
تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )
امریکہ میں نو منتخب ٹرمپ حکومت کے بعد یکایک پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے چہ میگوئیوں میں تیزی نظر آ رہی ہے۔ ایسا کوئی بھی فیصلہ بنیادی طور پر تو حکومت اور مقتدرہ کی باہمی مشاورت سے ہی ہونا ہے لیکن ایک عجیب سی بات دیکھنے میں آئی ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ اسیر عمران خان اس حوالے سے واضح اعلان کریں کہ وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ امیر جماعت اسلامی کا یہ مطالبہ سمجھ سے باہر ہے کہ وہ ایک معتوب سیاسی رہنما سے ایسی یقین دہانی کس وجہ سے کر رہے ہیں کہ یہ یقین دہانی تو حکومت وقت سے کی جانی چاہئے نہ کہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے موجود عمران خان سے۔ بہرحال عمران خان کے دور حکومت کے ابتدائی ایام میں بھی ایسی ہی چہ میگوئیاں سننے کو مل رہی تھی اور یہ خبریں بھی سننے کو ملی تھی کہ اسرائیل کا کوئی وفد شروع کے دنوں میں ہی پاکستان آیا تھا اور اس کی ملاقات عمران خان سے ہوئی تھی جس میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات چیت بھی ہوئی۔ تاہم عمران خان نے اپنے دور حکومت میں نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا اور نہ ہی کسی بھی موقع پر کوئی کمزوری دکھائی بلکہ بعد ازاں اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر دوٹوک مؤقف اپنایا اور ساری دنیا کو واشگاف الفاظ میں حرمت رسولؐ اور اسرائیل کی چیرہ دستیوں کے متعلق بتایا۔ نومبر 2018ء میں اسی سیاق و سباق میں ایک تحریر بعنوان ’’ ناجائز ریاست‘‘ شائع ہوئی تھی، جسے قارئین کی نذر کر رہا ہوں کہ کسی بھی پاکستانی حکومت کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ان حقائق کو بہرصورت مد نظر رکھنا ہوگا، فیصلہ سازوں کی یاددہانی اور عوام کے لئے مکرر عرض ہے،
’’ اپنی گزشتہ تحریر میں راقم نے دو حوالوں سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے پر اپنی رائے کا اظہار کیا تھا لیکن ایک اہم موقف، جو بابائے قوم نے، اسرائیلی ریاست کے حوالے سے اپنایا تھا، کالم میں جگہ کی تنگی کے باعث ذکر ممکن نہیں تھا، آج اس حوالے سے قارئین کی یادداشت کو تازہ کرنے کی کوشش ہے ۔ بنی اسرائیل چونکہ اللہ رب الکریم کی چہیتی قوم کے طور پر جانی جاتی ہے اور اس کا ذکر ہماری الہامی کتاب قرآن مجید میں بھی ہے مگر چہیتی ہونے کے باعث اس قوم کی عادات و خصائل بھی خصوصی ہیں۔ اللہ رب العزت کے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے اپنی تعلیمات اور تبلیغ میں واضح طور پر نبی آخرالزماںؐ ،سرکار دو عالمؐ اور محبوبؐ خدا کے آنے کی نوید سنائی اور اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر انہیں سرکار دوعالم ؐکا زمانہ نصیب ہو تو وہ آپؐ کے امتی ہونے میں فخر محسوس کریں گے۔ دوسری طرف بنی اسرائیل چہیتی قوم ہونے کے ناطے یہ تصور کر چکے تھے کہ اللہ کی یہ برگزیدہ ہستی بھی ،دیگر نوازشات کی طرح ،انہی کی قوم سے مبعوث ہو گی مگر اللہ رب العزت کے اپنے فیصلے اور اپنی حکمتیں ہیںلہذا سرکار دو عالمؐ کی آمد بنو اسرائیل میں سے نہ ہوئی۔ تاریخ میں یہ حقیقت بھی واضح اور عیاں ہے کہ بنی اسرائیل کے بزرجمہروں کو اللہ کے اذن ،اپنی عقل و دانش اور علم سے اس بات کا علم ہو چکا تھا کہ رحمت اللعلمین ؐ کی آمد عرب کے ریگزاروں اور مکہ کے قرب و جوار میں ہو گی لہذا وہ اپنی زمین چھوڑ کر حجاز مقدس میں جا بسے۔ بنیادی طور پر بنی اسرائیل کی قسمت میں ہمیشہ سے یہی لکھا نظر آتا ہے کہ وہ کہیں ایک جگہ ٹک کر نہیں رہ سکتے گو کہ اللہ رب العزت کی چہیتی قوم ہے مگر اپنی نافرمانیوں کے باعث ہمیشہ راہ راست سے بھٹکے بھی رہے ہیں۔ ہٹ دھرمی ،ضد اور انا کی ماری یہ قوم اس وقت بھی اپنی انہی جبلتوں کے باعث،حق پر ایمان لانے سے گریزاں رہی اور آج تک گریزاں ہے،اور اپنی انہی ریشہ دوانیوں ،بغض اور کینہ پروری جیسی عادتوں کے باعث آج تک بھٹکی ہوئی ہے۔ ایسی قوم کے متعلق ہی قرآن مجید میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ان کے دلوں پر کفر کی مہر لگا دی گئی ہے ماسوائے ان لوگوں کے جو ہدایت کے طلبگار ہوتے ہیں، بنی اسرائیل، نصرانی اور ہندوؤں کے دینی اکابرین حقائق جانتے بوجھتے بھی،اپنی قوم کو بے خبر رکھے ہوئے ہیں وگرنہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کی حقانیت اظہر من الشمس ہے اور کوئی بھی جستجو کرنے یا رکھنے والا اس سے کسی صورت انکار نہیں کر سکتا۔ سرکار دوعالمؐ کی آمد و مدینہ ہجرت کے بعد ،جہاں بنی اسرائیل اس وقت زیادہ تعداد میں مقیم تھے،اپنی کینہ پروری کے باعث مسلمانوں سے خاص پرخاش رکھے، ان کے لئے مسائل پیدا کرتے رہے ۔ مسلمانوں سے عہد و پیمان میں مسلسل و ہمہ وقت بد عہدی کرتے، گھر میں بیٹھے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سازشیں کرتے،مسلمانوں کے لئے حیات کو تنگ کرتے،مسلمان غلاموں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھتے، انہیں مرتد کرنے کی تدبیریں کرتے،ان کے خلاف بیرونی حملہ آوروں کی مدد تو ا ن کے لئے انتہائی معمولی بات تھی۔ جب یہ حرکتیں بڑھتی چلی گئی تو سرکار دوعالم ؐ نے انہیں سرزمین مدینہ سے نکل جانے کا حکم سنا دیا لیکن تاریخ میں کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ سرکار دوعالمؐ نے ان کے وفود کوملنے سے انکار کیا ہو، ان سے تجارت نہ کی ہو لیکن ان تعلقات میں ہمیشہ مشتری ہوشیار باش والی کیفیت رہی اور کبھی انہیں کسی بھی طرح کا وار کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ بنی اسرائیل کے تابوت میں آخری کیل خلیفہ راشد دوئم حضرت عمر بن خطابؓ نے ثبت کی ،جب انہیں سرزمین حجاز سے کلیتاً بے دخل کر دیا گیا،جس کے بعد ان پر زمین بھی تنگ ہوتی چلی گئی اور وہ خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے اور اپنی انہی حرکتوں کے باعث ہر ملک سے نکالے جاتے رہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران اور خاتمے تک ،بنی اسرائیل نے ہولو کاسٹ کا ایک ایسا ڈرامہ رچایا ،جس پر آج بھی نہ تو تحقیق کی اجازت ہے اور نہ لب کشائی کی،جس نے انہیں بالآخر برطانوی سامراج سے واپس اپنے وطن فلسطین ،جو بنی اسرائیل کا اصل و طن گردانا جاتا ہے،پہنچا دیا۔برطانوی سامراج نے ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے،بنی اسرائیل کو فلسطین میں بسا کر ایک طرف انہیں زیر بار کیا تو دوسری طرف عرب کی مسلم ریاستوں کے سینے میں مستقل خنجر پیوست کردیا۔ دنیا بھر میں ایسی ریاست کی مثال کبھی نہیں دیکھی گئی اور نہ ہی دیکھی جا سکتی ہے کہ ایک ایسی قوم جس کی زیادہ سے زیادہ تعداد ساٹھ سے ستر لاکھ کے درمیان ہو،کو ایک ریاست میں ایسے داخل کیا گیا ہوکہ پورے خطے کے امن کو داؤ پر لگا دیا جائے۔بنی اسرائیل ایک طرف تو اللہ کی چہیتی امت تھی ہی مگر اپنے مکر و فریب سے غیر مسلم دنیا کی بھی ضرورت بن گئی ،ایک چھوٹے سی خطے کی خواہاں قوم نے بعد ازاں جس طرح فلسطینی سرزمین کو ہڑپ کرنا شروع کیا، مہذب دنیا کا انتہائی شرمناک باب ہے۔ 1947ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق56:43کے تقسیم کے فارمولے سے انکار پر ،عرب اسرائیل کی جو جنگ لڑی گئی، اس میں اسرائیل نے غیرمسلم دنیا کی بھر پور امداد و تعاون کے باعث،فلسطینی علاقوں کو فتح کر لیا،جبکہ رہی سہی کسر 1967میں پوری کر دی،آج فلسطینی ایک محدود سے حصے پر ،اسرائیل کے ظلم و ستم،جبرو استبداد کے سائے میں رہائش پذیر ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار آئے روز ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر صم بکم کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں،نہتے فلسطینی اپنے حقوق کی خاطر ، کیل کانٹے سے لیس اسرائیلی فوجیوں کا سامناکرنے پر دہشت گرد قرار دئیے جاتے ہیں مگر نہتے بچوں ،بوڑھوں، عورتوں اور مریضوں پر آتش و آہن برسانے والے اسرائیلی فوجی مظلوم دکھائے جاتے ہیں۔ پاکستان کی عرب دنیا سے الفت و محبت و عقیدت ایک مسلمہ حقیقت ہے اور ساری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے نزدیک سعودی عرب بالخصوص انتہائی مقدس مقام رکھتا ہے ،اس لئے پاکستانی عوام کو بالعموم یہی تاثر دیا جاتا رہا کہ چونکہ اسرائیلی ریاست کا قیام باقی عرب ریاستوں کو قبول نہیں ،اس لئی ہمیں اسرائیلی ریاست منظور نہیں ۔ در حقیقت یہ سوچ انتہائی غلط اور حقائق کے منافی ہے کہ ہم ایک ریاست کو صرف اس وجہ سے تسلیم نہیں کرتے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اسرائیل کو زبردستی خطہ زمین دے کر اس کی خواہشات کے سامنے سر جھکایا گیا ہے،وہ طریقہ کاربذات خود درست نہیں کہ اس دوران دنیا بھر میں جہاں بھی ممالک آزاد ہوئے ہیں،اس کے پیچھے تحاریک آزادی کی طویل داستانیں موجود ہیں۔ ایسا نہیں کہ ایک قوم کی بلیک میلنگ کے سامنے سر نگوں ہو کر،دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کے ایک حصہ کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے،ان کے عقائد کی بے حرمتی کی جائے،ان کے جان و مال کو گولہ و بارود کی نوک پر رکھا جائے،ان کے بنیادی حقوق کو سلب کر لیا جائے،ان کی مقدس عبادت گاہ پر قبضہ کر لیا جائے،مہذب دنیا کے یہ اطوار قطعاً نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں تسلیم کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس صد افسوس! کہ مہذب دنیا کے پیروکار اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں سے انحراف پر اترے،ساری دنیا میں مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیںاور غیر مسلم ریاستوں میں ریاستی دہشت گردوں کو ان کے قتل عام کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ یہ ریاستی دہشت گرد خواہ فلسطین کے ہوں یا ہندوستان کے،میانمار کے ہوں یا دنیا کے کسی بھی حصے سے،انہیں نہ کسی کی پروا ہے اور نہ ڈر،وہ کھلے بندوں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلتے نظر آتے ہیں۔ بنی اسرائیل کے ماضی سے واقف ہونے کے باعث،بابائے قوم نے’’ ناجائز‘‘ اسرائیلی ریاست کے اس جبراً قیام کی اصولی مخالفت کی تھی،پاکستان کی حکومتوں کو اسرائیل تسلیم کرنے سے پہلے اس کے ناجائز قیام کو ہمیشہ مد نظر رکھنا ہو گا‘‘۔





