Columnمحمد مبشر انوار

مٹھی کھلنے کو ہے!!!

محمد مبشر انوار
نظام حکومت کی ڈوریں کس کے ہاتھ ہیں اور اس کا سانس لینا کس قدر دشوار ہے، اس کی حقیقت باشعور عوام سے مخفی نہیں کہ یہاں تو حالت یہ ہے کہ جن سے امید انصاف رہی، وہ اپنے لئے حصول انصاف میں دربدر دکھائی دئیے اور حیرت تو اس وقت ہوئی جب عدلیہ کے سابق سربراہ نے ججز کی ایسی شکایت پر، حق تلفی کرنے والوں، ناانصافی کرنے والوں اور ججز پر دبائو ڈالنے والوں کو ہی اس کا اختیار دینے کی کوشش کی کہ وہ اس مسئلے کا حل نکالیں۔ اب تو حقائق واضح ہو چکے کہ عدلیہ کے سابق سربراہ نے کس طرح آئین و قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے، فقط اپنے منصب کو مدنظر رکھتے ہوئے، کیسے کیسے غیر قانونی کام کئے لیکن صد افسوس اس تمام تر خدمات کے باوجود، صلے میں مدت ملازمت میں توسیع حاصل نہ کر پائے اور جس آئین و قانون پسند مرد قلندر کا راستہ روکنے کی مذموم کوشش کی، اسے عوام نے بغیر منصب ہی وہ عزت و پذیرائی بخشی کہ جس کا کوئی خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔ اپنی ایک پرانی تحریر بعنوان ’’ مٹھی کھولنی پڑے گی‘‘ بتاریخ 4اپریل 2024ء کا ایک اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
’’ بہرکیف اس ہیجان میں کہ جب عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے اولااپنی ماتحت عدلیہ کے ججز کی شکایت پر خود بروئے کار آنے کی بجائے، فریق مخالف کو ہی اس شکایت کا ازالہ کرنے کا اختیار سونپ دیا ہے اور فریق مخالف نے پہلے ایک سابق چیف جسٹس کو کمیشن کا سربراہ تعینات کیا، جس کے اپنے لخت جگر نے اس تعیناتی کے خلاف اظہار رائے کیا تو سابق چیف جسٹس تصدق حسین گیلانی نے اس کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی، تاہم اب عدالت عظمیٰ نے اس شکایت پر ازخود نوٹس لے کر سات ججز کا بینچ بنا دیا ہے اور ممکنہ طور پر تحریر کی اشاعت تک مقدمہ کی سماعت شروع ہو چکی ہو گی۔ کمیشن کی حد تک یہ بات واضح تھی کہ ایسے کسی بھی کمیشن کا مقصد ’’ مٹی پائو‘‘ سے زیادہ کچھ نہ ہوتا لیکن عدالت عظمیٰ کے ازخود نوٹس لینے کے بعد معاملہ کی نوعیت بہرطور بدل چکی ہے اور اشک شوئی کی حد تک ہی سہی، گمان ہے کہ آڈیو/ویڈیو کا ناجائز کاروبار کرنے والوں کی سرزنش کی جائے گی کہ بظاہر نیشنل سیکیورٹی کا معاملہ راستے کی دیوار بنتا نظر آتا ہے۔ نیشنل سیکیورٹی کی خاطر ایسے اقدامات کا کیا جانا، پاکستان جیسی ریاست میں کوئی انوکھی بات تصور نہیں ہوتی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ نیشنل سیکیورٹی کے نام پر ایسے اقدامات کا دائرہ کار اب خلوتوں تک جا پہنچا ہے، ذاتی کمروں تک پہنچ گیا ہے، جسے کسی بھی طور نیشنل سیکیورٹی کی آڑ میں چھپایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اس قسم کا ریکارڈ واقعتا نیشنل سیکیورٹی میں کارآمد ثابت ہو رہا ہے کہ نہ صرف نیشنل سیکیورٹی بلکہ قومی مفادات دن بدن تنزلی کا شکار ہے۔ ان جدید ترین آلات کی عدم موجودگی میں بھی حضرت عمرؓ کے تعینات کئے گئے عمال کی کارکردگی، موجودہ دو ر کی آسائشوں ،پر کشش مراعات کے باوجود کئی گنا بہتر تھی، اس کی وجہ ہر صاحب اختیار و ذمہ دار کا خود کو ادنی تصور کرنا اور اللہ کے حضور جوابدہی کا عنصر تھا۔ بدقسمتی سے ہمارے ارباب اختیار نے زمینی خدائوں کی خوشنودی کو مد نظر رکھا ہے یا طاقتوروں کے ہاتھوں ملکی مفادات کو زیادہ محفوظ تصور کر رکھا ہے اور طاقتوروں کی خوبی یہ ہے کہ وہ پس پردہ رہ کر زیادہ متحرک و فعال نظر آتے ہیں۔ ملکی معاملات پر ان کی گرفت دن بدن مضبوط تر ہوتی جار ی ہے جبکہ سویلین کی حالت یہ ہے کہ وہ ہاتھ باندھے اشارہ ابرو کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں، بندہ ناچیز کے تو پر جلتے ہیں کہ کسی کا ذکر خیر کر سکے کہ اس کوشش میں ہمارے ہی بھائی بندوں میں ارشد شریف کو شہید کیا جا چکا تو کئی ایک کے سوفٹ وئیر اپ ڈیٹ ہو گئے جبکہ ایک عمران ریاض خان ایسا ہے کہ بار بار مہمان نوازی کا لطف اٹھا کر بھی پھر وہیں سے شروع کرتا ہے، جہاں سے چھوڑ کر جاتا ہے۔ لہذا یہی کہا جا سکتا ہے کہ ریاست کے مفادات کو جس سختی سے اپنی مٹھی میں بند کر رکھا ہے کہیں ان مفادات کی سانسیں ہی نہ ٹوٹ جائیں، سانسیں چلتی رہنے کے لئے ضروری بلکہ ناگزیر ہے کہ مٹھی میں بند، ریاست پاکستان کے مفادات کو زندہ رہنے کے لئے، اسے ازخود کھول دیں وگرنہ یا تو ریاست کے مفادات آپ کی مٹھی میں ہی دم توڑ جائیں گے یا پھر جمہور ریاست آپ کی بند مٹھی کھلوانے پر نہ تل جائیں، اس صورت میں بھی نقصان ریاستی مفادات کا ہے، بند مٹھی تو بہرطور جلد یا بدیر کھولنی ہی پڑیگی‘‘۔
افسوس اس امر کا ہے کہ ریاست بظاہر اپنے طاقتور اور بااختیار ہونے کا تاثر تو دیتی ہے لیکن جیسے گھٹا ٹوپ اندھیرے کا پیٹ روشنی کی ایک معمولی سی کرن چاک کر دیتی ہے، بعینہ ظلم کے اس نظام کی بخئے ادھیڑنے کے لئے صرف ایک آئین و قانون پسند مرد قلندر جج کی تعیناتی کافی ہوتی، جو ریاست نے نہیں ہونے دی۔ ایسی ہی صورتحال سیاسی میدان میں بھی دکھائی دیتی ہے کہ اس مٹی کی حالت ایسی ہے کہ جس کے متعلق علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، اس قدر گھٹن زدہ ماحول کے باوجود بھی یہ مٹی بھٹو، بے نظیر اور عمران خان جیسے سیاسی کرداروں کو جنم دینے سے باز نہیں آتی یا یوں کہہ لیں کے قانون قدرت ہے کہ جب تک کہیں ظلم ہوتا رہے گا، اسے روکنے کے لئے کوئی نہ کوئی مسیحا منظر عام پر آتا رہے گا، ہر فرعون را موسی کے مصداق وقت کے فرعون کا ظلم روکنے کے لئے، اللہ کریم کسی نہ کسی کو موسی کا کردار ادا کرنے کے لئے بھیجتا رہے گا۔ لہذا حضرت انسان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس کرہ ارض پر امن و امان و سکون کے ساتھ زندگی اسی صورت قائم رہ سکتی ہے جب تک اسے آفاقی اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا بصورت دیگر کرہ ارض کا توازن بگڑتا رہے گا اور ظالم حکمرانوں کے خلاف شورشیں بپا ہوتی رہیں گی۔ اس وقت بھی پاکستانی سیاسی صورتحال شدید ہیجانی کیفیت کا شکار ہے کہ منصوبہ ساز اپنے تئیں جس منصوبے پر عمل پیرا ہیں،ان کا خیال تھا کہ عمران خان بھی دیگر سیاستدانوں کی طرح حصول اقتدار کے لئے، باتیں مان جائیگا اور پاکستانی مفادات کا جھانسہ دے کر، دوبارہ موقع دینے کا لالچ دے کر، شیشے میں اتارا جا سکے گا لیکن عمران خان نجانے کس مٹی کا بنا ہوا انسان ہے کہ وہ ایسے کسی منصوبے کا حصہ بننے کے لئے تیار ہی نہیں۔ عمران خان کے مخالفین کو یقین واثق تھا کہ عمران خان جیل میں دو دن نہیں گزار سکتا، بالخصوص ایسی جیل ، جس میں اسے توڑنے کے لئے، بطور سابق وزیراعظم ملنے والی مراعات چھین کر، سخت مصائب میں رکھ کر، اسے ہر صورت توڑ لیا جائے گا، لیکن ایسی تمام تدبیریں اور اقدامات نہ صرف الٹے پڑ چکے ہیں بلکہ عمران خان نے اپنی ثابت قدمی و استقامت کے ساتھ اپنے عزم حقیقی آزادی پر مہر تصدیق ثبت کروا لی ہے کہ اس کے مخالفین کا ریکارڈ اس کے برعکس ہے کہ شاہانہ اسیری کے باوجود بھی وہ ’’ ڈیل‘‘ کرکے اس سے کہیں کم وقت میں بیرون ملک ’’ فرار‘‘ ہوئے ہیں، جبکہ عمران خان ’’ ڈیل‘‘ کے لئے ملنے والے تمام پیغامات پر ایک ہی جواب ’’ قطعا نہیں ؍ABSOLUTELY NOT‘‘ دے رہا ہے۔ آج حالات ستر کی دہائی والے بھی نہیں ہیں کہ آج میڈیا ہائوسز پر کم لیکن سوشل میڈیا پر صحافی ڈٹے ہوئے ہیں، کہ جو سچ ہے وہ اسے دکھا رہے ہیں گو کہ اس سچ کو میڈیا ہائوسز دکھانے کا حوصلہ و جرات نہیں رکھتے جبکہ فری لانسرز کے لئے پالیسی یا مفادات کے نام پر یا ملازمین کے روزگار کے حوالے سے ( گو کہ بیشتر صحافیوں کو مشاہرہ نہیں ملتا، ویج ایوارڈ کو خاطر میں نہیں لایا جاتا) ایسی کوئی قدغنیں نہیں لہذا وہ رپورٹنگ کے حوالے سے آزاد ہیں، تاہم ان کی سیاسی وابستگی اپنی جگہ ہے۔ ویسے حقیقت بھی یہی ہے کہ اب پاکستان کی وفاقی سیاسی جماعت بلا شرکت غیرے تحریک انصاف ہی سمجھی جاتی ہے، کسی کے آنکھیں بند کرنے سے حقیقت بدل نہیں سکتی، جس کا مظاہرہ بھی بارہا ہو چکا اور جس کا ادراک عمران کے مخالفین کو بخوبی ہے لیکن بقول مریم نواز جو بات ہو چکی ہے، اس پر کوئی بحث نہیں ہو سکتی لہذا فارم 47کی حکومت بھرپور ڈھٹائی کے ساتھ قبول ہے۔ بہرکیف عمران خان پر مقدمات کی بھرمار کے باوجود، نہ زیادہ دیر اسیر رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی میدان سے باہر کیا جا سکتا ہے تو دوسری طرف عالمی دباؤ میں ہر آنے والے دن شدید اضافہ متوقع ہے تو تیسری طرف عمران ہے جو کسی بھی طور ڈیل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ مقدمات کے فیصلے میرٹ پر چاہتا ہے، باعزت رہا ہونا چاہتا ہے تاہم مذاکرات کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے بھی اپنی شرائط پر اس وقت آمادہ ہوا ہے، جب اسے یقین ہے کہ نہ اس کی شرائط مانی جائیں گی اور نہ مذاکرات کا کوئی منطقی نتیجہ نکلے گا، لیکن اتمام حجت پوری کر دی گئی ہے۔ عمران خان کو سلاخوں کے پیچھے رکھنے کی خواہش اور اسے سیاسی میدان سے دور رکھنے والوں سے، متوقع امریکی کابینہ کے ایک رکن کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے، جو فردا فردا ہر شخص کو ’’ ایکس‘‘ پر آڑے ہاتھوں لے رہا ہے، جب کابینہ کا عملا رکن بن گیا، تو کیا اس کے سامنے پاکستان کو امریکی وینٹی لیٹر پر سمجھنے، کہنے اور لٹانے والے مزاحمت کر پائیں گے؟؟ یہ حالات اشارہ کر رہے ہیں کہ ’’ مٹھی کھولنی پڑیگی‘‘ سے شروع ہونے والی توقعات اب’’ مٹھی کھلنے کو ہے!!! ‘‘ تک پہنچ رہی ہیں، باقی واللہ اعلم بالصواب

جواب دیں

Back to top button