لڑائی لڑائی معاف کرو

صفدر علی حیدری
محسن نقوی کی ایک غزل کے چند اشعار دیکھیے:
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا
سوچ رہا ہوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ہوا
صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں
مفت میں ہم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ہوا
میرے حال پہ حیرت کیسی درد کے تنہا موسم میں
پتھر بھی رو پڑتے ہیں انسان تو پھر انسان ہوا
یوں بھی کم آمیز تھا محسن وہ اس شہر کے لوگوں میں
لیکن میرے سامنے آ کر اور بھی کچھ انجان ہوا
مطلع میں کہا گیا ہے کہ
سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا اور یقینا ہوا بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ نقصان دونوں طرف ہوا ہے۔ ایک پارٹی کو توڑنے میں اپنے ہاتھ بھی زخمی ہوئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نقصان نہیں ہوا تو یہ تو طے ہے کہ عوام کا نقصان ضرور ہوا ہے۔ دو بھینسوں کی لڑائی میں نقصان گھاس کا ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں تو ویسے بھی عوام کو خس و خاشاک سمجھا گیا ہے۔ ہمارے لیڈر ماضی میں بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہم گھاس کھا لیں مگر ایٹمی دھماکے ضرور کریں۔ پھر عوام کو سچ میں گھاس کھانا پڑی۔ چھوٹے غلطی کریں تو بڑے انھیں سمجھاتے ہیں۔ اگر غلطی بڑوں سے ہو تو انھیں کون سمجھائے۔ اختلافات صرف قبرستان میں نہیں ہوتے۔ باقی ہر جگہ امکانات موجود رہتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں تو ہر سطح پر اس کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
ہمیں یاد ہے جب ہم بچے تھے اور آپس میں کوئی لڑائی ہو جاتی تھی تو بڑے یہ کہہ کر صلح کرا دیا کرتے تھے
’’ لڑائی لڑائی معاف کرو ، اللہ کا گھر صاف کرو ‘‘۔
ہم سمجھتے تھے ہمیں مسجد میں جا کر جھاڑو لگانا پڑے گا۔ وہ تو بڑے ہوئے تو پتہ لگا کہ یہاں اللہ کے گھر سے مراد انسان کا دل ہے۔ اس میں رب بستا ہے، سو اس کا صاف رکھنا ضروری ہے۔
آج کچھ بڑوں کی لڑائی دیکھ کر چھوٹوں کا دل کہہ رہا ہے کہ وہ کہیں’’ لڑائی لڑائی معاف کرو، اللہ کا گھر صاف کرو ‘‘۔
ایک طرف مذاکرات کی بات ہو رہی ہے۔ پہلا اجلاس بھی ہو چکا ہے اور دوسری جانب مذاکرات نہ کرنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ لفظی گولہ باری بھی برابر جاری ہے۔ ان حالات میں مذاکرات کو’’ مذاق رات ‘‘ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے ۔
اب نئے فرمودات ذرا پڑھ لیجیے: ’’ انصاف کا سلسلہ اس وقت تک چلے گا جب تک9 مئی کے منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک میں سیاسی انتشاریوں کو کوئی گنجائش نہیں دی جاتی۔2021ء میں دہشت گردوں کی ٹوٹ چکی تھی انہیں بات کے نام پر کس نے دوبارہ آباد کیا ؟‘‘۔
گویا آج جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس کی وجہ ایک ایسا شخص ہے جو اپنی غلطیوں سے سیکھنے والا نہیں تھا۔
شیخ وقاص اکرم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ پہلے سے طے شدہ تاثرات اور تصورات کی روشنی میں فیصلے سنانے سے انصاف قائم ہوسکتا ہے نہ اسے بطور انصاف کوئی قبولیت میسر آسکتی ہے، جزا و سزا کے فیصلے آئین کے تحت عدالتی نظام کے ذمے ہیں، دفاعی اداروں کے عدالتیں لگانے سے انصاف اور ریاست کے دستوری نظام پر نہایت مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے نہیں، آزاد آئینی عدالتوں کے فیصلے ہی دنیا میں قبولیت کا درجہ پاتے ہیں ‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے فیصلہ غیر مقبول ہوتے ہیں۔ یکطرفہ ہوتے ہیں اور انھیں کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ملک کے ساتھ بہت کھلواڑ ہو چکا۔ ایک ٹی وی کمرشل میں بچے کہہ رہے ہیں ’’ اب بس کر دو بس‘‘۔
مولا علیؓ کا فرمان پڑھ کر سمجھ لیجئے:’’ میں نے اپنے رب کو پہچانا اپنے ارادوں کی شکست سے، نیتوں کے بدل جانے اور ہمتوں کے پست ہو جانے سے‘‘۔
کسی بھی سیاسی جماعت کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ قومی املاک پر چڑھ دوڑے۔ ان پر حملہ آور ہو۔ یہ کھلی ہوئی لاقانونیت ہے۔ بالکل اسی طرح کی لاقانونیت جیسے احتجاج کرتے نہتے عوام پر گولیاں چلانا۔ جیسے ایک ریاستی ادارے کا سیاست کرنا، کسی چلتی ہوئی حکومت کو گرانے کی سازش کرنا، الیکشن کے نتاءج بدل دینا۔ کسی نے کہا یہاں سب چلتا ہے۔ اور جہاں سب چلتا ہے وہ ملک نہیں چلتا۔ اور ہم بچشم خود دیکھ رہے ہیں یہاں کیا ہو رہا ہے۔ افغانستان آنکھیں دکھا رہا ہے۔ خوارج آئے روز حملے کرتے دکھائی پڑتے ہیں۔ کرم ایجنسی کی صورتحال مخدوش ہے۔ پارہ چنار میں بچے مر رہے ہیں، مگر افسوس ہمارے ذہنوں میں نو مئی پھنسا ہوا ہے۔ جیسے اس دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ نو مئی ہو۔ کہ جب تک اس کے مجرم کیفر کردار تک نہ پہنچے ، مملکت کا نظام بہتر نہ ہو گا۔ یقیناً مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ آئیں اس کی شروعات ایک ایسے کردار سے کرتے ہیں جو سچ میں سپر مین ہے۔ اس ایک آدمی نے سازش کی اور ملک کو توڑنے کے درپے ہوا۔ وہ بلوچستان کو پاکستان سے توڑنا چاہتا تھا۔ اس کو پکڑ کر خوب داد حاصل کی گئی۔ شاباشی سمیٹی گئی۔ اس پر مقدمہ چلا۔ اس کو مجرم قرار دیا گیا۔ سزا سنائی گئی اور بس بات ختم۔ اب بسم اللہ کیجئے ناں، دیجئے سزا اس بڑے مجرم کو۔ جو حاضر سروس فوجی ہے۔ اس کے ثبوت دوست ملکوں کو دکھائیے۔ بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لائیے۔ اس کے بعد ایک بیمار سیاستدان کو جیل میں بند کر کے سزا کی مدت پوری کیجئے۔ کیا ہوا جو اس کی پارٹی حکومت میں ہے تو۔ انصاف تو انصاف ہوتا ہے۔ اور اگر ’’ ان ‘‘ صاف ہو تو دکھائی بھی دیتا ہے۔ پھر ایک خاتون کو جیل میں بند کیجئے۔ اگر وہ ایک صوبے کی وزیر اعلیٰ ہے تو کیا ہوا۔ انصاف تو انصاف ہوتا ہے۔ اس کی ایک آنکھ ہوتی ہے اور وہ سب کو اسی ایک آنکھ سے دیکھتا ہے۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو آنکھیں کھولئے، حقیقت سے نظریں مت چرائیے اور ملک کو انتشار سے بچانے میں اپنا کردار ادا کیجئے۔
بڑے اس لیے بڑے نہیں ہوتے کہ ان کی عمر، ان کا عہدہ، ان کی طاقت، ان کا رتبہ بڑا ہوتا ہے۔ وہ بڑے اس لیے بڑے ہوتے ہیں کہ ان کا دل بڑا ہوتا ہے۔ دماغ وسیع ہوتا ہے اور سوچ بھی بڑی ہوتی ہے۔
بڑوں کی جب تک ایک لڑائی ختم ہوتی ہے تب تک چھوٹوں کی درجنوں ختم ہو چکی ہوتی ہیں اور وہ ایک اور لڑائی کی تیاری کر چکے ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان کی انا ان کے قد سے چھوٹی ہوتی ہے۔ آپ بھی اپنا قد کاٹھ دکھانا چاہتے ہیں تو دل بڑا کیجئے۔ دوسروں کی بجائے اپنی غلطیوں کو دیکھیے اور سیکھیے۔ سیاست میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنائیے۔ اب جب آپ ایک قدم اٹھائیں گے تو باقی سب دو دو قدم اٹھانے کو تیار ہوں گے بلکہ اٹھا چکے ہوں گے۔ پہلا قدم اٹھائیے۔ درست سمت میں پہلا قدم۔
نو مئی کو بھلانا ایک ’’ گڈ ول جیسچر ‘‘ ہو گا۔
سو لڑائی لڑائی معاف کرو۔۔۔ اللہ کا گھر صاف کرو
صفدر علی حیدری







