ٹیکس نظام میں اصلاحات کی ضرورت

ضیاء الحق سرحدی
وطن عزیز کی معیشت برسہا برس سے ہچکولے کھا رہی ہے، اسے استحکام نصیب نہیں ہو سکا ہے، اسے بہتری کی جانب گامزن کرنے کے ماضی سے لے کر اب تک کئے گئے تمام تر حکومتی اقدامات سعی لاحاصل ہی ثابت ہوئے ہیں۔ ملک و قوم پر قرضوں کا بار ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، اس میں ذرّہ برابر بھی کمی واقع نہیں ہو رہی ہے۔ ہر چیز کی قیمتیں کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ گیس مہنگی، بجلی مہنگی، پٹرول مہنگا۔ اشیائے خورونوش و ضروریہ مہنگی۔ مہنگائی کا جن قابو سے باہر۔ دکاندار من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔ انتظامیہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ جبکہ دوسری طرف حکومت کے دعوے ہیں کہ مہنگائی کم ہو چکی ہے۔
گزشتہ ادوار میں اقتدار میں رہنے والی ہر حکومت ملک کو معاشی ترقی سے ہمکنار کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرتی رہی لیکن معاشی ترقی کی بجائے ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھایا جاتا رہا، یہی وجہ ہے کہ آج ملک کا بچہ بچہ قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ موجودہ حکومت جب اقتدار میں آئی تو اسے دیگر کئی مسائل کے علاوہ معاشی بحران بھی ورثے میں ملا جس سے نکلنے کی حکومت نے دوست ممالک سے مالی تعاون حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ سعودی عرب اور امارات سمیت کئی دوست ممالک کی طرف سے مدد بھی کی گئی، لیکن پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہو رہا تھا۔ حکومت کو مجبوراً آئی ایم ایف کی طرف جانا پڑا اور آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کیا گیا کہ معاشی مسائل سے نکلا جا سکی۔ دوسری طرف معاشی بحران کے سبب پاکستانی روپے کی قدر کم اور ڈالر کا ریٹ بڑھا اس طرح جو اشیاء بیرون ملک سے درآمد کی جاتی تھیں ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس کے باعث مہنگائی بڑھی۔ حکومت کو چاہیے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے اقدامات کرے اور مہنگائی کے خاتمے کے اعلان کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب نے آئندہ تین برس میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10.3فیصد سے بڑھا کر 13.5فی صد تک لے جانے کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان کے ناقابل برداشت قرضے ٹیکس وصولی کی کم ترین شرح پر اقتصادی ماہرین ہی نہیں بلکہ عالمی مالیاتی ادارے بھی بھر پور تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں جی ڈی پی میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی شرح بمشکل 10فیصد ہے جو خطے میں دیگر ممالک کی نسبت سب سے کم ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاق کے پاس صرف 46فیصد آمدنی بچتی ہے جبکہ 54فیصد آمدنی صوبوں کو منتقل کر دی جاتی ہے جو دفاعی بجٹ، قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کے لئے ناکافی ہے جس کے لئے حکومت کو مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ ملک کے مالی استحکام کے لئے ٹیکسوں میں اضافہ ناگزیر ہے لیکن ٹیکس وصولی میں اضافے کے لئے کئے گئے اب تک کے اقدامات سے صرف عام آدمی پر بوجھ پڑا ہے اور ان کے لئے جسم و جان کا رشتہ بحال رکھنا مشکل تر ہو گیا ہے۔ یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ملک میں بیشتر اہم معاشی و مالیاتی پالیسیاں طاقت ور طبقوں کے مفاد میں یا ان کے دبائو پر بنائی جاتی ہیں خواہ اس کے لئے قانون سازی کرنی پڑے یا قانون کو توڑنا پڑے۔ ان نقصانات کو پورا کرنے کے لئے عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے ترقیاتی اخراجات و انسانی وسائل کی ترقی کے لئے کم رقوم مختص کی جاتی ہیں اور ملکی و بیرونی قرضوں پر بے تحاشا انحصار کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں طاقت ور طبقوں بشمول ٹیکس چوری کرنے والوں، قومی دولت لوٹنے والوں، بینکوں سے اپنے قرضے غلط طریقوں سے معاف کرانے والوں، پاکستان سے لوٹ کر یا ناجائز طریقوں سے حاصل کی ہوئی رقوم سے ملک کے اندر اثاثے بنانے یا ملک سے باہر اثاثے منتقل کرنے والوں کے مفادات کا تحفظ حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے۔ آج بھی ایک روپیہ قومی خزانے میں جمع کرائے بغیر نا جائز دولت کو قانونی تحفظ دینا ممکن ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف خلوص نیت سے چاہتے ہیں کہ مہنگائی سے براہ راست متاثر ہونے والے طبقات کو ریلیف دیا جائے جبکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) بھی حکومت پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ وہ غریبوں کا خیال کرے اور امیروں پر مزید ٹیکس لگائے۔ پاکستان میں ایک مزدور سے لے کر پیدا ہونے والے بچے تک ان ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں حکومت کو جو ادائیگیاں کرتا ہے دنیا کی کسی بھی ملک میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ انتہائی دکھ اور تکلیف کی بات ہے کہ حکومت کو جب اپنا ریونیو بڑھانے کا کوئی اور راستہ نہیں ملتا تو جو لوگ پہلے سے ٹیکس ادا کر رہے ہوتے ہیں ان پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈال دیا جاتا ہے گزشتہ77سال سے یہی مشق دہرائی جارہی ہے۔ معیشت کی حقیقی معنوں میں بحالی سابق حکومتوں کی ترجیح تھی اور نہ ہی موجودہ حکومت اس ضمن میں سنجیدہ ہے۔ عام آدمی پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے کے ساتھ حکومت کی جانب سے اپنے اخراجات کم کرنے کا کوئی منصوبہ یا عزم نظر نہیں آتا۔ ٹیکس وصولی میں اضافے کے لئے ٹیکسوں کی شرح بڑھاتے جانے کے بجائے ٹیکس نادہندگان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اپنی ٹیکس پالیسی اور ٹیکس نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ موجودہ ٹیکس نظام میں موجودہ قوانین امراء اور طاقتور طبقے کو فائدہ پہنچاتے ہیں جبکہ ملک میں بلیک اکانومی کے پھیلائو کا ذمہ دار بھی طاقت ور طبقہ اور امرائ ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت غریب کی سانسیں بند کرنے کی پالیسیوں کو اختیار کرنے کے بجائے امراء اور طاقت ور طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لائے اور انہیں دی جانے والی مراعات اور سہولیات کو ختم کر کے یہ رقم غریب عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے۔





