Column

2024ء ناکامیوں کا سال

سیدہ عنبرین

بیتے برس نے ہمیں کیا دیا، سال کا آخری سورج غروب ہوا چاہتا ہے، جس کے بعد ہر طرف یہی حساب کتاب ہو رہا ہو گا۔ اس سے جڑا ایک اور سوال بھی سامنے آئے گا کہ بیتے برس نے اگر ہمیں کچھ نہیں دیا تو جو کچھ ہمارے پاس پہلے سے موجود تھا وہ تو نہیں اڑا کر لے گیا۔ انسانی حقوق کی پامالیوں، اظہار رائے پر پابندیوں کے سبب میدان سیاست میں افراتفری رہی، حکومت اس کا الزام انہیں دیتی ہے جن کے گھر سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکہ ڈالا گیا، وہ لٹے ہوئے سامان کی بازیابی کیلئے نکلے تو کسی تھانے، کسی کچہری، کسی عدالت میں ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ احتجاج کیلئے کہیں جمع ہوئے تو لاٹھیوں اور آنسو گیس سے مزاج پرسی کی گئی۔ گرفتاریاں اس بنیاد پر ہوتی رہیں کہ جب کہا تھا اپنا حق نہیں مانگنا، خاموش رہتا ہے تو استغاثہ کیوں بلند کیا، ملک بھر میں سیاسی انتقام لینے کیلئے بلامبالغہ ہزاروں مرد و زن گرفتار ہوئے، جو ملک کی سیاسی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے۔ گرفتار کئے جانے والوں میں مردوں کے علاوہ خواتین اور بچے بھی شامل تھے، جب کسی کو کسی طرف سے ایک مقدمے میں ریلیف ملتا، ضمانت ملتی تو دوسرے مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا، پھر تیسرے، اسی طرح چوتھے، بعض شخصیات پر درجنوں مقدمات بنائے گئے۔ توڑ پھوڑ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں ان افراد پر مقدمات بنائے گئے جو اس روز اس شہر، اس صوبے میں موجود نہ تھے، سیاسی عدم استحکام کا اثر معیشت پر آیا، جانیوالے ڈالر 150روپے کا چھوڑ کر گئے تھے وہ 330پر جا کر پونے تین سو روپے پر ان کے ذریعے واپس آیا جن کے فرائض منصبی کچھ اور ہیں۔ پٹرول اڑھائی سو روپے فی لٹر ہوا تو بھاشن آیا معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے، حسن انتظام کے ذریعے ڈالر کو 400روپے تک لے جانا مقصود تھا جبکہ پٹرول کی منزل بھی کچھ اور تھی، دکھاوے کیلئے ڈالر آئے اور قرضے کی قسط ملی تو اسے عظیم کامیابی سے تعبیر کیا گیا۔ بے روزگاری عروج پر رہی، مزدور کا چولہا بجھ گیا، ملک چھوڑنے کے رجحان میں ایسی تیزی آئی جو اس سے قبل کبھی نہ دیکھی، تقسیم ہند ہوئی تو بڑی تعداد میں مسلمان پاکستان کی طرف ہجرت کر گئے، ان کی آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب تھے، گزشتہ برس یہ خواب ایک چھناکے سے ٹوٹے۔ نوجوانوں کو محسوس ہوا اس ملک میں ان کا کوئی مستقبل نہیں
ہے۔ ایک برس میں قریباً 6لاکھ پڑھے لکھے ہنر مند افراد جبکہ گزشتہ اڑھائی برس میں 15لاکھ افراد ملک چھوڑ گئے، درجنوں نہیں سیکڑوں ایسے تھے جو ملک سے مایوس ہو کر نکلے تو منزلوں پر پہنچنے سے قبل راستوں میں گہرے پانیوں میں غرق ہوگئے، بیشتر کی لاشیں بھی نہ مل سکیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ہزاروں افراد غیر قانونی ذرائع اختیار کر کے غیر ممالک پہنچنے میں ناکام ہو کر مختلف ملکوں میں گرفتار ہو گئے۔ ملکی حالات دیکھتے ہوئے چھوٹے، درمیانے اور اعلیٰ درجے کے کاروباری افراد اس قدر بددل ہوئے کہ ملک سے 12ارب ڈالر کا سرمایہ نکال کر صرف دبئی میں لے گئے۔ ماہر معاشیات شبر زیدی کے مطابق یہ سرمایہ 12ارب ڈالر نہیں 22ارب ڈالر ہے جبکہ سپین، لندن، امریکہ، افریقہ اور سائوتھ افریقہ لے جایا جانے والا سرمایہ اس کے علاوہ ہے، سٹاک ایکسچینج کے آسمان پر جانے کی خبریں خاص انتظام کے تحت فلیش کرائی جاتی رہیں، اتار زیادہ چڑھائو کبھی کبھار نظر آیا۔ ایک جھٹکے میں تصدیق شدہ اور اخبارات میں شائع شدہ خبروں کے مطابق سٹاک مارکیٹ میں مندی کے سبب سرمایہ کاروں کو 4ارب کا خسارہ ہوا۔ ایک موقع پر سٹاک مارکیٹ کریش ہوئی تو سرمایہ کاروں کے 159ارب روپے ڈوب گئے ایسے ہی ایک اور جھٹکے میں 68ارب روپے کا نقصان ہوا، ایل این جی امپورٹ سے مقامی آئل اینڈ گیس انڈسٹری بری طرح متاثر ہوئی 192 ملین ڈالر کا نقصان ہوا، گیس کی پیداوار کم ہو گئی، ٹیکسوں کے وصول نہ ہونے سے قریباً 50ارب روپے کا نقصان قومی خزانے کے مقدر میں لکھا گیا۔ حکومت نے پہلے 6ماہ میں 5ہزار 552ارب روپے قرضہ لیا، نگران حکومت نے اپنے پہلے 6ماہ میں 840ارب روپے قرضہ لیا تھا۔ سوئی گیس کی قیمت میں حکومتی عہدیدار جناب مصدق ملک کے مطابق ساڑھے 8سو فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ ابھی مزید اضافہ کیا جائے گا۔
پاور سیکٹر کو سبسڈی کی مد میں 159ارب روپے جاری کئے جانے کے بعد مزید 50ارب روپے جاری کرنے کا فیصلہ ہوا اس طرح مجموعی طور پر یہ رقم 209ارب روپے سے بڑھ گئی، بجٹ پیش کرتے ہوئے بڑے فخر سے بتایا گیا کہ یہ بجٹ ہم نے نہیں بلکہ آئی ایم ایف نے بنایا ہے۔ سخت فیصلے کرنے کے راگ الاپتے ہوئے عام آدمی پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی لیکن سرکاری اللے تللے، تنخواہوں میں ہوشربا اضافے، ممبران پارلیمنٹ کی مراعات میں اضافے یوں ہوئے جیسے ایک رات میں دنیا کا سب سے بڑا سونے کا ذخیرہ پارلیمنٹ کے فرش کے نیچے سے دریافت ہوا ہے۔ نوجوان نسل، اساتذہ، کسان، مزدور، ڈاکٹر، وکلا، نرسز اور دیگر شعبوں میں خدمات انجام دینے والے عدم استحکام کا شکار رہے۔ اعلیٰ عدالتوں سے جس طرح فیصلے لئے گئے، جس انداز میں آئینی ترامیم کی گئیں، اس حوالے سے حکومت کے اتحادی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے آن ریکارڈ بتایا کہ ان کے ممبران پارلیمنٹ کو بھی ہراساں کیا گیا، انہیں اغوا کئے جانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔
آج سے دو روز قبل سامنے آنے والے زرمبادلہ کے ذخائر 16ارب 30کروڑ ڈالر تھے، جو کبھی جانے والی حکومت نے 22ارب ڈالر پر چھوڑے تھے۔ ایس آئی ایف سی کی تمام تر کوششوں کے باوجود کسی غیر ملکی انویسٹمنٹ سے کوئی بڑا پراجیکٹ شروع نہیں ہو سکا، جبکہ پاکستانی سرمایہ کار غیر ممالک میں رکھا ہوا پیسہ ملک میں نہیں لائے، یہ ایک طرح سے حکومتی پالیسیوں پر عدم اطمینان کا اظہار ہے، ہمارے سرمایہ کار اب دبئی کے بعد ویت نام، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہمسایوں میں تعلقات کے حوالے سے کوئی بہتری نہ آ سکی، افغانستان سے تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں، بھارت کے ساتھ کوئی پیشرفت نہ ہو سکی، ایران کے ساتھ تعلقات جمود کا شکار ہیں جبکہ چینیوں پر متعدد حملوں کو نہ روکا جا سکا، نتیجتاً چین نے متعدد موقعوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا، ہماری بے بسی کا عالم یہ تھا کہ ایک کرکٹ ٹورنامنٹ کی ٹرافی کو ہم اپنی مرضی سے گلگت بلتستان نہ لے جا سکے، 2024ء کے بطن سے کوئی بڑی کامیابی نہ مل سکی، بلوچستان کے بعد صوبہ خیبر بھی ناخوش ہے۔

جواب دیں

Back to top button