Column

محترمہ بے نظیر بھٹو: ’’ تیری مثال اس شمع جیسی تھی جسے تیز ہوائوں میں رکھ دیا گیا تھا‘‘

تحریر: محمد عارف سعید
گزرے وقتوں کی بات ہے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی دھرتی سندھ کے ایک گھر میں ایک کمسن بچی اپنے بڑے سے گھر کے لان میں کھیل کود میں مشغول تھی، گھر کے صحن میں لگے ہوئے درختوں پر خوبصورت پرندے چہچہا رہے تھے، اچانک گھر کے ایک فرد نے گن اٹھا کر درخت پر موجود پرندوں پر فائر کر دیا، فائر ایک پرندے کو لگا جو کہ زمین پر گر کر تڑپنے لگا اور تڑپتے تڑپتے دم توڑ گیا۔ کمسن بچی یہ سب کچھ برداشت نہ کر سکی اور فرط غم سے رونے لگی اور پرندے کو مارنے پر اس نے دو دن تک کھانا نہ کھایا۔ اس بات کو ایک طویل عرصہ بیت چکا، ماہ و سال گزرتے گئے، وہی کمسن بچی بعد میں پنکی سے سفر کرتے ہوئے بے بی، پھر محترمہ اور بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم کے منصب تک پہنچ گئی۔ جی ہاں محترمہ بے نظیر بھٹو، جس نے بچپن میں ایک پرندے کو گولی مارنے پر دو روز تک کھانا نہ کھایا تھا، بندوق سے نفرت کرنے والی اسی بے نظیر بھٹو کو آج سے17برس قبل راولپنڈی کی سڑکوں پر بندوق کی گولیوں سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ یہ17برس پہلے کی بات ہے 27دسمبر 2007ء کی ایک اداس شام تھی، گھر بیٹھے دل گھبرا رہا تھا، اٹھ کر باہر نکل آیا، کچھ بھی نیا نہیں تھا، بلا مقصد شہر کی سڑکوں پر مٹر گشت کے بعد قدم گھر کو پلٹے تو شہر کے چوک میں سے گزرتے ہوئے پان سگریٹ کے ایک کھوکھے پر لوگوں کا جھمگٹا نظر آیا۔ دیکھ کر قدم غیر ارادی طور پر ر ک گئے، قریب جاکر دیکھا تو لوگ ریڈیو کی جانب کان لگائے کچھ سن رہے تھے، تھوڑا سا غور سے سنا تو ریڈیو پر کوئی غمناک آواز میں کہہ رہا تھا آج راولپنڈی کی سڑکوں پر ایک اور بھٹو مار دیا گیا ہے!!! محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا ہے ، میں نے سر پکڑ لیا یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ میرے ملک پاکستان کو کس کی نظر لگ گئی ہے؟؟ میری پاک سر زمین ۔۔۔۔۔۔۔
ایک لمحے کو گویا سناٹا سا چھا گیا قدم بوجھل ہو گئے، کسی نہ کسی طرح گھر کی جانب قدم بڑھائے، گھر پہنچ کر ٹی وی آن کیا تو معلوم ہوا کہ دنیا ہی بدل چکی تھی، سندھ سے سری نگر، جہانیاں سے جوہانسبرگ تک، دنیا ماتم کناں نظر آئی، چند گھنٹے قبل ہنستی مسکراتی بھٹو کی بے نظیر بیٹی گولیوں کی نظر ہو چکی تھی۔ پیروں تلے سے زمین کھسکتی محسوس ہوئی، بے اختیار کرسی پر نیم دراز ہو گیا۔ دماغ سن ہو چکا تھا، نہ جانے کب لائٹ آف ہو گئی تھی۔ کافی دیر سوچوں میں گم بے سدھ بیٹھے رہنے کے بعد اٹھ کر کھڑکی سے باہر دیکھا تو میرا شہر جہانیاں اندھیروں میں ڈوبا نظر آیا، دور کسی دکان پر ایک چھوٹا سا دیا ٹمٹما رہا تھا، جسے دیکھ کر میرا ذہن کئی برس پیچھے پلٹ گیا۔ 31اگست 1997ء کو ملک برطانیہ کی شہزادی لیڈی ڈیانا جو کہ ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہو کر چل بسی تھی، اس کے مرنے پر لاکھوں دلوں پر یہ خبر بجلی بن کر گری تھی، لیڈی ڈیانا کی تدفین کے مناظر سی این این اور بی بی سی سمیت دنیا بھر کے میڈیا نے براہ راست نشر کئے، جسے بلاشبہ کروڑوں ناظرین نے دیکھا، اس کی الوداعی رسومات ادا کرتے ہوئے برطانیہ کا معروف پاپ سنگر ایلٹن جان بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا تھا اور بے ساختہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ پاپ سنگر ہونے کے باوجود اس نے لیڈی ڈیانا کی الوداعی رسومات کے موقع پر چرچ میں ایک ایسا المیہ گیت گایا تھا کہ جس نے کروڑوں لوگوں کو اشک بار کر کے رکھ دیا تھا۔ اس کے گیت کے چند الفاظ کچھ یوں تھے کہ ’’ اے انگلستان کے گلاب الوداع ‘‘، پاپ سنگر ایلٹن جان لیڈی ڈیانا کی روح کو مخاطب کر کے مزید کہتا ہے کہ ’’ تیری مثال اس شمع جیسی ہے جسے تیز ہوائوں میں رکھ دیا گیا ہو ‘‘۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی مثال بھی تو ایک شمع جیسی تھی جو کہ وطن عزیز پاکستان میں1986 ء کو آمریت کی پیدا کردہ تاریکیوں کو ختم کرنے کیلئے آئی تھیں، جہاں پاکستانی قوم نے ان کا بھرپور استقبال کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کسی اسلامی ملک میں جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ انہیں پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کے ساتھ یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ وہ عمر کے اعتبار سے بھی پہلی وزیر اعظم تھیں جو کہ صرف 35برس کی عمر میں اس عہدے پر فائز ہوئی تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے خاندان کی تیسری فرد تھیں جن کی زندگی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو 1979ء میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا جبکہ ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو 1996ء میں انہی کے دور حکومت میں گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ مجھے بیتے ہوئے برسوں کی ایک ایک بات یاد آرہی ہے جب27دسمبر 2007ء کی شام ایک دوست نے مجھے کہا تھا کہ آج ایک اور بھٹو شہید کر دیا گیا ہے، دوست کا کہنا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل معمولی بات نہیں، یہ قتل بالکل اسی طرح تھا جس طرح پاکستان کے سابق وزیر اعظم قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کیا گیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل بالکل اسی طرح تھا جس طرح بھارت میں اندرا گاندھی کو قتل کیا گیا تھا، جس طرح امریکہ میں صدر کینیڈی کا قتل ہوا تھا۔ مجھے یاد آرہی ہے 27دسمبر2007ء کی وہ اداس شام جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی خبر منظر عام پر آئی تھی۔ یاد آرہا ہے ٹی وی سکرین پر دیکھا گیا مجھے وہ منظر جب لوگ لاڑکانہ شہر میں دیوانہ وار محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر نوحہ کناں تھے۔ عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی دھرتی پر جنم لینے والی اس بیٹی کو قتل کر دیا گیا، وفاق کی علامت، چاروں صوبوں کی زنجیر ٹوٹ گئی تھی، وہ صرف ایک فرد نہیں تھی، ایک عورت نہیں تھی، اس سے جتنا بھی اختلاف ہو، اس پر کرپشن اور دروغ گوئی کے جتنے بھی الزامات تھے، اس بات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر کھلے دل سے سوچا جائے تو وہ ایک لیڈر تھی، جسے ایک اسلامی ملک کی پہلی وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل تھا، وہ ایک عورت تھی، ایک قائد تھی، ایک سوچ تھی، وہ عوام کی ملکہ تھی، جو کہ ملک پہ قربان ہو گئی۔
میرے کانوں میں برطانوی پاپ سنگر ایلٹن جان کا وہ المیہ گیت ابھی تک گونج رہا ہے جو کہ اس نے برطانیہ کی ملکہ لیڈی ڈیانا کی موت پر اس کی آخری رسومات کی ادائیگی کے موقع پر گایا تھا ’’ اے انگلستان کے گلاب الوداع ‘‘ تیری مثال اس شمع جیسی تھی جسے تیز ہوائوں میں رکھ دیا گیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید بھی تو ملکہ تھیں، سندھ کی، پاکستان کے عوام کی ملکہ ۔
’’ اے پاکستان کے گلاب الوداع‘‘ تیری مثال اس شمع جیسی تھی جسے تیز ہوائوں میں رکھ دیا گیا تھا۔

جواب دیں

Back to top button