دیکھے مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو

تحریر: رفیع صحرائی
سانحہ نو مئی کے مجرمان کو سزا دینے کے دوسرے مرحلے میں جن 60لوگوں کو سزا سنائی گئی ہے ان میں عمران خان کے حقیقی بھانجے اور محترمہ علیمہ خان کے بیٹے حسان نیازی بھی شامل ہیں۔ انہیں دس سال قید بامشقت ہوئی ہے۔ اس موقع پر حسان نیازی کی قید سے زیادہ ان کے عدالت میں کہے گئے الفاظ اہم اور قابلِ غور ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر کہا کہ’’ میں نے اپنے ماموں عمران خان کے لیے جو قربانیاں دیں ان کا صلہ یہ ہے کہ ڈیڑھ سال قید کے دوران مجھے نہ تحریکِ انصاف نے پوچھا اور نہ ہی عمران خان نے‘‘۔
یہ وہ الفاظ ہیں جو بھیڑ چال کا شکار ہو کر بے سمت منزلوں کے مسافر نوجوانوں کے لیے باعث عبرت ہیں۔ حسان نیازی اپنی پارٹی کا سرگرم ورکر ہی نہیں تھا۔ وہ پارٹی لیڈر کا بھانجا بھی تھا اور اسے پارٹی میں اہم مقام بھی حاصل تھا۔ خود وکیل تھا اور اپنی پارٹی کی حمایت میں وکلاء کو متحرک کرنے میں پیش پیش ہوتا تھا۔ حقیقت میں وہ پارٹی کا اثاثہ تھا مگر مشکل پڑی تو اسے پتا چلا کہ وہ جو خود کو پارٹی کے اندر انتہائی اہم سمجھتا تھا وہ محض استعمال ہونے کی چیز تھا۔ وہ اپنے آپ کو پارٹی قائد اور اپنے ماموں کی ناک کا بال سمجھتا تھا لیکن قید کے دوران اسے پتا چلا کہ وہ ناک کا بال نہیں بلکہ ناک صاف کرنے کے لیے استعمال ہونے والا ٹشو پیپر تھا۔ قید میں پارٹی کے لیے وہ ناکارہ اور ناقابلِ استعمال تھا۔ کسی نے پلٹ کر اس کی خبر بھی نہ لی۔ اگر اس تمام عرصے میں کوئی اس کے ساتھ کھڑا رہا تو وہ اس کا باپ حفیظ اللہ نیازی تھا۔ وہ حفیظ اللہ نیازی جس نے بہت پہلے پارٹی چھوڑ دی تھی۔ بیٹے کو باپ کی دانائی پر شاید شک تھا۔ اس نے اس راہ کا مسافر بننا پسند کیا جسے باپ نے ترک کر دیا تھا۔ آج کل کے نوجوانوں کی اکثریت کا یہ المیہ ہے۔ وہ پرانی اور پائیدار اقدار کو پسند نہیں کرتے۔ بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی بجائے نئی راہوں کے راہرو بننا چاہتے ہیں۔ مطلب پرست اور چالاک خواب فروش ان کی آنکھوں میں ایسے سنہری سپنے سجا دیتے ہیں جن کی تعبیر انہیں تاریک گڑھوں میں لے جاتی ہے۔ حسان نیازی کے علاوہ بھی جن 84افراد کو سزائیں ہوئیں، پارٹی نے ان سب کو بے یارومددگار چھوڑ دیا تھا بلکہ پارٹی نے تو انہیں اپنا ورکر تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ پارٹی نے تو میاں محمود رشید، یاسمین راشد اور اعجاز چودھری کو بھی تنہا چھوڑ دیا ہے۔ اور تو اور پارٹی اپنے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو بھی بھول چکی ہے۔ عام ورکرز کس کھیت کی مولی ہیں۔
کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ تکنیکی طور پر یہ فقرہ ہی غلط ہے۔ سیاست تو ایک کھیل ہے۔ اصل میں اس کھیل کو کھیلنے والوں کے سینے دل سے خالی ہوتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ حقیقی طور پر چند چھٹانک کے اس عضو سے محروم ہوتے ہیں جسے دل کہا جاتا ہے۔ اس بات سے مراد یہ ہے کہ سیاست دان دل کی کبھی نہیں مانتے۔ وہ ہمیشہ دماغ کے کہے پر چلتے ہیں۔ کامیابی کی شرط بھی یہی ہے کہ دل کے ساتھ عقل پہرے دار کے روپ میں موجود رہے۔ دل ہمیشہ خسارے کے سودے کرتا ہے۔ دل کا کام اقتدار کی راہ ہموار کرنا نہیں بلکہ اقتدار سے کوسوں دور لے جانا ہے۔ خواہ دل کا شکار جارج پنجم ہو یا شہزادہ چارلس کا بیٹا ہو۔ جنہوں نے دل کی مان لی پھر انہوں نے کسی کی نہیں مانی۔
سیاست میں کامیابی کے لیے بے حسی اور خود غرضی کے اوصاف کا ہونا بنیادی شرط ہے۔ جو سیاست دان ان اوصاف سے عاری ہو وہ صرف وقتی کامیابی تو حاصل کر سکتا ہے۔ مستقل اور لازوال کامیابی اس کے مقدر میں کبھی نہیں آ سکتی۔ لازوال کامیابی تو خیر کسی کو بھی نصیب نہیں ہوتی کہ وقت پہیے کی مانند ہمیشہ رواں دواں رہتا ہے۔ اوپر والی سمت نیچے اور نیچے والی اوپر ضرور آتی ہے۔ البتہ دماغی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنی کامیابی کا عرصہ لمبا ضرور کیا جا سکتا ہے۔
جب 1998ء میں میاں نواز شریف کی حکومت پر آمر پرویز مشرف نے شب خون مارا تھا تو اقتدار میں آنے کے بعد پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کو طیارہ سازش کیس میں پھنسا کر سزائے موت دلوا دی تھی۔ میاں کی فیملی کے افراد بڑی تعداد میں پابندِ سلاسل تھے۔ فیملی سے ہٹ کر نمایاں لیڈرشپ بھی زیرِ عتاب تھی۔ ورکرز شدید غصہ کے عالم میں تھے۔ میاں صاحب کو موقع ملا تو وہ ڈیل کر کے سعودی عرب روانہ ہو گئے۔ انہوں نے خود کو اور خاندان کو بچا لیا۔ ورکرز پیچھے رہ گئے، میاں صاحب بہت آگے نکل گئے۔
توشہ خانہ ریفرینس میں عمران خان کے ساتھ جب بشریٰ بی بی کو بھی چودہ سال قید بامشقت کی سزا ہوئی تو وہ بڑی دلیری کے ساتھ خود اڈیالہ جیل پہنچیں اور اپنی گرفتاری دے دی۔ وہ عمران خان کی نسبت بہادر ثابت ہوئیں۔ جب عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس زمان پارک گئی تھی تو مبینہ طور پر وہ واش روم میں چھپ گئے تھے اور دروازہ توڑ کر انہیں نکالا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے ورکرز اور میڈیا سیل نے بشریٰ بی بی کی دلیری کو خوب کیش کرانے کی کوشش کی۔ سوشل میڈیا پر ان کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے۔ ابھی یہ توصیفی مہم جاری تھی کہ بشریٰ بی بی کو بنی گالہ کے گھر میں منتقلی کی پیش کش کی گئی جسے انہوں نے فوراً قبول کر لیا اور بغیر کسی تاخیر کے بنی گالہ والے گھر میں منتقل ہو گئیں جسے سب جیل قرار دے دیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس رعایت کے پیچھے مریم نواز شریف کی کوشش شامل تھی جو بذاتِ خود جیل کی صعوبتوں سے واقف ہیں۔ بشریٰ بی بی جو کہ آئرن لیڈی بننے جا رہی تھیں چند گھنٹے بھی جیل میں نہ گزار سکیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کی ان خواتین ورکرز کی قربانیوں کو پسِ پشت ڈال دیا جو 9مئی کے نتیجے میں گرفتار ہو کر کئی مہینوں سے جیل کی سختیاں برداشت کرنے کے باوجود ڈٹی ہوئی تھیں۔ دیکھا جائے تو یہ ان ورکرز کی توہین ہی نہیں بلکہ ان کے منہ پر زبردست طمانچہ بھی تھا۔
ہمارے ہاں غیر تربیت یافتہ اور جذباتی سیاسی ورکرز شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں۔ وہ جذبات میں اندھے ہو کر اپنے پیاروں، رشتہ داروں، حتیٰ کہ والدین تک سے برگشتہ ہو جاتے ہیں۔ ان کے ل?ے درج بالا مثالیں باعثِ عبرت ہونی چاہئیں۔ ظلِ شاہ کی مثال بھی یاد رکھیے کہ وہ پروانے کی طرح اپنے لیڈر پر قربان ہو گیا مگر کوئی تیسرے درجے کا لیڈر بھی اس کے جنازے میں نہیں پہنچا تھا اور اس کے گھر والوں کا اب کوئی پرسانِ حال بھی نہیں۔
یاد رکھیے! سیاسی ہمدردی اپنے لیڈر کے ساتھ ضرور رکھیے۔ ووٹ کے ساتھ ساتھ اسے سپورٹ بھی کیجیے مگر خود کو سیاست کا ایندھن مت بنائیے۔ سیاست دانوں کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ آپ ان کے مفادات کے تحفظ میں استعمال ہونے والی ’’ چیز‘‘ مت بنیں۔ آپ ان کے لیے محض ایک فرد ہیں مگر اپنے خاندان اور گھر والوں کے لیے سب کچھ ہیں۔





