پائی جان کا وژن اور بھارتی ترقی

تحریر : سیدہ عنبرین
نیا سال مبارک، پرانے سال میں جو ترقی کی منازل طے کی گئیں جو اہداف حاصل کئے گئے ان کا خلاصہ یہ ہے کہ 3919 ارب روپے قرضہ حاصل کیا گیا جس نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اس سال کے 365 دنوں پر تقسیم کریں تو روزانہ قریباً 11ارب روپے قرضہ لیا گیا۔ آج اگر پوچھا جائے کہ یہ قرضہ زمین پر بسنے والوں پر تو خرچ ہوا نظر نہیں آ رہا پھر یہ کہاں گیا تو کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ سب ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگتے ہیں، اگر کوئی اعلیٰ عدالت بلا کر پوچھ لی تو شاید وہاں بھی انکار کرتے ہوئے کہیں کہ یہ قومی راز ہے بتایا نہیں جا سکتا، اگر بتا دیا گیا تو کئی ملکوں سے ہمارے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ 3919ارب کا قرض تو غیر ملکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے لیا گیا ہے جبکہ قومی بینکوں سے لیا جانے والا قرض اس کے علاوہ ہے۔ پراپرٹی ٹیکس، بجلی، گیس کی قیمتوں میں متعدد مرتبہ اضافے، دیگر ٹیکسوں میں اضافے، اوور بلنگ کے کروڑوں روپے جمع کئے جائیں تو یہ کئی ہزار ارب ہوتے ہیں، جو حکومت کے خزانے میں آئے ہیں، یہ کہاں گئے، یہ بھی ایک سوال ہے، سرکار تو شاید یہ نہ بتائے کہ قافلہ کہاں لٹا ہے، لیکن معیشت کی سدھ بدھ رکھنے والے ہمیں ہر روز بتاتے ہیں، کیا ہوتا رہا ہے، کیا ہو رہا ہے، اور آئندہ کیا ہو گا۔ ذرائع کے مطابق قرضوں کی خطیر رقم جب پاکستان پہنچتی ہے تو قرضہ دلوانے والوں کی فیس کے نام پر ایک بڑی رقم کاٹ کر انہیں ادا کر دی جاتی ہے، باقی رقم کے گزشتہ اڑھائی سال سے دو ہی مصرف ہیں، ایک تو بھاری شرح سود پر لئے گئے قرضوں کا سود ادا ہو جاتا ہے، جبکہ اصل زر عرصہ دراز سے اپنی جگہ پر موجود ہے، اس کے علاوہ کئی ہزار ارب روپے باقاعدگی سے کیپسٹی پے منٹ کے نام پر پرائیویٹ پاور پروڈیوسرز کو ادا کئے جاتے ہیں، اس طرح زرمبادلہ کا ادھار آنے والا خون پاکستان کی معیشت کی رگوں میں شامل ہونے کی بجائے پرائیویٹ سیکٹر کو منتقل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان کا چہرہ نقاہت سے زرد اور پرائیویٹ پاور پروڈیوسرز کے چہرے کی لالی بڑھتی جا رہی ہے۔زرمبادلہ کا ایک کثیر حصہ ان چیزوں کی امپورٹ پر خرچ ہو جاتا ہے جس کے بغیر ہماری گزر ہو سکتی ہے، کچھ ڈالر ہم اپنی ناقص منصوبہ بندی سے ضائع کر دیتے ہیں، جبکہ ایک بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ گزشتہ برس گندم کی بمپر کراپ کا بہت چرچا تھا، بمشکل بلاشبہ بمپر کراپ تھی مگر حکومت پنجاب کی غیر دور اندیشی کے سبب خریداری نہ کرنے کے اعلان کے سبب کسان زمیندار کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، اس فیصلے کا اثر امسال ہم دیکھیں گے۔ پنجاب میں 16.5ملین ایکڑ پر بوائی کرنے کی منصوبہ بندی ضروری تھی، یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکا، دلبرداشتہ کسان نے 12ملین ایکڑ یہ گندم کاشت کی ہے، یعنی 25فیصد کم رقبے پر گندم کاشت کی گئی ہے۔ صوبہ سندھ سے بھی ایسی ہی اطلاعات ہیں، گندم بحران آئے گا، گندم امپورٹ کرنے والوں کی قسمت جاگے گی، گندم کی امپورٹ پر بھاری زرمبادلہ خرچ ہو گا۔ اس سال روس اور یوکرین میں جنگ جاری ہے، وہاں سے گندم نہیں منگوائی جا سکے گی، اس کے علاوہ ہم جہاں سے بھی گندم امپورٹ کریں گے ہمیں مہنگے داموں ملے گی، نقصان ملک کا ہو گا، ٹیکس دینے والوں کا ہو گا، مہنگی گندم، مہنگا آٹا اور مہنگی روٹی، غریب آدمی کا مقدر بنا دی گئی ہے، 20روپے روٹی کے نام پر خریدار کے ہاتھ میں پاپڑ تھما دیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب اپنی ٹیم کے ساتھ جس تنور پر گئیں اور اسے سمجھا کر آئی تھیں کہ 20روپے کی روٹی بیچنی ہے اور وزن پورا رکھنا ہے، اس نے یہ بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اسی وقت نکال دی تھی، ان کی ٹیم اشیائے صرف کی قیمتیں کم ہونے کی جعلی اطلاعات ان تک پہنچاتی ہے، جن پر وہ سادہ دلی سے یقین کر لیتی ہیں، قیمتیں چیک کرنے کیلئے لائو لشکر اور میڈیا ٹیم کے ساتھ جا کر حقیقت آشکار نہیں ہوتی، اس کا طریقہ کچھ اور ہے جو شاید انہیں نہیں معلوم۔
نیا سال ایک لطیفے سے شروع کیا گیا ہے اور ایک لطیفے پر ہی ختم ہو گا، پاکستان آج جہاں کھڑا ہے، اس سے بہتر حالت میں جانے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے، مزید کئی ہزار ارب روپے کے قرضوں تلے اور مہنگائی میں گھرا ہوا نظر آئے گا، کیونکہ ترقی اور معیشت کیلئے لطیفوں کا سہارا لیا گیا ہے، لطیفہ یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھارت کی ترقی کیلئے جناب پائی جان کا ماڈل اپنایا۔ غور فرمائیے بھارت میں گزشتہ 50برسوں میں قرض اتارو ملک سنوارو سکیم نظر نہیں آئی، وہاں پیلی ٹیکسی سے معیشت میں انقلاب لانے کا منصوبہ نہیں بنا، وہاں سرکاری خرچ پر لیپ ٹاپ اور سکوٹیاں تقسیم نہیں کی گئیں، وہاں بجلی اور گیس کی سبسڈی کے نام پر صنعتکاروں کو مالا مال نہیں کیا گیا، وہاں کیپسٹی پے منٹ کی ادائیگی کی شرط پر بنا ایک یونٹ بجلی خریدے اربوں ڈالر ہر سال ادا نہیں کئے جاتے، وہاں مرضی کے چیف جسٹس سے فیصلے نہیں لئے گئے۔ منموہن سنگھ کو شیر کہلوانے، ہاتھ پر کبوتر بٹھانے کا شوق نہیں تھا، انہوں نے کبوتر ہاتھ پر بٹھانے کے بعد کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اب اس کے صدقے ملک میں امن آ جائے گا اور ملک ترقی کرے گا، وہ اپنی بیماریوں کے علاج کیلئے کبھی لندن، امریکہ، فرانس، جنیوا نہیں گئے۔ ان کے بیٹے غیر ملکی شہریت نہیں رکھتے، نہ کہیں اور کسی ملک میں کاروبار کرتے ہیں، ان کے بچے کم سنی میں ارب پتی نہیں بنے، ان کی اپنی یا ان کی اولاد کی، ان کے بھائیوں، بھتیجوں کی جائیدادیں بھارت سے باہر نہیں ہیں، ان کے زمانہ حکومت میں ان کے سیاستدانوں نے لوٹ لوٹ کر روپیہ بیرون ملک منتقل نہیں کیا، ان کے حوالے سے کوئی قطری خط آج تک دنیا کے سامنے نہیں آیا۔ منموہن سنگھ نے تمام عمر کاٹن کا لباس اور اپنی روایتی پگڑی پہنی اور اس پگڑی کی لاج رکھی، ان کے کوئی فارن اکائونٹ، اثاثے اور بیش قیمت جائیدادیں ملک کے اندر یا ملک کے باہر نہیں ہیں، انہوں نے پاکستان میں بزنس مینوں سے پارٹنر شپ نہیں کی، انہیں بوسکی پہنے، مرسیڈیز کاروں میں گھومتے نہیں دیکھا گیا، وہ بھارت کی بنی ہوئی سادہ سی کار استعمال کرتے تھے، انہیں لندن، نیویارک، بنکاک کے سپر سٹورز سے شاپنگ کرتے بھی نہیں دیکھا گیا۔ منموہن سنگھ نے وزیراعظم بن کر اپنے بھائی کو اہم ترین بھارتی صوبے کا حاکم نہیں بنایا، نہ ہی انہوں نے اپنی سیاسی وراثت اپنی بیٹی میں تقسیم کی۔ پس جناب منموہن سنگھ پر ’’ پائی جان ماڈل‘‘ اپنانے کا الزام درست نہیں ۔ بھارت نے جو ترقی کی ہے وہ ان کا اپنا ماڈل ہے۔ منموہن سنگھ سے پہلے جو آئے اور جو ان کے بعد آئے سب نے اسی ماڈل کو اپنایا، ان کا کوئی لیڈر کسی غیر ملکی یا ملکی طاقت کا کبھی مہرہ نہیں بنا، وہ گاندھی، نہرو اور اندرا گاندھی سے لے کر بعد میں آنے والے کسی کو کبھی دشمن کا ایجنٹ نہیں کہتے، سب کا احترام کرتے ہیں۔ وہ امریکہ کو اپنا باپ یا چین و روس کو دادا ابا کا درجہ نہیں دیتے، ہر ملک سے برابری کی بنیاد پر تعلقات رکھتے ہیں، دنیا میں ان کی پہچان جمہوریت سے ہے، ان کی دوسری پہچان ایک مضبوط اقتصادی ملک کی ہے، کسی بھیک مہنگے کی نہیں۔ نیا ٹرک اور اس کی نئی بتی ’’ اڑان پاکستان‘‘ ہے۔ یہ اہداف وہ حاصل کریں گے جو گزشتہ 4مرتبہ اور 40سال میں ملک کو کچھ نہیں دے سکے؟۔
اطلاعات ہیں گزشتہ 5ماہ میں 33لاکھ افراد نے پاسپورٹ بنوائے، گزشتہ 6ماہ کے ٹیکس محصولات میں 386ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔ ایک انگریزی اخبار کے مطابق ایک پرائیویٹ بینک بحرین اور یو اے ای سے 300بلین ڈالر قرض کا انتظام کر رہا ہے۔ پائی جان اور پائی جان کا ماڈل پٹ چکا ہے۔ آج فلم ساز و ہدایتکار کیفی بہت یاد آ رہے ہیں وہ بھی کچھ ایسا ہی کہتے تھے۔





