لاہور پریس کلب اور ضرار شہید روڈ

تحریر : روہیل اکبر
لاہور پریس کلب نے ایک بار پھر تاریخ رقم کرتے ہوئے ارشد انصاری کو 13ویں بار صدر بنا ڈالا لیکن ساتھ ہی نائب صدر کی سیٹ پر دوسری بار قسمت آزمائی کرنے والے امجد عثمانی کو صائمہ نواز نے شکست دیدی، اس بار پریس کلب میں دو خواتین منتخب ہوئی ہیں، شاہدہ بٹ گورننگ باڈی پر آگئی ہیں جبکہ افضال طالب سینئر نائب صدر سیکرٹری زاہد عابد، جوائنٹ سیکرٹری عمران شیخ، سیکرٹری فنانس سالک نواز بھی منتخب ہو چکے ہیں، یہ سبھی افراد متعدد بار پریس کلب کے عہدیدار رہ چکے ہیں، لیکن سوائے ایک یا دو ناموں کے علاوہ اور کسی کے کھاتے میں کوئی قابل فخر کام نہیں، جنہیں یاد رکھا جائے، سوائے ایک صحافی کالونی کے، وہ بھی اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کا کارنامہ تھا کہ انہوں نے صرف لاہور پریس کلب کے لیے ہی پلاٹ نہیں دئیے، بلکہ راولپنڈی/اسلام آباد اور ملتان والوں کو بھی صحافی کالونی بنا کر دی۔ حیرت اور افسوس اس بات پر ہوتی ہے کہ ہمارے کلبوں کی سیاست آج بھی پلاٹوں کے ارد گرد ہی گھومتی ہے، ایف بلاک ہو یا بی بلاک کوئی بھی مسئلہ آج تک حل نہیں ہوا، بلکہ فیز 2کا جو لالی پاپ گزشتہ کئی سال سے دیا جاتا رہا اس بار بھی الیکشن اسی پر کھیلا گیا اور مجھے قوی امید ہے کہ آنے والا اگلا الیکشن بھی فیز 2پر ہی لڑا جائیگا۔ ہمارا کلب سیاست دانوں اور حکمرانوں کا مرہون منت ہے وہ فنڈز دیں گے تو ہماری دال روٹی چلے گی، بجلی کے بل ادا ہونگے اور ملازمین کی تنخواہیں ادا کی جائیگی۔ اگر حکومت ہمیں پیسے نہ دے تو ہم کلب کو کلب نہیں بنا سکتے، حالانکہ یہ سب اتنے طاقتور لوگ ہیں کہ حکمرانوں سمیت تمام کے تمام سیاست دان ان کی ایک کال پر اٹینشن ہو جاتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ ہمارے ذمہ کوئی کام لگائیں، مگر ان سارے کلغی والوں کے ہوتے ہوئے کلب کا برا حال ہے کوئی واش روم درست نہیں، میز اور کرسیاں جو ناصرہ عتیق نے عطیہ کی تھیں وہی ابھی تک خستہ حالت میں چل رہی ہیں۔ کمپیوٹر خراب ہیں سخت سردیوں میں پورے کلب میں کہیں ہیٹر کا انتظام نہیں، سوائے صدر اور سیکرٹری کے کمرے کے، باقی سب معزز ممبران کی مرضی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں ان کا دل کرے ٹھٹرتے پھریں، گرمیوں میں پریس کلب آئیں تو پسینہ ہی خشک نہیں ہوتا لیکن صدر اور سیکرٹری صاحب مزے میں ہوتے ہیں کیونکہ وہ ممبران کی خدمت ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ہی صحیح انداز میں کر سکتے ہیں اور بار بار ان کا جیتنا نہ صرف پریس کلب کے مفاد میں ہے بلکہ صحافیوں کے بھی بہترین مفاد میں ہے، اسی لیے تو ریکارڈ پر ریکارڈ بن رہے ہیں، جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں الیکشن جیتنے کے بعد اسی سیٹ پر دوبارہ الیکشن نہیں لڑنا چاہیے، کسی اور کو موقع دیدیا جائے ہوسکتا ہے کہ آنے والے کے نظریات، خیالات اور تعلقات ہم سے مختلف ہوں، وہ کلب اور کلب والوں کی بہتر خدمت کر سکے، ویسے سال میں 365دن ہوتے ہیں اور کام کرنے والوں کے لیے ایک دن ہی بڑا اہم ہوتا ہے اس بار دو خواتین صائمہ نواز اور شاہدہ بٹ جیتنے والوں میں شامل ہیں اور مجھے خواتین سے بڑی امیدیں ہیں کہ وہ مسز کلثوم منصور کی طرح ایسے کام کر جائیں گی، جو ہمیشہ ان کی یاد کو ترو تازہ رکھیں گے۔ پریس کلب کی بہتری کے حوالے سے بہت سی تجاویز ہیں بلکہ ہر ممبر کے پاس ہونگی، جن پر عمل کرنا کوئی مشکل کام نہیں، اس بار جیتنے والے سبھی تجربہ کار صحافی ہیں، جنہیں آج سے ہی کام تیز کر دینا چاہیے تاکہ وہ بھی تاریخ تختیوں کے علاوہ دلوں میں بھی زندہ رہیں۔ میں نے مسز کلثوم منصور کا ذکر کیا ہے تو ان کی زندگی کے چند واقعات بھی پڑھ لیں کہ کن کن مشکلات کا سامنا کرکے انسان دوسروں کے دلوں میں گھر بناتا ہے، لاہور میں ضرار شہید روڈ کا تو سب کو پتہ ہے، جو صدر گول چکر سے شرو ع ہو کر جوڑے پل سے ہوتی ہوئی رینجر ہیڈ کوارٹرز سے گزرتی ہے یہ سڑک اس ماں کی جرات، بہادری اور ہمت کی لازوال داستان ہے جس کا بیٹا پاک بحریہ میں پائلٹ تھا اور بھارتی میزائل لگنے سے 15ساتھیوں سمیت شہید ہوگیا تھا اور پھر بیوروکریسی کے روئیے سے دل برداشتہ ان کی والدہ نے بیٹے کی شہادت پر ملنے والی رقم لینے سے انکار کر دیا اور اپنی ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم سے ضرار شہید کی یاد میں ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا۔ ضرار شہید ٹرسٹ ہسپتال کا نام بھی اکثر نے سن رکھا ہوگا، ضرار شہید کی والدہ مسز کلثوم منصور کی زندگی کی جدوجہد ہمارے لیے مشعل راہ ہے، صرف الیکشن جیت کر باریاں گننا ہی کام نہیں ہے بلکہ مرد ہوتے ہوئے ہمیں خواتین سے بڑھ کر کام کرنا چاہیے، لیکن سلام ہے مسز کلثوم منصور پر جو سندھ کے ایک ایسے گائوں میں پلی بڑھیں جہاں دور دور تک لڑکیوں کا کوئی سکول نہیں تھا، وہ لڑکوں کے سکول جانے لگیں اور پرائمری پاس کرلی، اس کے بعد میٹرک کی تیاری پتہ نہیں کیسے کی اور لاہور آکر پرائیویٹ امیدوار کے طور پر امتحان دے کر میٹرک پاس کرلیا۔ ان کی زندگی کی داستان بھی بڑی عجیب ہے کوئی ایسا دکھ بھی ہوگا جو انہوں نے نہ سہا ہو لیکن ان کی ثابت قدمی مردوں سے زیادہ رہی، ان کا خاندان گورداس پور کے ایک گائوں سے ہجرت کرکے جڑانوالہ کے ایک گائوں میں آباد ہوا تو وہاں کوئی چھوٹی سی بات دشمنی میں بدل گئی۔ کلثوم کے کمسن بھائی، بہن کو زہر دے دیا گیا۔ تنگ آکر اس پورے خاندان نے پھر ہجرت کی اور اس بار سندھ میں ٹنڈو آدم کے ایک گائوں میں پناہ لی، کلثوم میٹرک کرنے کے بعد مضطرب تھی کہ اب کیا کرے اور کیسے کرے، کسی نے بتایا کہ جام شورو حیدرآباد کے لیاقت میڈیکل کالج کے نرسنگ سکول میں تعلیم و تربیت کے ساتھ وظیفہ بھی ملتا ہے، وہ وہاں پہنچ گئیں، داخلہ ہوگیا، دل لگا کر پڑھا ، پھر نرس، ٹیوٹر نرس، نرسنگ سپرنٹنڈنٹ کے طور پر لوگوں کی خدمت کی اور سینکڑوں شاگردوں کو تربیت دی خود بھی اپنے شعبے میں مزید تعلیم حاصل کرتی رہیں۔ پوزیشنز، اعزاز اور ٹرافیاں حاصل کیں، آخر نرسنگ کے مضمون میں بی ایس سی کرلی۔ ملازمت میں ترقیاں ملتی رہیں اور پنجاب کی ڈائریکٹر جنرل نرسنگ بن کر ریٹائر ہوئیں۔ انہیں پتہ تھا کہ غربت سے نکلنے کی راہ صرف تعلیم ہے، وہ جہاں بھی رہیں غریب ملازمین کے بچوں کو اپنے گھر میں پڑھاتی رہیں۔ اپنے بچوں کی تعلیم کا خیال کیسے نہ رکھتیں، اس کیلئے انہوں نے اپنے تمام تر وسائل اور پوری توجہ صرف کی جس کے نتیجے میں ایک بیٹا پائلٹ، دوسرا ایرو ناٹیکل انجینئر اور بیٹی ڈاکٹر بنی۔ بحریہ کے پائلٹ ضرار منصور ملک کی شہادت کے بعد اس کی یاد میں انہوں نے سرحدی علاقے برکی میں ایک ڈسپنسری سے خدمت خلق کا کام شروع کیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہسپتال کی شکل اختیار کر گیا۔ مسز کلثوم منصور اپنے شہید بیٹے ضرار کی قبر پر کبھی نہیں گئیں، لیکن ہسپتال روزانہ جاتیں، ارد گرد کے دیہات میں میڈیکل کیمپ لگاتیں، عورتوں کو حفظان صحت اور صفائی کے گر سکھاتیں، وہ سارے علاقے کی آپا بن گئیں، علاقہ کی کئی خواتین ہسپتال بنانے کی جدوجہد میں ان کے ساتھ رہیں۔ وہ کہتی تھیں ’’ یہ مائوں کی جدوجہد ہے‘‘۔ ضرار شہید کی والدہ کو خود ہسپتال چلانے کیلئے پندرہ سال کا عرصہ ملا کینسر نے انہیں زیادہ وقت نہیں دیا لیکن ہسپتال چل رہا ہے۔ زچہ بچہ، آنکھوں، دانتوں، ایمرجنسی کے شعبے، ڈائلسز اور دوسری کئی سہولیات مہیا ہیں۔ ضرار شہید کی ڈاکٹر بہن اور انجینئر بھائی اس کے نگرانوں میں شامل ہیں۔ بہن ڈاکٹر خولہ بنت منصور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں امراض اطفال کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینئرنگ میں بیچلرز کرنے کے بعد پہلے ایئر فورس میں خدمات انجام دیں پھر کمپیوٹر انجینئرنگ میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی اور آج کل یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پروفیسر ہیں۔ یہ سب کچھ ایک عورت اور ماں کی بدولت ہی ممکن ہوا اور انہی کی خدمات کے بدلے میں ضرار شہید روڈ بنی۔ یہ کام کرنے کے لیے انتھک محنت، حوصلہ اور ہمت چاہیے۔ صرف بار بار جیت کر تختیوں کی نقاب کشائی کرنے سے کوئی بھی تاریخ میں زندہ نہیں رہا بلکہ کچھ عرصہ بعد تختی اکھڑ جاتی ہیں یا ٹوٹ جاتی ہیں، جبکہ ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کے لیے جو کام کیے جاتے ہیں وہ ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ امید ہے اس بار کلب کے عہدیدار دلوں میں زندہ رہنے والے کام کر جائیں گے۔





