میں کیسے کہوں نیا سال مبارک

چودھری راحیل جہانگیر
نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی پوری قوم امید و یاس میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ اس بار کچھ نیا ہوگا اس بار حالات بدلیں گے اس بار پریشانیوں اور تکلیفوں میں کمی ہوگئی مگر ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہر گزرتے سال کے ساتھ وطن عزیز کی عوام کی پریشانیوں تکلیفوں اور دکھوں میں اضافہ ہو جاتا ہے حالات بہتری کی طرف مائل ہونے کی بجائے گھمبیر سے گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں مایوسی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے سال ضرور بدلتا ہے مگر حالات نہیں بدلتے جو وقت گزر جاتا ہے وہ کبھی واپس نہیں آئے گا یہ احساس بھی ہمیں تکلیف میں مبتلا کرتا ہے کہ ہم گزرے سال میں انفرادی اور اجتماعی طور پر وہ کام نہیں کر سکے جو ہمیں کرنے چاہیے تھے سال پہلے تیل گیس بجلی روز مرہ استعمال کی چیزوں چینی گھی دالوں چائے کی پتی سگریٹ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا عام آدمی مہنگائی کی دلدل میں پھنس کر رہ گیا دوسری طرف ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت کا جنازہ نکال دیا گیا گندم مکئی اور دھان کی قیمتوں میں انتہائی کمی دیکھی گئی جس سے کسان سڑکوں پر آگئے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں نے عوام کا کچومر نکال دیا پاکستان کی 77سال کی زندگی میں یہاں چند خاندان امیر سے امیر ہوئے ان کے حالات ضرور بدلے مگر عوام کے حالات نہیں بدل سکے۔
ہر گزرتے سال کے ساتھ یہی دعا دل سے نکلتی ہے کہ مایوسی کی گھٹائیں ختم ہوں ملک میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں غریبوں کو خوشحالی نصیب ہو وطن عزیز کا غریب آدمی اپنی حکومت سے چاہتا ہی کیا ہے دو وقت کی روٹی پہننے کو کپڑا عزت سے رہنے کو گھر بچوں کی تعلیم و تربیت اور علاج معالجہ۔ عام آدمی حکومت کو ٹیکسوں کی شکل میں ادائیگی اسی لئے کرتا ہے مگر بدلے میں اسے یہ چیزیں نہیں ملتیں بلکہ وہ دھکے کھا کر مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ سوچئے کیا ملک میں تعلیم فری ہے؟ کیا علاج کی سہولیات سب کو یکساں میسر ہیں علاج معالجہ فری ہے؟ کیا سر چھپانے کو سب کو گھر میسر ہیں؟ کیا سب کے بدن پر کپڑے ہیں؟ کیا سب کو دو وقت کی روٹی میسر ہے؟ فلاحی ریاستوں میں یہ سب کچھ حکومت کی ذمہ داری میں شمار ہوتا ہی عوامی مسائل اور تکلیفوں سے بے نیاز حکمرانوں کو قرضوں کے حصول میں دلچسپی ہوتی ہے تاکہ وہ ان پیسوں سے اپنے لئے مراعات حاصل کر سکیں ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا جائے کوئی فکر نہیں ملک ڈیفالٹ کر جائے کوئی فکر نہیں غیر ملکی قرضے اپنی غریب عوام کی تعلیم علاج معالجہ پینے کے صاف پانی دیگر سہولیات کے نام پر ان کے حالات بدلنے کیلئے لئے جاتے ہیں ہمارے ملک میں ان قرضوں سے اپنی جیبیں بھرنے کے علاوہ وقتی ضروریات پوری کی جاتی ہیں اگر غیر ملکی قرضے نہ یوں ہم تجارت کر سکتے ہیں نہ ہی سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ادا کر سکتے ہیں یہاں تک کہ ہمارا سالانہ بجٹ بیرونی امداد سے بنتا ہے بیرونی قرضوں کے نیچے دبا ہوا مقروض ملک جہاں عوام مہنگائی کی چکی پس رہے ہیں وہاں ان کیلئے کچھ کرنے کی بجائے سرکاری خزانے کے منہ اراکین اسمبلی وزراء اور سپیکر کی تنخواہوں اور مراعات میں لاکھوں کا اضافہ کر دیا گیا ہے جیسے اراکین اسمبلی نہایت غریب اور نادار طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں غریب کے حالات بدلیں نہ بدلیں ان کے پیسوں سے اراکین اسمبلی کے حالات ضرور بدل جائیں گئے جب سے نئی حکومت وجود میں آئی ہے عوام کو نوید سنائی جا رہی ہے کہ ملک کے حالات بہتری کی طرف مائل ہیں سٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر ساری نفسیاتی حدیں پار کر چکی ہے مہنگائی کی شرح تیزی سے کم ہو رہی ہے مگر اس کے باوجود خوشحالی عوام سے کوسوں دور ہے مہنگائی میں کمی شائد سرکاری کاغذات میں ریکارڈ کی گئی ہو مگر عام آدمی تک اس کے ثمرات نہیں پہنچ سکے اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ ملک میں واقعی مہنگائی کا دور دورہ ہے اور اراکین اسمبلی کا مہنگائی کی وجہ سے موجودہ تنخواہوں میں گزارہ نہیں ہورہا تبھی تو ایلیٹ کلاس کی تنخواہیں اور مراعات میں فوری اضافہ ہوا سوچنے کی بات یہ کہ مزدور اور غریب جو کیا ملا اس کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کیلئے کیا کیا گیا جس کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول سب سے بڑا چیلنج ہے حکومت ابھی تک ان کیلئے کوئی موثر معاشی پالیسیاں نہیں بنا سکی اراکین اسمبلی کیلئے معاشی پالیسیاں بنانے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں تھی کہ ان کو بجلی گیس فون پٹرول فری ملتا ہے وہ فیوڈل لارڈ اور انڈسٹریز کے مالک ہیں ان کا علاج معالجہ سرکاری وسائل سے ہوتا ہے ان سفر کھانا پینا سرکاری وسائل سے ہوتا ہے۔
کیا ملک امراء کیلئے بنا ہے کیا یہاں جینے کا حق صرف امراء کو ہے یہاں حکمرانی اور بڑے عہدے صرف امراء کیلئے ہیں جب نئے سال میں بھی یہی کچھ ہونا ہے اور عوام کی حالت نہیں بدلنی ان کیلئے تکلیفیں اور پیشانیاں بڑھنی ہیں تو میں کیسے کہوں نیا سال مبارک







