عمران خان، میزائل پروگرام اور ایک اہم سوال

روشن لعل
امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد رابطہ کار برائے خصوصی امور، رچرڈ گرینیل نے گزشتہ برس کے آخری ہفتہ کے دوران میڈیا سے بات کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ گرینیل نے عمران خان کی قید کو انسانی حقوق کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں وہ اسی قسم کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں، جس قسم کے الزامات امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ پر لگائے گئے تھے۔ قبل ازیں اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں رچرڈ گرینیل نے پاکستان میں سول شہریوں کے فوجی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اسی قسم کی کچھ دیگر باتوں کو جواز بناتے ہوئے گرینیل نے کہا کہ وہ عمران خان کو جیل سے باہر دیکھنا چاہتے ہیں۔ گرینیل سے قبل موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ میں دفتر خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے نہ صرف دبے الفاظ میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا بلکہ ہمارے دور مار بیلسٹک میزائل پروگرام پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران جب ٹرمپ کے نامزد رابطہ کار رچرڈ گرینیل نے عمران خان کی رہائی کی بات تو ان سے پاکستان کے میزائل پروگرام کے ضمن میں بھی سوال کیا گیا۔ اس سوال کے جواب میں گرینیل نے کہا کہ ٹرمپ کے نامزد سیکرٹری خارجہ مارکو ربیو، اس معاملے پر کام کر رہے ہیں، جب وہ اپنے عہدے کا چارج سنبھالیں گے تو وہ اس حوالے سے اپنے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ رچرڈ گرینیل کی طرف سے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ سامنے آنے کے بعد پاکستان میں مختلف حلقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مختلف قسم کے تبصرے کر رہے ہیں۔ عمران خان کے حامی کہہ رہے ہیں کہ ان کے لیڈر کو گرفتار کرنے اور جیل میں رکھنے سے یہاں انسانی حقوق کی جو پامالی ہوئی اس کا اعتراف اب امریکہ میں بھی کیا جارہا ہے۔ یہ اعتراف صرف امریکہ کی موجودہ حکومت نے ہی نہیں کیا بلکہ آئندہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے منتخب کئے گئے لوگ بھی کر رہے ہیں۔ عمران خان کے مخالف مبصر، جن میں ن لیگ کی طرف جھکائو رکھنے والے لوگ پیش پیش ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف پر بھی مقدمات قائم کئے گئے تھے اور انہیں بھی جیل میں رکھا گیا تھا لیکن ان کیلئے لیڈر کی رہائی اور اس کے انسانی حقوق کی پامالی پر تو امریکہ میں کسی نے آواز نہیں اٹھائی تھی۔ ان کا کہنا ہی کہ اب اگر بائیڈن کی موجود اور ٹرمپ کی کچھ دنوں بعد بننے والی حکومت کے لوگ عمران خان کی رہائی کیلئے حکومت پاکستان سے کھل کر مطالبہ کر رہے ہیں تو ضرور کچھ ایسے معاملات خفیہ طور پر عمران خان اور امریکی ایجنسیوں کے درمیان طے پا چکے ہیں جو موجودہ حکومت کیلئے قابل قبول نہیں تھے۔ رچرڈ گرینیل کے بیانات کے بعد عمران خان کے حامی اور مخالف جو باتیں کر رہے ہیں انہیں مجموعی طور پر نہ تو انتہائی سنجیدہ تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔ ان باتوں کو ایک دوسرے کی مخاصمت میں کی جانی والی پوائنٹ سکورنگ کے علاوہ شاید کچھ اور نہیں کہا جاسکتا۔ پوائنٹ سکورنگ کے طور پر کی جانے والی باتیں سچ بیان کرنے کیلئے نہیں بلکہ اپنے مخالفین کا ہر موقف ہر صورت میں جھوٹ ثابت کرنے کیلئے کی جاتی ہیں۔ پوائنٹ سکورنگ کی کوششوں کے دوران اکثر زیر بحث موضوع سی جڑے کچھ ایسے پہلو اور باتیں سامنے آنے سے رہ جاتی ہیں جن کا ذکر عام لوگوں کی آگہی کیلئے وقت کی ضرورت ہوتا ہے۔ ٹرمپ کے نامزد رابطہ کار رچرڈ گرینیل کی طرف سے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ سامنے آنے کے بعد عام لوگوں کو بتایا تو یہ جانا چاہئے تھا کہ ٹرمپ کے کیمپ کی طرف سے پہلی مرتبہ پاکستان میں قید کسی بندے کی رہائی کا مطالبہ سامنے نہیں آیا ہے۔ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ تو اس مرتبہ ٹرمپ کے صدارت کا حلف اٹھانے سے پہلے اس کے نامزد رابطہ کار نے کیا ہے لیکن پاکستان میں ایک ایسا قیدی بھی ہے جس کی رہائی کا مطالبہ اپنا پہلا صدارتی الیکشن جیتنے سے پہلے خود ٹرمپ نے کیا تھا۔ جس بندے کی رہائی کا مطالبہ مئی 2016میں ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اس انداز میں تھا کہ وہ صدر بننے کے بعد اسے ضرور رہا کرائے گا، اس کا نام ڈاکٹر شکیل آفریدی ہے۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی پر الزام تو یہ تھا کہ اس نے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی تصدیق کرنے کیلئے امریکی ایجنٹ کا کردار ادا کیا لیکن بعد ازاں اسے متروک ہوگئے فرنٹیئر کرائم ریگولیشن کے تحت کسی دوسرے الزام میں 33برس کی سزا سنائی گئی تھی۔ ٹرمپ نے 2016میں پہلی مرتبہ صدر بننے سے پہلے نہ صرف بذات خود شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ کیا بلکہ صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد بھی کئی مرتبہ یہ مطالبہ دہرایا ۔ عمران خان کے 2019کے دورہ امریکہ سے پہلے امریکی اور پاکستانی میڈیا نے یہ تاثر دیا تھا کہ ٹرمپ کسی نہ کسی طرح وزیراعظم پاکستان کو شکیل آفریدی کی رہائی پر آمادہ کر لیں گے مگر کہا جاتا ہے کہ عمران کی آمادگی کے باوجود ٹرمپ کی خواہش بوجوہ پوری نہیں ہوسکی تھی۔ اب جو لوگ رچرڈ گرینیل کے مذکورہ بیان کے بعد یہ یقین کر بیٹھے ہیں کہ ٹرمپ کے صدارتی حلف اٹھاتے ہی عمران خان کی رہائی کیلئے دنوں کی الٹی گنتی شروع ہو جائے گی، وہ یاد رکھیں کہ اپنی گزشتہ صدارتی مدت کے دوران ٹرمپ ، امریکی صدر کی حیثیت سے اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی شکیل آفریدی کی رہائی ممکن نہیں بنا سکے تھے۔ کالم کے آخر میں، ہمارے بیلسٹک میزائل پروگرام پر امریکی پابندیوں کا ذکر ضروری ہے۔ امریکہ کی جانے والی اور آنے والی حکومت کے ترجمانوں نے چند دن پہلے ایک ہی سانس میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ہمارے بیلسٹک میزائل پروگرام پر تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ جو لوگ دور کی کوڑی لاتے ہوئے یہ کہہ رہے کہ امریکہ اس لئے عمران کی رہائی پر زور دے رہا ہے کیونکہ وہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پر کوئی سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار ہوچکے ہیں ، ان کی باتوں پر دھیان دینے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں لیکن فی الوقت یہ بات بھی فراموش نہیں کی جانی چاہئے کہ ہمارے بیلسٹک میزائل پروگرام پر امریکی حکام کے بیانات سامنے آنے کی بعد حکومتی جماعت مسلم لیگ ن اور اسے اسمبلی میں حمایت فراہم کرنے والی پیپلز پارٹی نے تو امریکیوں کے مذکورہ موقف کی شدید الفاظ میں مذمت کی مگر پی ٹی آئی کی قیادت اس معاملے میں ابھی تک خاموش ہے۔ مین سٹریم میڈیا، سوشل میڈیا اور یو ٹیوب مارکہ مبصر جو عمران خان کی رہائی کے امریکی مطالبے پر لگاتار بحث کر رہے ہیں انہیں اپنی بحث کے دوران پی ٹی آئی کی قیادت سے یہ اہم سوال ضرور کرنا چاہئے کہ پاکستان کے دور مار میزائل پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنانے پر اس نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طرح امریکہ کی شدید الفاظ میں مذمت کیوں نہیں کی۔





