کیا جاری مذاکرات سے عوام کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے؟

عبدالرزاق برق
کم و بیش دو سال کی تلخی کے بعد حکومت نے تحریک انصاف کے ساتھ پارلیمنٹ ہائوس میں اہم اجلاس منعقد کیا ہے اور بات چیت کے لئے میز پر بیٹھ گئی ہے، جس کو مثبت پیشرفت اور ایک مثالی اقدام قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کا ایک درست اور سیاسی حکمت سے بھرا ہوا مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنا ایک بہترین فیصلہ ہے لیکن خدشات و توقعات کے درمیان بات چیت کا آغاز بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے۔ تحریک انصاف کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی کمیٹی کے ارکان پورے نہ ہونے کے باوجود انہوں نے کوئی عذر نہیں کیا بلکہ جو لوگ دستیاب تھے انہی کے ساتھ آغاز کر دیا ہے اور انہوں نے عدم تشدد اور مکالمے پر یقین رکھنے والے اراکین کو بات چیت کی ذمہ داری تفویض کرکے کم از کم اپنے بعض سابقہ فیصلوں سے رجوع کا اشارہ دیا جس سے مذاکرات کے اس پہلے دور نے ہی ناامیدی کی شپ تاریک میں امید کا چراغ روشن کر دیا ہے اور عوام کے دلوں میں خدشات کے ساتھ ساتھ محتاط امیدیں جگا دی ہیں شک و شبہات اور مثبت توقعات کے درمیان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کی خاطر لازم ہے کہ فریقین پہلی فرصت میں چند اقدامات کریں جن کے لئے کسی معاہدے کی ضرورت نہیں ان میں ایک دوسرے کے لئے غیر مہذب زبان کے استعمال بیرون ملک بیٹھے شرارتی عناصر سے مکمل علیحدگی قومی سویلین اور عسکری قیادت پر فحش زبان میں تنقید کرنا شامل ہے ماحول کو سازگار رکھنے کیلئے شعلہ بیاں رہنمائوں سے خاموش رہنے کی گزارش کی جائے۔ مذاکراتی کمیٹیاں اس امر کا احساس کریں کہ ملک سیاسی عدم استحکام کے باعث آگے نہیں بڑھ رہا۔ عام آدمی نظر انداز تصور کرنے لگا ہے اور امید کی جانی چاہئے کہ یہ عمل صرف دکھاوا نہیں ہوگا بلکہ اس کے ٹھوس نتائج برآمد ہوں گے ۔ حکومتی کمیٹی میں اسحاق ڈار ، عرفان صدیقی اور پرویز اشرف جیسے لوگوں کی موجودگی خوش آئند ہے ۔ اسی طرح جب حکومت نے کمیٹی میں سب اتحادیوں کو شامل کیا ہے تو تحریک انصاف کو بھی یہ عمل کرنا چاہئے تھا کہ وہ اپنے کمیٹی میں محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمان ، اختر مینگل جیسے لوگوں کو شامل کرنا چاہئے تاکہ یہ حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات بن جائینگے جس میں ملک کی سیاست اور دیگر معاملات پر کھل کر بات ہوسکے گی ۔ مگر سب سے پہلے اہم سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے جو اہم مطالبے ہیں کیا وفاقی حکومت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے اہم مطالبے مان لیں ؟ پی ٹی آئی اور وفاقی حکومت کے درمیان مذاکرات کا پہلا رائونڈ ایک ایسے وقت میں شروع کیا گیا ہے کہ 9مئی کے واقعات میں ملوث کئی لوگوں کو فوجی عدالتوں سے سنگین سزائیں بھی سنا دی گئی ہیں ۔ تحریک انصاف کا پہلا مطالبہ حکومت سے یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو رہا کیا جائے اور جن کارکنوں کے خلاف مقدمات بنائے گئے ہیں اس کو ختم کیا جائے توکیا وفاق حکومت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ بانی تحریک انصاف اور تحریک انصاف کے گرفتار کارکنوں کو رہا کریں۔ حکومت کے پاس آئین و قانون کے تحت مقدمہ بنانے کا اختیار تو ہے مگر مقدمہ ختم کرنے کا اختیار نہیں ہے ، مقدمہ ختم کرنے کا اختیار عدالت کے پاس ہیں کہ وہ کسی کو سزا دے یا بری کر دے حکومت کے پاس پکڑنے کا اختیار ہے چھوڑنے کا کوئی اختیار نہیں، چھوڑنے کا اختیار بھی پھر عدالت کے پاس ہیے، ایسا اختیار سابق صدر پرویز مشرف نے استعمال کیا تھا جب انہوں نے ایک NRO نامی آرڈیننس سے پیپلزپارٹی بالخصوص بے نظیر بھٹو کے تمام مقدمات ختم کر دیئے تھے مگر پاکستان کی عدالتوں نے نہ صرف اس آرڈیننس کو اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا بلکہ مقدمات بھی بحال کر دیئے تھے اورNROکو ایک گالی بنا دیا اس طرح بانی تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات کے نتائج کو تسلیم کرنے کی کیا ضمانت ہوگی ؟ کیا تحریک انصاف ملک میں ہونے والے گزشتہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم کریں گی ؟ کیا وفاقی حکومت تحریک انصاف کے بقول گزشتہ انتخابات میں چوری کیا گیا منڈیٹ انہیں واپس دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ البتہ PTIحکومت کو پرامن سیاسی ماحول اور بیرون ملک حکومت مخالف سرگرمیوں میں کمی یا ان کو ختم کرنے جیسی چیزیں آفر کر سکتی ہے۔ تحریک انصاف نے سول نافرمانی کے نتیجے میں اورسیز جو بیرون ممالک سے سالانہ 32ارب ڈالر بھیجتے ہیں کیا حکومت سے مذاکرات شروع کرنے سے اورسیز اسی طرح اپنے پیسے بھیجتے رہیں گے؟ اب جب مذاکرات کے دوسرے رائونڈ میں تحریک انصاف تمام قیدیوں کی لسٹ حکومت کو رہائی کیلئے پیش کریں گے تو حکومت کیا کرے گی وہ پی ٹی آئی کو یہی کہے گی کہ عدالت جائیں وہاں سے ضمانتیں لیں اور اپنے مقدمات ختم کروائیں ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ اب جب حکومت کے پاس تحریک انصاف کا ایک بھی مطالبہ ماننے کی طاقت اور اختیار نہیں رکھتی۔ اس لئے ان کی کامیابی کے امکانات کم ہی نہیں بلکہ ناممکن ہی ہیں کیونکہ عمران خان جس گرداب میں پھنس چکا ہے وہاں سے نکلنے کے لئے اسے یاتو کامیاب مذاکرات چاہئیں یا پھر NRO ورنہ اس ملک کی عدالتوں سے اتنے مقدمات میں جلد گھر آنے کی توقع نہ رکھیں، 9مئی کے حوالے سے کسی بھی قسم کے مذاکرات یا معافی دراصل 9مئی کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہوگا۔ حکومت سے مذاکرات شروع کرنے سے قبل بانی تحریک انصاف عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ میں مر جائوں گا لیکن چوروں سے NROنہیں لوں گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب حکومت کے پاس نہ اختیار ہے نہ تحریک انصاف کو ضمانت دے سکتی ہے اور وہ نہ کوئی مذاکراتی فیصلہ کر سکتے ہیں تو حکومت نے پانچ سیاسی پارٹیوں پر مشمل حکومتی کمیٹی کیوں بنائی ؟ کیوں تحریک انصاف سے مذاکرات شروع کئے ہیں ؟ میرے خیال میں حکومت پر عوام کا بہت دبائو ہے اور عوام کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک تلخیوں اور سیاسی عدم استحکام اور بحران سے دوچار ہے۔ ان تلخیوں، سیاسی عدم استحکام اور بحران کے خاتمے کے لئے قومی اسمبلی کے سپیکر کو کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں ۔ کوئی بھی جماعت مذاکرات کے لئے پیشگی شرائط نہ لگائے سپیکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھیں۔ پارلیمنٹ، جمہوریت کی مضبوطی کے لئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، پارلیمنٹ میں جس طرح حکومتی طاقت اپوزیشن کو کچلتی ہے اس میں یہ گنجائش نہیں رہتی کہ حکومت دوسرے فریق کا درست موقف توجہ سے سنے۔ یہی حال اپوزیشن کا ہوتا ہے جو پارلیمنٹ سے زیادہ سڑکوں پر رہ کر احتجاج کرتی ہے دونوں کا طریقہ کار اپنی اپنی سیاست کی بقا کے لئی ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن اس کا ملک اور عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ تحریک انصاف نے بہت سے احتجاج کئے جس سے وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتے تھے وہ نہیں ہو پایا اور نہ ہی حکومت سے اپنے مطالبات منوا سکی اور باربار احتجاجی مظاہروں کے بعد عوامی طاقت کے ذریعے مطالبات منوانے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی تھی اور اب اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرکے حکومت سے مذاکرات کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ یہ اس لئے کہ تحریک انصاف کے اندر اور باہر بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جوان کی قیادت کو کافی عرصے سے مذاکرات کا آپشن آزمانے کا مشورہ دے رہے تھے لیکن اب فی الحال نہ ڈیل نہ راضی نامہ نہ مقدمات کا خاتمہ اور نہ ہی رہائی ممکن ہے۔ البتہ یہ بلی چوہے کا کھیل اگلے تین ماہ تک کھیلاجائیگا ۔مارچ 2025 میں یہ بیل منڈیر پر چڑھ سکتی ہے مگر یہ فوٹو سیشن جاری رہیں گے اور نہ کھبی مذاکرات کامیاب ہوں گے نہ ہی نتیجہ خیز ہوں گے۔ وہی پرانی بات کہ جب تک اصل حکمران نہیں چاہیں گے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے دوران امریکی مشیر رچرڈ گرنیل کا گزشتہ ہفتے ایک ٹویٹ عمران خان رہا کرو free imrankhanکے سامنے آنے سے پاکستان کی سیاسی صورتحال میں ہلچل مچا دی اور اس ٹویٹ یا ایکس نے حکومت وقت کو بھی پریشان کر دیا اور حکومتی مشیر اندر سے خوفزدہ ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے وہ کسی کی بات مانے یانہ مانے پہلے بھی ہم نے شکیل آفریدی کو چھوڑنے کی بات نہیں مانی امریکہ نے ہمارا کیا کرلیا لہٰذا امریکہ پاکستان کی اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ کوئی ان مشیروں سے پوچھے کہ نوازشریف کو پرویز مشرف سے لے کر سعودی عرب بھیجا گیا تھا وہ امریکی مداخلت نہیں تھی لیکن جب ڈونلڈ ٹرمپ چند دنوں میں اقتدار سنبھالیں گے تو عمران خان کے لئے آسانیاں پیدا ہوجائیں گی جبکہ ن لیگ چاہتی ہے کہ عمران خان کو سزا ہوجائے۔ عمران خان نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں امریکی مداخلت کے خلاف ابسلیوٹلی ناٹ کا نعرہ لگایا تھا لیکن تھے وہ مغرب اور امریکہ کے آدمی شواہد ہی ثابت کر رہے ہیں کہ یہ پاکستانی سیاست دانوں کا وطیرہ ہے کہ وہ کہتے اور ہیں کرتے اور ہیں ۔ ان کا ظاہر اور ہے اور باطن اور ہے۔ یہ صرف عمران خان کی باتیں نہیں بلکہ سارے ایک جیسے ہیں۔ ویسے یہ سوال بھی بنتا ہے کہ جو امریکہ رجیم چینج کے ذریعے عمران خان کو ابسلیوٹلی ناٹ کہنے پر ہٹا رہا تھا وہ آج اس کی حمایت میں کیوں کھڑا ہوگیا ؟۔
عبدالرزاق برق







