Column

حافظ عبدالرحمان مکی بھی رخصت ہوئے ۔۔۔

کالم نگار :خنیس الرحمان
ٓٓٓٓاللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورت النحل کی آیت نمبر32 میں فرماتے ہیں جن کی روح فرشتے قبض کرتے ہیں ایسے حال میں کہ وہ پاک ہیں، فرشتے کہیں گے تم پر سلامتی ہو جنت میں داخل ہوجائو بسبب ان کاموں کے جو تم کرتے تھے۔ اللہ رب العزت اپنے نیک لوگوں کا خاتمہ خیر پر کرتا ہے۔ اسی کی مثال حال ہی میں پروفیسر حافظ عبدالرحمان مکی کی ہے جو جمعہ کے روز اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔ کیا قابل رشک رخصتی ہے۔ اپنے قریبی ساتھیوں سے معافی مانگ رہے ہیں اور ساتھ میں کلمہ پڑھ کر کہہ رہے ہیں کہ گواہ رہنا، لینے والے آگئے ہیں اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ جمعہ کا دن بھی ہے، سنن ترمذی کی حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو مرتا ہے، اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے‘‘۔
حافظ عبدالرحمان مکی نے بہاولپور میں 1954ء میں ایسے گھر میں آنکھ کھولی جہاں انہوں نے علم و ادب اور تحریکی ذہن رکھنے والی شخصیت حافظ عبداللہ بہاولپوری کو بطور والد پایا۔ حافظ عبداللہ بہاولپوری آل انڈیا مسلم لیگ کے نوجوان رہنمائوں میں شامل تھے۔ اہلحدیث علماء میں اپنی ایک خاص فکر اور نقطہ نظر کی بناء پر مقبول حیثیت رکھتے تھے۔ گھر میں ہی تحریکی، فکری و علمی ماحول کی تربیت کا اثر والد سے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کیا اور ایم اے کے لیے پنجاب یونیورسٹی چلے گئے۔ پنجاب یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تحریکی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا۔1974 ء میں تحریک نظام مصطفیٰ کا حصہ بنے۔ اس دوران انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی سہنا پڑیں۔ مورخ اہلحدیث اسحاق بھٹی اپنی کتاب کارواں سلف میں حافظ عبداللہ بہاولپوری کے تذکرے میں اس بات کو ذکر کرتے ہیں کہ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جب تحریک شروع ہوئی تھی اس وقت جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں حافظ عبدالرحمن مکی بھی شامل تھے جنہیں بم کیس کی لپیٹ میں لیا گیا تھا اور لاہور کے شاہی قلعے میں شدید اذیتوں میں مبتلا کیا گیا تھا۔ قلعے میں ان پر بے حد مظالم ڈھائے گئے اور سخت مار پیٹ کی گئی حتی کہ ان کے ناخن اکھاڑ دئیے گئے تھے اور لرزہ خیز سزائیں دی گئیں تھیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کو ایسے علماء کی اور محقق افراد کی ضرورت تھی جو لوگ قانون اور شریعہ کے ماہر ہوں۔ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ایسے افراد کی تلاش جاری ہوگئی ان میں حافظ عبدالرحمان مکی کا نام بھی شامل کردیا گیا ۔ان کے والد حافظ عبداللہ نہیں چاہتے تھے وہ ان سے دور ہوں اس لیے انہوں نے انہیں منع کردیا ۔ان کے ساتھیوں نے اصرار کیا دوسری طرف ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ ان کا خط و کتابت کے ذریعے رابطہ رہتا تھا انہوں نے بھی اصرار کیا کہ وہ حافظ عبداللہ اور ان کے بیٹے سے محبت کرتے ہیں وہ لازماً انہیں بھیجیں اس طرح حافظ عبداللہ بہاولپوری آمادہ ہوگئے۔ حافظ عبدالرحمان سعودی عرب چلے گئے۔ وہاں انہیں ام القرٰی یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ جہاں انہوں نے علوم الحدیث میں خصوصی ڈگری حاصل کی۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب النکت البدیعات پر تحقیقی مقالہ پر انہوں نے کام کیا۔ اس کے بعد وہیں نجی مصروفیات میں مشغول ہوگئے ۔1994ء میں حافظ محمد سعید جو کہ ان کے ماموں زاد بھی ہیں اور ان کے بہنوئی بھی ،ان کی دعوت پر پاکستان آ گئے اور دعوتی و تحریکی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔ تحریک آزادی کشمیر جو نوے کی دہائی میں عروج پر تھی انہوں نے اس حوالے اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اوائل میں بہاولپور میں اپنے والد گرامی حافظ عبداللہ بہاولپوری کی مسند پر جمعہ کی خطابت کرتے رہے بعد ازاں اسلام آباد کے لوگوں کے اصرار پر آئی ایٹ میں وفات تک خطبہ جمعہ دیتے رہے ۔
حافظ عبدالرحمان مکی پاکستان میں ہر اس تحریک کا حصہ بنے جو اسلام اور پاکستان مخالف عناصر کے خلاف کھڑی ہوئی۔ گستاخانہ خاکے بنے تو تحریک حرمت رسول ؐ بنی، اس کے سٹیجوں کی زینت بنے اور اپنے گرجدار انداز خطابت سے گستاخانِ رسول کو للکارا۔ فلسطین کا معاملہ بنا تو تحریک قبلہ تحفظ اول کے فورم سے مظالم فلسطینیوں کے لیے اسرائیل کے خلاف آواز اٹھاتے رہے۔ بھارت نے پانی چھوڑ کر آبی دہشتگردی کی تو واٹر موومنٹ کی قیادت کی۔ پاکستان میں دہشتگردی اور نیٹو فورسز کو جب راستے دینے کی بازگشت سنائی دی گئی تو دفاع پاکستان کونسل کے فورم سے سرگرم رہے۔ عربی اور انگریزی زبان پر بھی عبور تھا زیادہ تر حافظ عبدالرحمان مکی عربی زبان میں اپنا پیغام پیش کرتے۔ اسی دوران فتنہ تکفیر بھی عروج پکڑنے لگا پاکستان میں جگہ جگہ اسلام کے نام پر دہشتگرد کارروائیوں کے واقعات سامنے آنے لگے تو انہوں نے اس فتنہ خوارج اور رد تکفیر پر لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کیا۔ جب حوثی باغیوں نے سعودی عرب پر حملہ کیا تو تحریک تحفظ حرمین شریفین کے پلیٹ فارم سے انہوں نے آواز بلند کی۔ نوجوانوں سے محبت کرتے تھے۔ یونیورسٹیز اور کالجز میں جاکر انہیں نظریہ پاکستان کے لیے کھڑے ہونے کی دعوت دیتے تھے ان کو اس بات پر قائل کرتے کہ نوجوانوں کا مقصد بڑا ہے وہ اپنے اسلاف کے مشن کو آگے بڑھائیں ۔ ان کے انداز تکلم اور جوش خطابت نے ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنایا ہوا تھا ۔لفظوں کی بناوٹ اور ترتیب ان کی تقریر کو چار چاند لگا دیتی تھے ۔
حافظ عبدالرحمان مکی کسی ایک خاص جماعت یا مسلک کے نہیں سب کے تھے۔ ان کے ساتھ بہت سی یادیں جڑی ہیں۔ ان کی اقتداء میں اسلام آباد میں کئی خطبات پڑھنے کا موقع ملا ۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی محبتوں سے نوازتے ۔گزشتہ سال جب مجھے پتے کی تکلیف ہوئی تو ڈاکٹروں نے سرجری کا کہا انہیں معلوم ہوا تو کال پر رابطہ کرکے حوصلہ دیا اور دعائیں دیں ۔
آج وہ دنیا سے چلے گئے ہر شخص جو ان سے ایک دو بار بھی ملا ان کی شخصیت پر بات کر رہا ہے۔ جنازے پر ان کے داماد حافظ عبدالرئوف کہہ رہے تھے کہ کہتے تھے میں نے توحید کی ملک کے ہر کونے میں دعوت دی میں نے کوئی جگہ چھوڑی نہیں جہاں میں نہیں گیا۔ ان کی نماز جنازہ مریدکے جی ٹی روڈ کے قریب ننگل ساہداں میں ان کے بھانجے حافظ طلحہ سعید نے پڑھائی۔ ان کی نماز جنازے میں اتنی بڑی تعداد تھی گورنمنٹ ایجوکیشنل کمپلیکس ننگل ساہداں کا وسیع و عریض گرائونڈ تنگی داماں کا شکار تھا۔ ان کی وفات پر جہاں پاکستانی قیادت، مذہبی و سیاسی رہنمائوں نے افسوس کا اظہار کیا وہیں کشمیری حریت قیادت نے بھی افسوس کا اظہار کیا۔ پیر سید ہارون گیلانی چیئرمین ہدیٰ الہادی تو کہہ رہے تھے قاضی حسین احمد مرحوم کی وفات پر ہم یتیم ہوئے تھے لیکن عبدالرحمان مکی صاحب کی وفات نے ہماری کمر توڑ دی ہے۔
حافظ عبدالرحمان مکی کی قابل رشک رخصتی اور ان کو الوداع کرنے والے ہزاروں چاہنے والوں کا آنا اس بات کی دلیل ہے رب کریم کے ہاں وہ جنتوں میں اعلیٰ علیین کے ساتھ ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کی مٹی کو سیراب کرے، آمین۔

جواب دیں

Back to top button