Column

میزائل پابندیاں، امریکی ہدف خان کی رہائی

تھرڈ امپائر
تحریر: محمد ناصر شریف
پاکستان میں امریکی مداخلت کے ہمیشہ سے ہی گہرے اثرات برآمد ہوئے ہیں، جو کئی دہائیوں تک قوم بھگتتی رہی ہے۔ ملک میں کئی قوتیں دوسرے ممالک کے مفادات کے تحفظ میں لگی رہتی ہیں ذاتی دوستیاں بھی ممالک کے حالات کو بہتر اور خراب کرنے میں کارگر ثابت ہوتی ہیں، گزشتہ دنوں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل نے امریکی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر بات کرنے کی تیاری کی ہوئی ہے۔ رچرڈ گرینل نے کہا کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل ملکوں سے مختلف انداز میں ڈیل کی جاتی ہے۔ رچرڈ گرینل نے کہا کہ گزشتہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس وقت کے پاکستانی سربراہ حکومت ( یعنی عمران خان ) سے بہترین تعلقات تھے۔ پاکستان کی جیل میں قید رہنما ٹرمپ کی طرح سیاست میں آئوٹ سائیڈر تھے۔ کامن سینس کی بات کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے۔ ان پر ویسے ہی الزامات ہیں جیسے ٹرمپ پر تھے۔ ترجمان محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے پیچیدہ گفتگو کی۔ اصل بات یہی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے۔ پاکستان کے میزائل پروگرام پر لگائی گئی امریکی پابندیوں کو بادی النظر میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ رچرڈ گرینل کے انٹرویو میں بھی پاکستان کے میزائل پروگرام کی بجائے عمران خان کی رہائی کو زیادہ فوکس کیا گیا ہے جس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان کے میزائل پروگرام پر لگائی گئی پابندیوں کا مقصد دراصل پاکستان کی ریاست اور اس کے اداروں کو دبائو میں لا کر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی راہ ہموار کرنا ہے۔
ادھر پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے رچرڈ گرینل کے بیان پر ردعمل میں کہا کہ امریکا اور یورپی یونین سمیت پوری دنیا اس وقت پاکستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھا رہی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، جب بھی جس ملک میں انسانی حقوق پامال ہوں گے، سویلین کے ملٹری ٹرائل جیسے غیر قانونی اقدام ہوں گے، دنیا میں اس پر آواز اٹھے گی۔ رچرڈ گرینل کے حوالے سے کہوں گا کہ جب بھی کوئی پاکستان میں 9مئی کے حوالے سے، 26نومبر کے قتل عام کے حوالے سے، سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے حوالے سے اور خاص طور پر عمران خان کی رہائی کے حوالے سے آواز اٹھائے گا تو ہم اس کا شکریہ ادا کریں گے۔ یہ اس بات کہ دلیل ہے کہ ہم جو بات کہہ رہے ہیں دنیا اس کی تائید کرتی ہے۔
اول تو پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکی پابندی کا کوئی جواز نظر نہیں آتا، پاکستان کی طرف سے یہ تمام تر تیاریاں خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے اور اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے کی جاتی ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت کے مہلک ہتھیار بالخصوص جوہری ہتھیار نہ صرف غیر محفوظ ہیں بلکہ بھارت ان میں مسلسل اضافہ کر کے خطے میں طاقت کا توازن بھی بگاڑتا نظر آتا ہے جس کے لیے اسے امریکا کی بھرپور آشیرباد حاصل ہے۔ امریکا کا یہ دہرا معیار ہی خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کا باعث بن رہا ہے۔ جہاں تک بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا تعلق ہے، وہ سراسر پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، ان کے خلاف دائر مقدمات کا آئین و قانون کے تحت جائزہ لیا جا رہا ہے اور قانون کے تحت ہی انھیں عدالتوں کی طرف سے کئی مقدمات میں ریلیف بھی دیا جا چکا ہے، لہٰذا ان کی رہائی یا قید کا فیصلہ پاکستان کی مجاز عدالتیں ہی کریں گی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی پریس کانفرنس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پاک فوج 9مئی سے جڑے منصوبہ سازوں اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے کمربستہ ہے اور وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ جو دوغلی سیاست کا پرچار کرتے ہیں میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ جو اہلکار شہید کیے گئے کیا، وہ اس ملک اور صوبے کے شیردل جوان نہیں تھے؟۔ کوئی لیڈر سمجھنے سے قاصر ہو، کوئی فریق اپنی مرضی مسلط کرنے پر تلا ہو تو اس سے کیا بات کی جائے اگر ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو دنیا میں کوئی جنگ نہیں ہوتی، اس تمام صورتحال کے باوجود کوئی لیڈر یہ کہے جب کہ وہ اس صلاحیت سے عاری ہے کہ اپنی غلطی سے سیکھے اور سمجھے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے تو ایسے رویوں کی قیمت قوم اپنے خون سے چکاتی ہے اور ہم چکا رہے ہیں۔ بات چیت کا بیانیہ بنانے اس پر سیاست کھیلنے کے بجائے بہتر طرز حکمرانی پر توجہ دینی چاہیے اب وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی پر سیاست نہ کی جائے۔
ویسے امریکی پابندیوں کے ممکنہ اثرات پر نظر ڈالیں تو یہ پابندیاں جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کو محدود کر سکتی ہیں، اقتصادی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہیں، پاکستان کے اسٹریٹجک پروگرام کو پڑوسی ممالک بالخصوص بھارت کے خلاف ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ پابندیاں علاقائی طاقت کا توازن بگاڑ سکتی ہیں۔ پابندیاں امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو کشیدہ کر سکتی ہیں، یہ ممکنہ طور پر سفارتی اور اقتصادی تعلقات کو متاثر کر سکتی ہیں۔ مجموعی طور پر پابندیوں کے پاکستان کی معیشت، علاقائی استحکام اور بین الاقوامی تعلقات پر اہم اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔
ادھر پاکستان محسوس کرتا ہے کہ امریکا بھارت کی اسی طرح کی صلاحیتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اسٹریٹجک پروگرام کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنا رہا ہے، جس سے تعصب واضح ہو رہا ہے۔ پابندیاں طاقت کے علاقائی توازن کو متاثر کریں گی، جس سے بھارت کو فائدہ ہوگا۔ ان پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے تعصب اور علاقائی عدم توازن ہندوستان اور پاکستان کے درمیان موجودہ کشیدگی کو بڑھا سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر عسکریت پسندی اور تنازعات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ پابندیاں امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو کشیدہ کر سکتی ہیں، جو حالیہ برسوں میں انسداد دہشتگردی تعاون اور افغانستان جیسے مسائل کی وجہ سے پیچیدہ ہوچکے ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ میزائل پروگرام سے متعلق پاکستان کے اداروں پر امریکی پابندیوں کا پاکستان کی اسٹریٹجک صلاحیتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ پاکستان ٹیکنالوجی اور پرزہ جات کے لیے متبادل سپلائرز تلاش کر سکتا ہے، ممکنہ طور پر چین، روس یا ترکی جیسے ممالک سے مدد لے سکتا ہے۔ پاکستان میزائل ٹیکنالوجی میں اپنی مقامی صلاحیتوں کو فروغ دے رہا ہے، جس سے اس کا غیر ملکی سپلائرز پر انحصار کم ہوگا۔ عام طور پر پابندیاں مخصوص اداروں کو نشانہ بناتی ہیں، لیکن پاکستان کا اسٹریٹجک پروگرام مختلف تنظیموں میں پھیلا ہوا ہے، جس سے اسے مکمل طور پر خلل ڈالنا مشکل ہوگا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان کو ماضی میں اِسی طرح کی پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کرنے کا تجربہ ہے۔
پابندیوں کے الٹا نتیجہ خیز اثرات بھی ہوسکتے ہیں، جیسے یہ پابندیاں پاکستان کو مزید چین کے مدار میں دھکیل سکتی ہیں، اور ان کی اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنا سکتی ہیں اور اپنی اسٹریٹجک صلاحیتوں کو فروغ دینے کے پاکستان کے عزم کو تقویت دے سکتی ہیں۔ پاکستان کی اسٹریٹجک صلاحیتوں پر محدود عملی اثر پڑے گا تاہم پاکستان کو پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مزید اھم اقدامات اٹھانے پڑیں گے ملک کی تمام اکائیوں کو متحد ہونا پڑے گا۔پاکستان ممکنہ طور پر اپنی اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنانے اور خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے چین کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button