Column

وزیر تعلیم کی 2024ء میں کارکردگی

محمد نور الھدیٰ
سال ختم ہوتا ہے تو ہر فرد اور ادارہ پلٹ کر دیکھتا ہے کہ اس نے گزشتہ سال کیا ایسا کیا کہ جسے فخر سے پیش کیا جا سکے۔ اپنی کوتاہیوں پر بھی نظر دوڑاتا ہے اور نئے سال کیلئے عزائم بھی کئے جاتے ہیں۔ پنجاب کے نوجوان وزیر تعلیم رانا سکندر حیات کی قیادت میں محکمہ تعلیم کی 2024ء میں کیا کارکردگی رہی اور گزشتہ ادوار کے مقابلے میں وہ اپنا آپ منوانے میں کس حد تک کامیاب رہے، اس پر نظر ڈالتے ہیں۔ میری رانا سکندر حیات کے ساتھ اس موضوع پر طویل گفتگو ہوئی اور میں نے جانا کہ ان میں بطور وزیر تعلیم کچھ کرنے کا جذبہ موجود ہے۔ مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کے آغاز یعنی مارچ 2024ء سے دسمبر 2024ء کے دوران رانا سکندر حیات کی قیادت میں پنجاب کی تعلیمی ترقی کیلئے انقلابی اقدامات ہوئے اور بے شمار نئی اصلاحات متعارف کروائی گئیں۔
رانا سکندر حیات نے بطور وزیر تعلیم جب ذمہ داریاں سنبھالی، انہیں بے شمار چیلنج درپیش تھے۔ اس سے قبل انہیں صوبے کے انتظامی امور کا تجربہ نہیں رہا، کیونکہ وہ پہلی مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور منتخب ہوتے ہی ایک اہم وزارت ان کے سپرد کر دی گئی تھی۔ وزارت میں پہلی انٹری ہو تو سیاستدان معاملات کو سمجھتے ہی 5سال گزار دیتا ہے، لیکن رانا سکندر حیات شاید دیگر سے مختلف تھے، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنا انتخاب درست ثابت کیا۔ یہاں تک کہ مخالف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی بھی ان کی کارکردگی کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ میں نے وزیر تعلیم سندھ کی زبانی بھی پنجاب کے وزیر تعلیم کی تعریف سنی اور پختونخوا
کے وزیر تعلیم کو بھی رانا سکندر حیات کا معترف پایا۔ جب ناقدین ہی کسی کی تعریف پر مجبور ہوں تو ایسے شخص کو کارکردگی دکھانے کا مزید حوصلہ ملتا ہے۔ یہی ’’ سانحہ‘‘ رانا سکندر حیات کے ساتھ بھی ہوا۔ انہوں نے ہر تنقید کو مثبت لیا اور صرف 10ماہ میں کئی سال جتنا کام کیا۔ وزیر تعلیم یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ ان کے 10ماہ کا مقابلہ گزشتہ حکومت کے 4پارلیمانی سالوں سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
سال 2024پنجاب میں جہاں تعلیمی اصلاحات کا سال رہا، وہیں کئی انقلابی اقدامات بھی اٹھائے گئے۔ پنجاب حکومت نے اپنے ابتدائی 10ماہ گزشتہ حکومت کی غلطیوں کو درست کرتے گزارے۔ تحریک انصاف حکومت کے دور میں 13سے 14ارب روپے میں شائع ہونے والی درسی کتب 7ارب روپے میں شائع کر کے دکھائی، یوں قومی خزانے کے اربوں روپے کی بچت کرتے ہوئے پبلشرز سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز کی ’’ حصہ داری‘‘ کا خاتمہ کیا۔ بوٹی مافیا کا مضبوط نیٹ ورک کامیابی سے توڑا اور امتحانی سینٹرز میں سیکیورٹی کیمروں کی تنصیب کے ذریعے نقل مافیا کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ قبل ازیں یہ بوٹی مافیا امتحانی سنٹرز خریدا کرتا تھا اور ’’ زباں بندی‘‘ کیلئے انتظامی و سیاسی پوسٹوں پر براجمان شخصیات کو مہنگے ترین تحائف بھی دیا کرتا تھا۔ یہی لالچ رانا سکندر حیات کو بھی دئیے گئے، لیکن ان کے صاف انکار نے اس مافیا کی حوصلہ شکنی کی۔
دورِ حاضر کی ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے سکولوں کی سطح پر ٹیکنیکل ایجوکیشن کو وسعت دی گئی۔ مڈل، میٹرک اور انٹر ٹیک کا آغاز کیا۔ وزیر تعلیم کی دعوت پر پہلی مرتبہ گوگل فار ایجوکیشن پاکستان آئی۔ گوگل کے تعاون سے پنجاب کے 3لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی سرٹیفائیڈ کورسز کرانے کا منصوبہ شروع کیا گیا۔ آٹ آف سکول بچوں کی انرولمنٹ کیلئے موثر مہم چلائی گئی۔ پبلک اور پرائیویٹ یونیورسٹیز کیلئے تاریخ کی سب سے بڑی سکالر شپ سکیم لانچ کی جس سے سالانہ 30ہزار طلبہ استفادہ کر رہے ہیں۔ سال 2024ء میں اکسیس ٹو ہائیر ایجوکیشن اور اڈلٹ لٹریسی پر بھی توجہ دی گئی اور تعلیمِ بالغاں کے سنٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ جنوبی پنجاب کے بچوں کی غذائی ضروریات کے پیشِ نظر سکول نیوٹریشن پروگرام کا آغاز کیا جس سے روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 4لاکھ بچے مستفید ہو رہے ہیں۔ اسی طرح تحصیلوں میں لڑکیوں کو ٹرانسپورٹ فراہمی کیلئے بسیں دینے کی سہولت شروع کرنے کے علاوہ ان کیلئے سکوٹی سکیم کا اجراء ہوا۔
مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت سے قبل محکمہ تعلیم کی انتظامی پوسٹوں پر میرٹ سے بالاتر ہوکر افسران کو محض سیاسی بنیادوں پر تعینات کیا جاتا تھا، جس کی وجہ سے اہل افراد کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں مل پاتا تھا۔ لیکن موجودہ حکومت نے اس روایت کو توڑا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انتظامی تعلیمی پوسٹوں پر بذریعہ امتحان، ٹیسٹ اور انٹرویوز انتخاب کا نظام لے کر آئی۔ وائس چانسلرز، ڈائریکٹر کالجز، پرنسپلز، چیف ایگویکٹو ایجوکیشن آفیسرز، ڈپٹی ایجوکیشن آفیسرز، ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسران، تمام تعیناتیوں میں شفافیت و میرٹ کی بالادستی اور رشوت و سفارش کی حوصلہ شکنی یقینی بنائی گئی۔ اساتذہ کے تبادلوں کیلئے پنجاب کی پہلی ای ٹرانسفر پالیسی متعارف کرائی گئی جس میں تھرڈ پرسن کو بھی ’ کردار‘ ادا کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ای ٹرانسفر پالیسی کا تمام عمل آٹومیٹک طریقے سے ہوا۔ یہ اقدام بھی رشوت اور سفارش کلچر کی حوصلہ شکنی کا باعث ٹھہرا۔
رانا سکندر حیات کی قیادت میں سال 2024میں فیک انرولمنٹ کے خاتمے اور ڈیٹا ہیلتھ کی ایکوریسی کیلئے نادرا ویری فیکیشن لازمی قرار دی گئی۔ بدلتے رجحانات کے پیش نظر کامرس کالجز کو ای کامرس کالجز میں تبدیل کیا گیا۔ سکولوں کی مانیٹرنگ، تعلیمی سسٹم کی بہتری اور سہولیات کا فقدان دور کرنے کیلئے ڈویژنل سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جنہیں ہر ماہ 4سکولوں کے دورے اور ان کی بہتری
کا ٹاسک دیا گیا۔ اسی طرح پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت لو پرفارمنگ سکولوں کو آئوٹ سورس کیا گیا جس سے انرولمنٹ ڈھائی لاکھ سے بڑھ کر سوا 4لاکھ پر چلی گئی آئوٹ آف سکول بچوں کیلئے ایڈ ٹیک ماڈل پر سکولوں کا پائلٹ پراجیکٹ بھی اسی سال لانچ کر دیا گیا ہے جسے محکمہ تعلیم 2025میں پورے پنجاب میں پھیلانے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ اسی سال لیپ ٹاپ سکیم پر بھی حتمی ورکنگ مکمل کر لی گئی ہے۔ جبکہ سال 2025کے پہلے مہینے میں ہی طلباء کو لیپ ٹاپ فراہمی کا بھی آغاز کر دیا جائے گا۔
وزیر تعلیم نے آئندہ 2سالوں میں ’’ سرکاری سکول معیاری سکول‘‘ بنانے کے خواب کو پورا کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آئندہ 2سالوں میں سرکاری سکولوں کا معیار اس لیول پر لے جائیں گے کہ وزراء اور بیوروکریسی بھی بچے بھی پبلک سکولوں میں پڑھنے کو ترجیح دیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ رانا سکندر حیات اس دعوے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ اس کیلئے ہمیں پارلیمانی سال کے مکمل ہونے کا انتظار ہے۔
محمد نور الھدیٰ

جواب دیں

Back to top button