خوش اخلاقی

کالم :بزمِ درویش
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
وہ پچھلے بیس دن سے لگا تار میرے پاس آرہا تھا، وہ ہر روز آتا آرام سکونت تحمل اور مستقل مزاجی سے بیٹھا رہتا، چار پانچ گھنٹے کے بعد ایک ہی درخواست نما بات کرتا، میں اس کو ٹال دیتا۔ اور وہ واپس چلا جاتا، لیکن اگلے دن وہ پھر نئے ولولے جوش اور مستقل مزاجی سے آجاتا، اسے کسی بھی قسم کی جلد بازی نہ ہوتی، نہ وہ بے قرار ہو تا، نہ جلدی ملنے کی کوشش کرتا، آنے جانے والے لوگوں کو دیکھتا رہتا، میری نظر جب اس کی نظر سے ٹکراتی اس کی آنکھوں میں آشنائی کی چمک تیز ہو جا تی اور چہرے پر دلنواز تبسم پھیل جاتا، وہ ہر بار آکر ایک ہی بات کی التجا کرتا اور میں ہر بار انکار یا ٹال دیتا، لیکن مجھے روزانہ حیرت ہوتی کہ میرے انکار یا ٹالنے سے اس کے ہونٹوں پر حرف شکایت تو دور کی بات ہے اس کے چہرے پر ناگواری کا ہلکا سا عکس بھی نہ ہوتا، کسی کو اتنی بار انکار کیا جائے اور وہ بار بار آئے، ایسی خوش اخلاقی اور شفیق تبسم، میری آنکھیں آج سے پہلے ایسے کسی بھی انسان یا منظر سے نا آشنا تھیں۔ اس کی آنکھوں میں مریم کی سی پوترتا اور ہونٹوں کا دلنواز تبسم میں آہستہ آہستہ اس سے متاثر ہو تا جا رہا تھا، کیونکہ شفیق تبسم اور خوش اخلاقی ایسا وصف خاص ہے جو کسی کی بھی شخصیت کو بہت جا ندار، پر اثر اور سورج سے بھی زیادہ روشن بنا دیتا ہے اور اگر ایسے نایاب انسانوں کے پاس کردار کی پختگی کا زیور بھی دستیاب ہو تو پھر سیم و زر کے انبار بھی ایسے لوگوں کو صراطِ مستقیم سے نہیں ہٹا سکتے۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی نہ تو اِن کی آنکھوں کی پتلیاں کانپتی ہیں اور نہ ہی اِن کے پا ئے استقلال میں لغرش آتی ہے۔ اِن خوبیوں کے ساتھ اگر اعلیٰ ظرفی کی بھی آمیزش ہو جائے تو کیا بات ہے، کیونکہ اعلیٰ ظرفی ایک ایسا جوہر ہے کہ جس سے کئی مزید جوہر بھی پھوٹتے ہیں اور پھر اِن کی وجہ سے ہی انسانی کر دار ایک تنا آور درخت بن جا تا ہے۔ اور پھر دولت کی چکا چوند اور دولت کے ذخائر بھی ایسے لوگوں کو بدل نہیں سکتے اور ما دیت کے اِس دور اور آسائشوں کے ہجوم میں بھی ایسے لوگ تقویٰ کے ہمالیہ پر جلوہ افروز نظر آتے ہیں ۔ آپ کی زندگی میں بے شمار ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ سالوں سے آپ اکٹھے رہ رہے ہوتے، ایک ہی گھر محلہ یا دفتر آپ روزانہ ملتے ہیں، گھنٹوں باتیں بھی کرتے ہیں، لیکن اجنبیت کی دیوار قائم رہتی ہیں، آپ جب بھی ایسے لوگوں سے ملتے ہیں تو ایک ڈرِل سے گزرتے ہیں، وقت گزاری سالوں ملنے والے اگر آپ کی زندگی سے چلے جائیں تو آپ کو ان کی کمی کا احساس تک نہیں ہو تا کہ کوئی آپ کی زندگی میں پچھلے کئی سال سے اتنے بھر پور طریقے سے تھا، برسوں کے ساتھ کے بعد بھی آپ کا رشتہ استوار نہیں ہوتا، آپ اس کے جانے کے بعد اس کی کمی feelنہیں کرتے، یعنی یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ ان کا ہو نا یا نہ ہو نا ایک ہی بات ہے، نہ تو ان کے ہو نے سے آپ کی زندگی بھر پور اور خوشگوار ہو تی ہے اور نہ ہی ان کے جا نے سے آپ کسی اداسی یا کمی کا شکار ہوتے ہیں، اور بعض اوقات کوئی آپ کی زندگی میں چند لمحوں کے لیے آتا ہے، چند گھڑیاں گزارنے اور چند با توں کے بعد ہی آپ اس کی شخصیت اور قرب کے سحر میں جکڑے جاتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ سالوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں، یا آپ کو سالوں سے اِسی کی تلاش تھی اور اکثر بے ساختہ آپ کے لبوں سے نکل جاتا ہے۔
قسمت سی بس ایک ہی گلا ہے
تو اتنی دیر سے کیوں ملا ہے
ایسے ہی شفیق لوگ ہوتے ہیں، جن کی کیمسٹری اور دماغ کی فریکوئنسی آپ سے اتنی زیادہ ملتی ہے کہ آپ بار بار ایسے لوگوں کے پاس جانا، ان سے باتیں کرنا اور خوشگوار لمحات ان کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔ آپ کو جیسے ہی پتہ چلتا ہے کہ اس کا فون آیا ہے یا وہ آپ کے دروازے پر کھڑا ہے یا وہ آپ سے ملنے آیا ہے تو اس کے تصور سے ہی آپ کے چہرے پر خوشی اور مسکراہٹ کا نور پھیل جا تا ہے۔ آپ کسی مشکل یا تکلیف میں ہوں تو آپ کا دل کر تا ہے کہ کسی طرح آپ اس کے پاس چلے جائیں یا وہ آپ کے پاس آجائے۔ آپ اپنے ملنے والوں پر نظر دوڑائیں تو آپ کو بھی اپنی زندگی میں ایسے مثبت لوگ نظر آئیں گے، ایسے با کردار لوگ ہی کسی بھی معاشرے کا اصل حسن ہوتے ہیں۔ ان کے کردار اخلاق اور شخصیت سے ایسی مقناطیسی لہریں یا کشش چاروں طرف پھیلی ہے کہ جو بھی ان کے قریب آیا پھر انہی کا ہو کر رہ گیا۔ ایسے لوگوں کی قربت کا ایک لمحہ ساری عمر کے ساتھ میں بدل جاتا ہے، کسی کی ایک نظر ساری عمر کے لیے آپ کو اپنا اسیر کر لیتی ہے، پھر آپ کسی اور کی طرف دیکھتے بھی نہیں اور اگر آپ ایسے خوبصورت خوش گفتار اور خوش اخلاق لوگوں سے دور بھی ہوں تو کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا تصور اور ان کی باتیں یاد کر کے ہی آپ کے چہرے سے مسکراہٹوں کے پھول جھڑنے لگتے ہیں۔ آپ گوشہ تنہائی میں اس کی باتیں یاد کر کے خودبخود ہی مسکراتے رہتے ہیں، موجودہ مادیت پرستی میں غرق اس دور میں ایسے نایاب انسان اب بہت کم ہو گئے ہیں یا مادیت پرستی کے عفریت نے ایسے لوگوں کو نگل لیا ہے اور اگر کبھی بھولا بسرا ایسا نایاب انسان آپ کی زندگی میں آجائے تو یقین جانئے آپ کا اس کے پاس ہی زندگی گزارنے کا دل کر تا ہے۔ ایسے لوگوں کی قربت کا ایک ایک لمحہ خوب enjoyکرتا ہے، دل کرتا ہے وقت کا بے راس گھوڑا تھم جائے، وقت ساکت ہو جائے اور ہم اس کی قربت کو ہی انجوائے کرتے رہیں۔ خو ش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو ایسے لوگوں کا قرب اور ساتھ نصیب ہو تا ہے، ایسے با کردار خوب سیرت لوگ کسی بھی معاشرے کا حقیقی حسن ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے ہی معاشرے میں زندگی کی چنگاریاں اب تک باقی ہیں، ورنہ ما دیت پرستی کی عالمگیر تحریک کب کا انسانوں کو نگل چکی ہے۔ اب تو جا نور ہی باقی بچے ہیں، جو دن رات دولت کے پیچھے دوڑتے ہیں، کھایا پیا افزائش نسل کا حصہ بنے اور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے۔ با کردار لوگوں کے وجود سے نرم اور ٹھنڈی اخلاق کی جو روشنیاں اور خوشبوئیں پھوٹتی ہیں، ان کی وجہ سے ہی معاشرے کے خدوخال ابھی تک قائم ہیں۔ ایسا ہی ایک شفیق بردبار کمپلیکس فری شخص کئی دنوں سے میرے پاس آرہا تھا۔ اس کی ذات کے عجز نے مجھے متاثر کر دیا تھا۔ میں نے اس قدر سادہ آدمی نہ دیکھا تھا کہ وہ جب بھی مجھ سے بات کرتا اس کے چہرے پر ادب اور پاکیزگی کا رنگ گہرا ہو جاتا، اس کی گفتگو جذبہ محبت اور عقیدت سے سرشار ہوتی۔ اس کی گفتگو میں التجا اور خلوص کی ایسی آمیزش ہوتی کہ مجھے انکار کرنے میں مشکل پیش آتی۔ وہ ہر روز آکر ایک بات کرتا کہ میں نے آپ کو تقریبا دو سو کلو میٹر دور ایک چھوٹے شہر میں لے کر جا نا ہے، کیونکہ میں آپ کو جو دکھا نا چاہتا ہوں وہ میں یہاں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا اور اس کے لیے آپ کو ہی میرے ساتھ جانا ہو گا۔ کسی دوسرے شہر وہ بھی اتنی دور میرے لیے ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے اور میں اکثر دوستوں کو انکار ہی کرتا ہوں، لیکن اس بندے کی مستقل مزاجی اور خوش اخلاقی سے آخر کار میں زیر ہو گیا اور کہا کب جانا ہے، تو اس نے کہا جب آپ جانا پسند کریں، تو میں نے ایک ہفتے بعد کا اس کو وقت دیا، میرے ہاں کہنے پر اس کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا، وہ بار بار میرا شکریہ ادا کر رہا تھا، اس کے چہرے پر وہ ممنونیت اور تشکر کی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی، اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ اب ہم نے طے کیا کہ کس طرح فلاں دن آئے گا اور کتنے بجے ہم لاہور سے نکلیں گے، تا کہ رات تک واپس آجائیں، اس نے سارا کچھ طے کیا اور مجھے سمجھا بھی دیا، لیکن جس کام کے لیے ہم جا رہے تھے وہ اس نے ابھی تک نہیں بتایا تھا اور پھر مقررہ دن ہم دونوں اس شہر کی طرف جا رہے تھے، جہاں میری زندگی کا بہت بڑا سبق اور حیران کن منظر ہمارا انتظار کر رہا تھا۔





