معاشرے میں عدم برداشت کا پھیلتا ہوا مرض

تحریر : ایم فاروق قمر
جدید ٹکنالوجی کی بدولت دنیا گلوبل ولیج کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ اس نے جہاں ہمارے بہت سی سہولتیں پیدا کی ہیں، وہاں اس کی بدولت ہمارے رویوں بھی متاثر ہوئے ہیں اور معاشرے میں عدم برداشت کا مرض بڑھا ہے۔ سوشل میڈیا کے مثبت نتائج سے زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جس کی جو مرضی وہ سوشل میڈیا پر نشر کر دیتا ہے، سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں اور نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عدم برداشت کی وجہ سے انسانوں میں رواداری، صبر و تحمل اور محبت و اخوت کے جذبات ماند پڑ جاتے ہیں۔ عدم برداشت انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی ہر لحاظ سے ہی قابل مذمت اور خطرناک ہے لیکن اجتماعی سطح پر جب کسی معاشرے میں عدم برداشت فروغ پاتی ہے تو اس کے اثرات نہایت مضر ہوتے ہیں۔ یہ معاشرے کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر دیتی ہے۔ انفرادی زندگی میں تحمل اور صبر و ضبط کی ضرورت تو ہے ہی، لیکن اس کی اہمیت اجتماعی جگہوں میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ اگر تحمل اور صبر و ضبط سے کام نہ لیا جائے تو زندگی گزارنا مشکل ہوجائے۔ اپنی شخصیت کو نکھارنے، مسائل سے نجات پانے اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ جذبات کو قابو میں رکھا جائے۔
عدم برداشت ایک ایسی دماغی کیفیت کا نام ہے جس میں کوئی انسان ہر چیز اور ہر واقعہ کو صرف ایک ہی زاویہ سے دیکھتا ہو اور اختلاف رائے کو بالکل برداشت نہ کرتا ہو۔ بالفاظِ دیگر، اختلاف کو برداشت نہ کرنے اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے معاشرہ ایک جہنم بن جاتا ہے۔ اگرچہ تاریخ انسانی کے آغاز سے ہی عدم برداشت کا آغاز ہوگیا تھا، جب اللہ کے پہلے نبی حضرت آدمٌ کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا۔ بعد ازاں ہر نبیٌ کے دور میں بھی مذہبی و نظریاتی اختلافات تشدد کا باعث بنے۔ کبھی خدا کے رسولوں کی توہین ہوئی تو کبھی ان کے پیروکاروں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ حتیٰ کہ لوگوں نے اس بناء پر سید المرسلین، وجہ تخلیق کائنات، خاتم النبیین محمد مصطفیٰ ؐکو بھی اس حد تک اذیتیں پہنچائیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’ اتنا کسی نبیٌ کو نہیں ستایا گیا جتنا مجھے ستایا گیا‘‘۔
انسان ہر دور میں عدم برداشت کا شکار رہا ہے ۔ یہ معاشرتی ناسور بن چکا ہے، جو معاشرے کی اخلاقی اقدار اور امن و سکون کو غارت کر دیتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں معمولی اختلاف پر قتل تک کر دیا جاتا ہے، عورت کو معمولی سی بات پر عدم برداشت ہو کر طلاق دے دی جاری ہے ، دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح ہماری ملکی سیاست میں بھی عدم تشدد کا رجحان بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ سیاسی کشمکش میں حالات اس موڑ پر آ جاتے ہیں کہ سیاسی قائدین سے لے کر کارکنوں تک ( سوائے چند ایک کے) سب کے سب نفرت، دشمنی، الزام تراشی، بہتان بازی، گالم گلوچ، ہتک عزت پر اتر آئے ہیں۔ عدم برداشت کے ماحول نے علاقائی بلکہ گھریلو نظام زندگی کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ ہمارا موجودہ معاشرہ بھی ایک طرح سے دور جاہلیت کی تصویر کشی کر رہاہے۔ لوگوں کے رویوں میں صبر و تحمل اور برداشت نام کو نہیں۔ آئے روز ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ کلیجہ چھلنی ہوجاتا ہے اور ذہن میں رہ رہ کر یہ خیال ابھرتا ہے کہ
کبھی افلاک سے نالوں کے جواب آتے تھے
ان دنوں عالم افلاک سے خوف آتا ہے
ہم تو ایسے نبیؐ کی امت ہیں جنہوں نے طائف کی گلیوں میں سنگریزوں سے لہولہان ہو کر بھی بد دعا کے لیے دست دراز نہ کیے۔ ہم تو ان کے امتی ہیں جنہوں نے اپنے جان سے عزیز چچا جان کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کو بھی معاف کر دیا، جنہوں نے غالب ہوکر بھی دشمن کو امان دی۔ ہم تو ان کے پیروکار ہیں جنہوں نے گردن پر رکھی تلوار فقط اس لیے اٹھالی کہ مبادا یہ قتل میرے غصے کے سبب نہ ہوجائے۔ ہم تو اس ریاست کے شہری ہیں جس کی بنیاد اسلام اور دستور قرآن ہے۔ اس کے باوجود بھی یہ مرض ہم میں پروان چڑ رہا ہے۔
عدم برداشت کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا درماں کیا جائے اور کسی بھی امتیاز کے بغیر ہر فرد کے لیے معاشی اور سماجی مواقع کی دست یابی کو یقینی بنایا جائے۔
برداشت کے فروغ کے لیے ذہن کو کھلا رکھنا، ایک دوسرے کو سننا اور ہم آہنگی جیسے اوصاف کو ہر سطح پر پروان چڑھانا ضروری ہے۔ صبر و تحمل اور برد باری و برداشت کا مظاہرہ کریں۔ ہم اپنے رویے میں مناسب تبدیلی لاکر عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔





