سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر کراچی پانی سے محروم

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
کراچی سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے لیکن اب نہ یہاں روشنی اور نہ پانی۔ کراچی کے شہری بجلی اور پانی کو ترس رہے ہیں۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور اقتصادی مرکز بھی، اور کئی دہائیوں سے پانی کی قلت جیسے سنگین مسئلے کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف شہری زندگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ سماجی اور اقتصادی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ بن چکا ہے۔
کراچی میں پانی کی فراہمی کا مسئلہ نوآبادیاتی دور سے ہی چلا آ رہا ہے۔ 1947ء میں پاکستان کے قیام کے وقت کراچی کی آبادی تقریباً چار لاکھ تھی اور پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دریائے سندھ اور ملیر ندی پر انحصار کیا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا اور1980ء کی دہائی تک یہ مسئلہ شدت اختیار کر گیا۔ اس دوران حکومت نے کئی منصوبے شروع کیے تھے جن میں حب ڈیم اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (KWSB)کی تشکیل شامل ہیں لیکن ان منصوبوں کی افادیت بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ کم ہوتی چلی گئی۔
کراچی میں پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے ’’ کے۔ فور‘‘ منصوبہ 2005ء میں شروع کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کا مقصد دریائے سندھ سے کراچی کو اضافی پانی فراہم کرنا تھا لیکن 19سال گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا۔ حالیہ دنوں میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس منصوبے کی جلد تکمیل کا عندیہ تو دے دیا ہے لیکن اس کے مکمل ہونے کے بعد بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا یہ منصوبہ شہریوں کی موجودہ اور مستقبل کی ضروریات کو پورا کر سکے گا۔
کراچی میں پانی کی قلت کی بنیادی وجوہات میں بغیر منصوبہ بندی کے بڑھتی ہوئی آبادی، کچی آبادیوں کا پھیلا اور حکومتی اداروں کی نااہلی شامل ہیں۔ بڑے پیمانے پر پانی کی چوری، ہائیڈرنٹ مافیا اور ٹینکر مافیا جیسے مسائل نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ کچی آبادیوں میں رہنے والے افراد کو پانی حاصل کرنے کے لیے مہنگی قیمتیں ادا کرنی پڑتی ہیں جو شہریوں میں سماجی عدم مساوات کو بڑھاتی ہیں۔
جماعت اسلامی کراچی نے پانی کی کمیابی پر احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پانی کی فراہمی نلکوں کے ذریعے یقینی بنائی جائے اور ٹینکر مافیا کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یہ مطالبہ عوامی مسائل کو اجاگر کرتا ہے اور حکومت پر دبائو ڈالنے کی ایک موثر کوشش ہے۔
کراچی میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں:
بغیر منصوبہ بندی کے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے شہر سے باہر نئی رہائشی اسکیموں کی تشکیل ضروری ہے۔
موجودہ وسائل کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ نئے ڈیمز اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تعمیر پر توجہ دی جائے۔
ہائیڈرنٹ اور ٹینکر مافیا کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ پانی کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائی جا سکے۔
پانی کے ضیاع کو روکنے اور اس کے مثر استعمال کے لیے عوامی شعور بیدار کیا جائے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کراچی میں پانی کی کمیابی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لیے جامع اور ہمہ جہت حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ حکومت سندھ کی موجودہ کاوشیں اگرچہ امید افزا ہیں لیکن ان کا بار آور ہونا منصوبوں کی بروقت تکمیل اور شفافیت پر منحصر ہے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ حکومتی اقدامات اور عوامی دبائو کے ذریعے کراچی کے شہریوں کو اس بنیادی ضرورت کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔
( ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے، آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.comپر رابطہ کیا جاسکتا ہے)۔





