بلیوں اور کتوں کے بعد شیر بھی پالتو کیوں؟

روشن لعل
بلیاں اور کتے، بنیادی طور جنگلی مخلوق ہیں مگر ہزاروں سال سے انسانوں کے ساتھ پالتو جانوروں کے طور پر بھی رہ رہے ہیں۔ کسی بھی جانور کا جنگل سے تعلق جوڑتے ہوئے اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ تمام جانوروں کی طرح حضرت انسان کا اپنا بنیادی تعلق بھی جنگل سے ہی ہے۔ اگرچہ انسان نے بہت پہلے جنگلی زندگی کو خیر آباد کہہ دیاتھا مگر اس کے پالتو بنائے گئے تمام جانوروں کی رشتہ دار نسلیں اب بھی جنگلوں میں اپنی جبلتوں کے مطابق زندگی گزار ہی ہیں۔ اکثر محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسانوں نے جانوروں میں سب سے پہلے کتے کو پالتو بنایا۔ کتے کو پالتو بنائے جانے سے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایسا تیرہ ہزار سے تیس ہزار برس قبل کسی دور میں ہوا ہوگا۔ انسانوں نے جب جنگلی زندگی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا شروع کیا تو بار برداری اور اپنی غذائی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کچھ مویشیوں اور پرندوں کو بھی پالتو جانوروں کے طور پر اپنا ساتھی بنالیا۔ زمانہ قدیم میں انسانوں نے جانوروں کی جن نسلوں کو پالتو بنایا ان میں ایک نمایاں نام بلی کا بھی ہے۔ کہا جاتا ہے بلیوں کو پالتو بنانے کا آغاز کوئی آٹھ ہزار سال قبل ہوا۔ آج کے دور میں اگر پالتو جانوروں کی فہرست تیار کی جائے تو اس میں شیر اور چیتے جیسے خونخوار درندوں اور اژدہا جیسے سانپوں کا نام بھی شامل کرنا پڑے گا۔ اس قسم کے پالتو جانوروں کے متعلق کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کا کردار انسانوں کے لیے کسی طرح کارآمد ثابت ہو سکتا ہے مگر زمانہ قدیم میں انسانوں نے جن جانوروں کو پالتو بنایا، ان کے متعلق یہ بات بلا جھجھک کہی جاسکتی ہے کہ ان کے رویے اور کردار کے کسی کارآمد پہلو نے انسانوں کو انہیں اپنا ساتھی بنانے کی طرف راغب کیا۔ یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کتے کی وفاداری اور مویشیوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے جیسی صلاحیتوں کی وجہ سے انسانوں نے ان کو اپنا پالتو بنالیا مگر بلی میں آخر ایسی کونسی خصوصیت تھی کہ انسان اسے پالتو بنا کر زمانہ قدیم میں ہی اپنے گھر لے آیا۔ بلی کو کتے اور مویشیوں کے بعد پالتو بنایا گیا تھا۔ بلی کے پالتو بننے میں انسانوں کے زرعی افعال نے اہم کردار ادا کیا۔ اپنی غذائی ضرورتوں کے تحت جن جنگلی پودوں کو زرعی عمل کے ذریعے ایک جگہ وسیع رقبے پر کاشت کر کے کثیر پیداوار حاصل کی گئی ان جنگلی پودوں کے بیج چوہوں کی بھی خوراک تھے۔ جنگل میں جگہ جگہ بکھرے پودوں سے خوراک حاصل کرنے والے چوہوں کو جب انسانوں کے زرعی
عمل کی وجہ سے ایک جگہ پر اپنی خوراک کے انبار دستیاب ہوئے تو انہوں نے زرعی پیداوار دینے والے کھیتوں کے ارد گرد آباد ہونا شروع کر دیا۔ یہی چوہے کیونکہ بلیوں کی غذا اور آسان شکار ہوتے ہیں اس لیے بلیوں نے بھی اپنی خوراک کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کھیتوں کے ارد گرد بسیرا کرنا شروع کر دیا۔ چوہوں کے ہاتھوں اپنی زرعی پیداوار کے نقصان پر بے بس نظر آنے والے انسانوں کے لیے بلیاں راحت کا سامان ثابت ہوئیں۔ چوہوں نے جب انسانوں کی گھروں میں رکھی خوراک پر بھی ہاتھ صاف کرنا شروع کیے تو ان کے تدارک کے لیے وہ بلیوں کو اپنے گھر لے آیا۔ انسان جس گھر میں بلی کو لے کر آیا وہاں ایک مختلف اور زیادہ کارآمد کردار کے ساتھ کتا پہلے سے موجود تھا۔ کتے کے اس کردار کی موجودگی میں بلی کا انسانوں کے سامنے خود کو اہم بنانا آسان کام نہیں تھا مگر بلی نے اپنے خاص اوصاف سے انسان کو اس حد تک لبھایا کہ اس کی رسائی گھروں کے اندر وہاں تک ہو گئی جہاں جانا کتوں کے لیے ممنوع ہوتا ہے۔
بلی اور کتے کا نسلی تضاد قدرتی ہے۔ یہ تضاد اس حد تک گہرا اور نمایاں ہے کہ سائنسدانوں نے مختلف جنگلی جانوروں کو ان کے رویوں کے فرق اور یکسانیت کی بنا پر کتے اور بلی کے خاندانوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اس تقسیم کا اثر شاید انسانوں پر بھی ہوا ہے۔ آج جب جانوروں کو ان کے روایتی کردار کی ضرورت کے تحت نہیں بلکہ فیشن کے طور پر گھر میں پالتو بنا کر رکھا جارہا ہے تو کتے اور بلی کی مختلف فیملی میں تقسیم کی طرح انہیں اپنی اپنی پسند کی بنا پر پالتو بنانے والے انسانوں میں بھی تفریق نظر آرہی ہے۔ یہاں بہت کم ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کتوں اور بلیوں کو ایک ساتھ پالتو بنا کر رکھاہوا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں نے کتوں کو پالتو بنا یا وہ نہ صرف ان کے کردار اور رویوں کی تعریف کرتے ہیں بلکہ بلیوں میں نقص بھی نکالتے رہتے ہیں۔ یہی حال کتوں کے مقابلے میں بلیوں کو پسند کرنے والوں کا بھی ہے۔ عام طور پر
کتوں اور بلیوں کی افادیت اور کردار کو ان کی وفاداری کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پالتو بلیاں اپنے مالکوں کی محبت کا جواب محبت سے ہی دیتی ہیں مگر سخت رویے کے جواب میں ان سے فرمانبرداری کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ بلیوں کے ایسے رویوں کے برعکس کتے نہ صرف تھوڑے سے پیار اور پچکار کے جواب میں اپنے مالک پر کئی گنا زیادہ چاہت نچھاور کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ دھتکار کے جواب میں بھی قدموں میں بچھے چلے جاتے ہیں۔ بلی کی تو اتنی اوقات ہی نہیں کہ وہ اپنے مالک کو نقصان پہنچانے والوں کے سامنے کھڑی ہو مگر کتا نہ صرف اپنے مالک کے سامنے ڈھال بن جاتا ہے بلکہ اس کے لیے اپنی جان تک قربان کر سکتا ہے۔
شیر کی خونخوار اور حیوانی جبلت کی وجہ سے اس کی افادیت اور کردار کسی طرح بھی وفاداری میں کتے اور بلی کا متبادل ثابت نہیں ہو سکتا لیکن لوگوں کے خود کو دبنگ ثابت کرنے کے شوق کی وجہ سے پاکستان میں شیروں کو پالتو بنانے کا رجحان ان دنوں کافی فروغ پا چکاہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس شوق کے فروغ پانے کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ کچھ امیر پاکستانی اپنی دولت کی نمائش کے لیے بیرون ملک سے نایاب نسل کے شیر درآمد کر کے پالتے ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں شیروں کو پالنے سے متعلق یا تو سری سے کوئی قانون ہی موجود نہیں اور اگر قانون ہے بھی تو اتنا کمزور اور نامکمل کہ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شیروں جیسے خونخوار جانوروں کو پالتو بنانے سے متعلق واضح قانون موجود نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ دنوں لاہور کی ایک پرائیویٹ کالونی میں کسی کا پالتو شیر سڑکوں پر نکل آیا۔ شیر کو کھلی آبادی میں دیکھ کر جب بچے اور دیگر لوگ خوفزدہ ہوکر ادھر ادھر بھاگنے لگے تو ایک سکیورٹی گارڈ نے اپنی گن سے فائرنگ کر کے اسے ہلاک کر دیا۔ جنگلی حیات کے تحفظ کی عالمی تنظیموں کی واضح ہدایات کے مطابق شیر کیونکہ خونخوار حیوانی جبلت کے حامل جنگلی جانور ہیں لہذا انہیں پالتو بنانا یا ان کے ساتھ انسانی تعامل زخموں یا ہلاکتوں کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔ ایسا ہونے کے امکانات کے باوجود یہاں لوگ اپنی امارت کی نمائش کے لیے شیروں کو پالنے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی کھلے عام نمائش کر رہے ہیں جبکہ حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔





