنے والی دہشت گردی جاری رہنے سے ملک کو امن و امان کے مسئلے سے دوچار کر دیا ہے۔ دوسری طرف سیاسی بحران جاری رہنے سے ملک عدم استحکام کا سامنا کر رہا ہے، اڑان پاکستان اگرچہ ایک جامع اقتصادی تبدیلی کا منصوبہ ہے جو پاکستان کو ترقی کی نئی بلندیوں تک پہنچانے کیلئے تیار کیا گیا ہے، اس پروگرام کے تحت جو اہداف مقرر کئے گئے ہیں ان میں سب سے پہلے برآمدات کو اگلے پانچ سال میں 60ارب ڈالر سالانہ تک پہنچانا
ہے۔ پاکستان کی برآمدات کا موجودہ حجم 30ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے، جی ڈی پی کی شرح نمو کو آئندہ پانچ برس میں چھ فیصد تک لے جانا ہے۔ وفاقی حکومت نے اڑان پاکستان منصوبے کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا ہے کہ ورلڈ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 40فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور عالمی بینک کے اندازوں کی مطابق خط غربت کی شرح سنہ 2026تک40فیصد سے اوپر رہنے کا امکان ہے۔ ان اہداف کو کوئی بھی سنجیدہ نہیں لے گا، پاکستان کی معیشت کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ شارٹ ٹرم (قلیل مدتی) اہداف ہیں جبکہ حکومت لانگ ٹرم طویل مدتی اہداف طے کر رہی ہے۔ حکومت سے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مقرر کئے گئے شارٹ ٹرم اہداف حاصل نہیں ہو پا رہے، جیسا کہ ٹیکس کی وصولی وغیرہ، تو ایسی صورتحال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک کسی بڑے ہدف کی طرف بڑھے؟ مبصرین کی رائے میں یہ خواہشمندانہ حصول اس لئے مشکل ہے کیونکہ ایک تو پاکستان میں جاری سیاسی بحران کا فی الحال کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے اور ملک میں جاری دہشت گردی کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو راغب کرنا بھی مشکل ہوسکتا ہے، ملک میں اڑان ایک ایسے وقت میں شروع کیا گیا کہ جب محمد
شہباز شریف کی حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچالیا ہے، جب پوری دنیا سمیت پی ٹی آئی ڈیفالٹ کی تاریخیں دے رہی تھی جبکہ آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہوتی جارہی تھیں۔ اگر حکومت آئی ایم ایف سے ڈیل کرتی تو عوام ناراض ہو جاتے مگر اڑان سے کم از کم یہ طے ہوا کہ اس حکومت کے پاس کوئی معاشی ایجنڈا موجود ہے، انہیں معلوم ہے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے، آج حکومت کا اسٹیبلشمنٹ سے بہترین ورکنگ ریلیشن شپ ہے، جس کی وجہ سے استحکام آیا ہے، اگر یہ تعلقات ایسے بہتر رہے تو پاکستان کی ترقی کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن بقول مبصرین چھ فیصد گروتھ ریٹ حاصل کرنا بہت مشکل ہے اور جی ڈی پی کا سائز ایک کھرب ڈالر تک لے جانا بہت مشکل لگتا ہے کیونکہ پاکستانی معیشت اس مالی سال میں بڑی مشکل سے ایک فیصد تک نمو حاصل کر سکی ہے اور 60ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کرنا اس لئے مشکل ہوگا کیونکہ یہ ہدف انڈسٹریز نے حاصل کرنا ہے جواس میں سرمایہ کاری
سے ہوگا جبکہ سرمایہ کاری کی حالت یہ ہے کہ یہ اس وقت 25سال کی کم ترین سطح پر موجود ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری پہلے ہی کم ہوچکی ہے اور دہشت گردی کے واقعات تواتر سے ہورہے ہیں۔ اس بات سے سب واقف ہیں کہ حکومت کا آئندہ پانچ یا دس سال کا منصوبہ اس وقت غیر مناسب سا لگتا ہے جبکہ شارٹ ٹرم اہداف کا حصول ناممکن نظر آتا ہے۔ حکومت کی جانب سے اڑان پاکستان میں ڈیجیٹل انقلاب کی بات کی گئی ہے جبکہ اس سال کی حالت یہ ہے کہ فری لانسنگ کمیونٹی انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اڑان پاکستان منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے تقریب کے دوران اپنے خطاب میں کہا کہ سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے بھارت کی ترقی کیلئے ان کے بڑے بھائی پائی جان نوازشریف کا ماڈل اپنایا جس سے ملک کی سیاست میں نوازشریف کا سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے ساتھ سیاست میں موازنہ یا مماثلت کرنے سے ایک نئی بحث شروع ہوگئی۔ ملک کے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نوازشریف اور منموہن سنگھ کا کوئی موازنہ یا مماثلت نہیں ہوسکتی۔ منموہن سنگھ معاشیات میں پی ایچ ڈی تھے، وہ ایک دیانت دار بیوروکریٹ تھے، انہوں نے انڈیا کے سینٹرل بینک کی سربراہی کی تھی، نوازشریف نے کس معاشیات کی پی ایچ ڈی کی تھی؟ منموہن سنگھ ایک منکسرالمزاج شخص تھے، جو اپنی ذاتی حیثیت میں کسی عہدے یا مفاد کے خواہاں نہیں تھے، وہ کسی بھی قسم کا ذاتی مقصد رکھنے والے انسان نہیں تھے۔ کیا ان کے ملک کے باہر اور اندر کوئی فارن اکائونٹ اثاثے، بیش قیمت جائیدادیں تھیں؟ انہوں نے کبھبی بھی پاکستانی بزنس مینوں سے پارٹنرشپ نہیں کی، انہیں بوسکی پہنے مرسیڈیز کاروں میں گھومتے نہیں دیکھا گیا، انہیں شیر کہلوانے، ہاتھ پر کبوتر بٹھانے کا کوئی شوق نہیں تھا، انہوں نے کبوتر ہاتھ پر بٹھانے کے بعد کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اب اسکی، صدقے ملک میں امن آجائے وہ اپنی بیماریوں کے علاج کیلئے کبھی لندن، امریکہ، فرانس، جینیوا نہیں گئے، انکے بیٹے غیرملکی شہریت نہیں رکھتے، ان کے بچے کم سنی میں ارب پتی نہیں بنے۔ دنیا میں ان کی پہچان جمہوریت سے ہے، ان کی دوسری پہچان ایک مضبوط اقتصادی ملک کی ہی۔
منموہن سنگھ دس سال تک بھارت کے وزیراعظم رہے، ان دس برسوں کے دوران اور اس سے پہلے وزیرخزانہ کے طورپر انہوں نے معاشی پالیسی کا جو ڈھانچہ بنایا اس کی وجہ سے ان کی پارٹی اور ملک کے عوام ہی نے ان کی توصیف نہیں کی بلکہ کانگریس پارٹی کی مخالف بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت نے انہیں قومی ہیرو قرار دیا ہے اور ان کی گراں قدر خدمت کو سراہا، اڑان پاکستان کے منصوبے کے اعلان کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اشرافیہ کو کچھ قربانیاں دینا ہوں گی اور پائیدار ترقی کی خاطر سستی بجلی اور کم ٹیکسز ضروری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلی ایک دہائی میں ہمارے ریاستی ملکیتی اداروں نے چھ کھرب روپے کے نقصانات کئے جبکہ 70برس میں کھربوں کی کرپشن ہوئی، ہمارے محصولات کا ایک حصہ بھی ہمیں نہ مل سکا، قرض نہ لیں تو کیا کریں۔ یہی وجہ ہیں کہ پاکستان آج قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ میرے خیال میں اب رونے دھونے اور لعنت ملامت کا کوئی فائدہ نہیں مگر دیانت دارانہ تجزیہ قوموں کی زندگی کو بدل دیتا ہے وزیراعظم نے جو خرابیاں اور مشکلات مسائل کی نشاندہی کی ہے ان سے صرف نظر ممکن نہیں۔ لیکن کیا خرابیاں محض بیان دینے سے یا اعتراف کرنے سے دور ہوسکتی ہیں؟ میری رائے کے مطابق حکومت کو واضح منصوبہ بندی کرنا ہوگا اور اہداف طے کرکے ان خرابیوں سے ملک و قوم کو نجات دلانا ہوگی، کیا اشرافیہ کے زبان سے قربان دینے پر آمادہ ہو جائیگی؟ ہمارے وزیراعظم کو واضح منصوبہ بندی کے تحت ٹھوس اقدامات کا اعلان کرنا ہوگا خالی وعظ ونصیحت سے اصلاح احوال کی توقع رکھنا خام خالی ہوگی ریاستی ملکیتی اداروں کے چھ کھرب روپے کے نقصانات اور77برس میں کھربوں کی کرپشن کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں، ان کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ اس سے قبل بھی وہ اس قسم کی اچھی اچھی باتیں ارشاد فرماتے رہے ہیں مگر اس کا منصب ان سے صرف باتوں کی۔ نہیں عملی اقدامات اور نتائج کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر شریف خاندان اور اس کے اتحادی بھٹو خاندان کے اس ملک پر گزشتہ نصف صدی سے زائد کے اقتدار کا ذکر نہ چھیڑا جائے اور وزیراعظم کے صرف گزشتہ تین برس کے اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو حقائق اور اعدادوشمار یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ ان کے دور میں کرپشن اور چور بازاری، مہنگائی، بیروزگاری، غربت، افلاس میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہوا ہے، حکومت جتنے چاہے دعوے کرے کہ مہنگائی میں کمی آئی ہے مگر زمینی حقائق اور خود حکومتی اداروں کے جاری کردہ اعدادوشمار ان دونوں کی تصدیق کے بجائے تردید کر رہے ہیں کیونکہ ملک کی اکانومی کی بڑی ترقی کرنے کے دعوے ہو رہے ہیں۔ وہ جو ہماری سٹاک مارکیٹ ہے وہ گزشتہ دنوں میں ساتویں آسمان کو چھو گئی ہے، ایک لاکھ سے زیادہ کراس کر گئی، اتنی بہتری آرہی ہے کہ شہباز شریف کو اجلاسوں کے اندر شاباشیاں دی جارہی ہیں مگر یہ کوئی نہیں بتائے گا کہ مہنگائی میں کہاں کمی ہوئی، اس کم مہنگائی سے عام آدمی کی زندگی کہاں سے بہتر ہوئی؟ گزشتہ دنوں کے سروے نکال کر دیکھیں تو پتہ چلے گا یہ سارے جھوٹے خواب ہیں، آنکھوں کی دھول ہے جو لوگوں کے سامنے آرہی ہے۔ سٹاک مارکیٹ اوپر جارہی ہے، کمپنیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا، یہ سراسر غلط بیانی ہے، جس دن وزیراعظم اڑان پاکستان معاشی منصوبے کے اعلان کے موقع پر خطاب کر رہے تھے اسی دن نئے سال کے تحفے میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان بھی کیا جارہا تھا جبکہ دوسری جانب موٹرویز اور نیشنل ہائی ویز پر ٹول ٹیکس میں تھوڑا بہت نہیں سو فیصد کا ظالمانہ اضافہ کیا جارہا تھا، یہ پہلے سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے مجبور عوام کی جیبوں پر کھلا ڈاکہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اسی طرح چینی کی کلو تھیلے کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ اشیائے خورونوش، دالوں، گوشت اور سبزیوں کے آسمان سے باتیں کرتے نرخ بھی زیادہ کئے گئے ہیں۔
عبد الرزاق برق







