Ali HassanColumn

بے نظیر بھٹو کی سترہ ویں برسی

تحریر:علی حسن
پاکستان کی دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والی مرحومہ بے نظیر بھٹو کی سترہ ویں پر برسی منائی گئی۔ معمول کے مطابق ہر سال کی طرح برسی کے تقریب 27دسمبر 2024ء کو بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان گڑھی خدا بخش کے میدان میں ہوئی۔ اسی قبرستان میں ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، میر مرتضی بھٹو، شاہ نواز بھٹو اور دیگر افراد دفن ہیں۔ بی بی مرحومہ کو27دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے بعد گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا تھا۔ وہ اپنی انتخابی مہم کا جلسہ کرکے فارغ ہی ہوئی تھیں اور واپس ہو رہی تھیں۔ ان کے شہادت کے بعد سے اب تک سندھ میں ان کی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ ان کے شوہر آصف علی زرداری 2008ء سے 2013ء تک پاکستان کے صدر رہے۔ وہ دوبارہ 2024ء میں پانچ سال کے لئے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں پیپلز پارٹی کو ایک حیثیت اور اہمیت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود بی بی مرحومہ کی شہادت پر اسرار ہے جیسا ان کے بھائی میر مرتضی بھٹو کی ہلاکت کا معاملہ ہے۔ بی بی مرحومہ پاکستان کی دوسری وزیر اعظم ہیں جن کے قاتلوں کا سراغ اب تک نہیں مل سکا۔ اس سے قبل پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھی راولپنڈی کے اسی پارک میں 1951ء میں شہید کر دیا گیا تھا جس میں مرحومہ شہید ہوئیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی ابھی تک پر اسرار ہی ہے۔
بی بی مرحومہ کی برسی کے موقع پر ہر سال ایک اجتماع ہوتا ہے جسے ان کے شوہر آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے حاضرین سے خطاب کرتے ہیں۔ بی بی مرحومہ کی برسی کے موقع پر جمع ہونے والے لوگوں کی تعداد کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ ممکن ہے کہ امسال موسم کی سخت شدت لوگوں کی شرکت میں مانع ہو لیکن لوگ بتاتے ہیں کہ تعداد سال بسال کم ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی بر سی تو ہر سال منا لیتی ہے لیکن گزشتہ سالوں میں پارٹی نے کبھی بے نظیر بھٹو کی تعلیمات ، ان کی سیاسی فکر، ان کی جدو جہد کے بارے میں شہروں میں سمینار، سیاسی اجتماع، وغیرہ کر نے کی کوشش نہیں کی ہے۔ حالانکہ پارٹی ملک بھر میں موجود ہے اور خاص طور پر سندھ میں تو جگہ جگہ اس کے کارکن موجود ہیں۔ بی بی کی شہادت کے حوالے ہی ہی پارٹی کارکنوں کی فکری تربیت کر سکتی ہے، ان میں یہ سوچ پیدا کر سکتی ہے کہ پارٹی کو نظم و ضبط اور تنظیمی استبداد میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ پارٹی یہ ذمہ داری ہر ضلع میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کو سونپ سکتی ہے اور ان کی ہی ڈیوٹی لگا سکتی ہے کہ ان کے تمام انتظامات وہ لوگ خود کریں۔ پارٹی کی قیادت کو اپنے کارکنوں کو ہر قسم
کے وقت کے لئے تیار رکھنا چاہئے۔ پارٹی کے کسی بھی جلسے میں اس کے کارکنوں کو تقریر کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا ہی۔ اکثر مواقع پر صوبائی وزراء تک اپنی تقریر کر کے یہ جا وہ جا ہو جاتے ہیں۔ سیاسی جماعت کسی خود رو پودے کا نام نہیں ہوتا ہے، اس پودے کو باقاعدہ پانی دینا پڑتا ہے۔ دھوپ اور چھائوں میں اس کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ پارٹی کے کارکن اس بات پر اعتراض کرتے رہ جاتے ہیں کہ پارٹی ان کی بجائے بڑے زمینداروں کو جنہیں عام طور پر وڈیرہ کہا جاتا ہے، ٹکٹ سے نوازتی ہے ، وڈیرے اپنی دولت ، سرکاری سرپرستی کی بنیاد پر کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ عام شکایت ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد منتخب اراکین ووٹر اور کارکنوں سے ملاقات تک نہیں کرتے ہیں۔ عام حالات کو ٹھیک ہے لیکن سخت حالات بارش، سیلاب، کسی آفت کے موقع پر بھی ووٹروں اور کارکنوں سے ہاتھ ملانے کے لئے اپنی گاڑی بھی کھڑی نہیں کرتے ہیں۔
جاوید سومرو طویل عرصہ تک لندن میں نشریاتی ادارے بی بی سی سے منسلک رہے۔ ان کا بنیادی طور پر تعلق لاڑکانہ سے ہی رہا ہے۔ وہ طویل عرصہ بعد پاکستان آئے اور اپنے آبائی شہر لاڑکانہ بھی ایک ایسی موقع پر گئے جب مرحومہ نے نظیر بھٹو کی برسی منائی جا رہی تھی۔ انہوں نے اپنے تاثرات میں فیس بک پر لکھا ہے کہ ’’ میرا کئی برسوں بعد یہاں آنا ہوا۔ ہزاروں لوگوں نے اس میں شرکت کی لیکن لوگوں نے بتایا کہ اس برس تعداد کم تھی۔ پنجاب اور کے پی سے بھی لوگوں کی تعداد بہت کم آئی تھی۔ ہر برس یہاں آنے والوں نے بتایا کہ لوگوں کا جوش و جذبہ بھی کم دکھائی دیا۔ سرکاری وڈیروں، وزیروں، مشیروں، سینیٹروں، ارکان اسمبلی، سرکاری بابوئوں، فوٹو سیشن کے بعد سوشل میڈیا پر رکھ کر بلاول بھٹو زرداری کو ٹیگ کرنے والوں اور پولیس کی غیر معمولی تعداد نے شرکت کی۔ غریب لوگوں کی حالت جو میں نے بیس برس پہلے دیکھی تھی لگ بھگ آج بھی وہی ہے۔ البتہ امیروں کی حالت بہتر سے بہتر ہوتی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کا کچھ تو فائدہ ہوا۔ بلاول بھٹو زرداری نے تقریر ایسی کی جس سے وہ اور کچھ ادارے ایک ہی پیج پر نظر آئے اور وڈیروں کو یقین ہے کہ بلاول آیا ہی آیا ‘‘۔ لندن سے پاکستان آئے ہوئے صحافی کی رائے کسی تبصرہ کی محتاج نہیں ہے۔
جاوید صاحب کو یہ علم ہے یا نہیں کہ پیپلز پارٹی انتخابات میں ان ہی لوگوں کو ٹکٹ دیتی ہے جو ٹکٹ خریدنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پارٹی کے منتخب شدہ اراکین کے صفوں میں غریب کارکنوں کی تعداد نظر ہی نہیں آتی ہے۔ پارٹی کو بظاہر اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے، اسے شاید یہ یقین ہے کہ پارٹی کم از کم سندھ کی حد تک ہر انتخاب میں کامیاب ہوتی رہے گی اس لئے اسے بظاہر کارکنوں کی تربیت کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ پارٹی نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جو امیدوار ٹکٹ لے گا وہ خود ہی پیسے بانٹ کر منتخب ہو جائے گا۔ ایسا ہی ہو رہا ہے کہ ووٹر کے شناختی کارڈ رکھنے والے لوگ ووٹر کو دوپہر کے وقت ایک تھیلی میں بریانی فراہم کرتے ہیں۔ ووٹر کے ووٹ دینے کے بعد انہیں دو ہزار روپے ادا کر کے ان کا شناختی کارڈ انہیں واپس کر دیا جاتا ہے۔ دولت مند امیدوار اپنے حلقے کے چھوٹے زمینداروں کو یہ ذمہ داری سونپ دیتے ہیں۔ پاکستان میں سیاست اور سیاسی جماعتوں کا حال احوال اتنا ہی بوسیدہ ہے جتنا سن 1970کے انتخابات کے موقع پر تھا۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان نے تو مشرقی پاکستان میں جھاڑو پھیر دی تھی ۔ (162حلقوں میں سے160 میں کامیابی حاصل کی تھی)۔
مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو جھاڑو پوری طرح اس لئے نہیں پھیر سکے تھے کہ ان کی پارٹی نے 120حلقوں میں سے 81حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔ پیپلز پارٹی اپنے آپ کو منظم نہیں کر سکی ہے اور آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان میں انتخابی کامیابی حاصل کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی تنظیموں کو از سر نو منظم کرنا چاہئے ، اپنے کارکنوں کی تربیت کرنی چاہئے اور ہر انتخابات میں ہر حلقہ میں امیدوار تبدیل کرنا چاہئے۔ موجودہ روش میں تبدیلی لانا چاہئے۔ ایک ہی گھرانہ سے امیدوار کی تقرری پر اتفاق نہیں کرنا چاہئے سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی فکر اور سوچ میں لازمی نیا پن لانا ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ڈھنگ سے پارٹی کے اندر انتخابات بھی تو نہیں کراتی ہیں۔ اس حالات میں پارٹی کیوں پھلے پھولے گی۔

جواب دیں

Back to top button