’’ میثاق جمہوریت‘‘

شہر خواب۔ ۔۔۔
صفدر علی حیدری
آپ کو ’’ میثاق جمہوریت ‘‘ یقیناً یاد ہو گا۔ یہ معاہدہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک قرار داد تھی۔ قرار داد کیا تھی سیدھا سادہ مک مکا تھا۔ یہ 2006ء کا ذکر ہے۔ تب مشرف کے آمرانہ سائے ملک ہر ہر سو چھائے ہوئے تھے۔ ہر اس اسی کا طوطی بولتا تھا۔ وہ ہر سیاہ سفید کا مالک تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مستند تھا اس کا فرمایا ہوا۔ اس کی ہر بات حکم کا کا درجہ پا لیتی، ہر خواہش حقیقت کا روپ دھار لیتی تھی۔ مشرف کو پتہ چل چکا تھا کہ اقتدار گڈے گڑیا کا کھیل نہیں ہے۔ مشرف کی ساری غلطیاں ایک طرف، اور اقتدار کو طول دینے کی خاطر ان دونوں سیاسی جماعتوں کو اس ملک میں مسلط کرنا دوسری طرف۔ یہ جرم یقیناَ نا قابل معافی ہے۔
اس معاہدے میں طے ہوا تھا کہ’’ اندروں اندروں کھائی جائو، اتوں رولا پائی جائو ‘‘، دونوں کرپٹ جماعتوں نے یہ طے کر لیا کہ اس سے پہلے کہ کوئی تیسرا فریق میدان آئے یا فوج تختہ الٹ دئیے، آپس میں باری باری کھیلنے اور لوٹ مار کرنے کا معاہدہ کر لیا جائے۔ گویا اب وہ ایک دوسرے کی مخالفت تو کریں گے مگر اس حد تک آگے نہیں جائیں گے کہ کوئی دوسرا فائدہ اٹھا لے۔ کچھ بد خواہوں نے اسے میثاق جمہوریت شاید مذاق مذاق میں کہا تھا مگر وقت نے ثابت کیا کہ یہ سچ میں ’’ مذاق جمہوریت‘‘ ہی تھا۔ بھلا پاکستان جیسے ملک میں اس معاہدے کی کیا تک بنتی تھی۔ جہاں جمہوریت نہ ہو وہاں کیسا میثاق ؟۔ یہی وہ وقت تھا جب اس وقت سیاست کے ایک نو وارد نے ان دونوں جماعتوں کو ایک سکے کے دو رخ کہا تو اکثر لوگوں کو یہ بات بھی مذاق ہی معلوم ہوئی تھی مگر آج سب نے دیکھ اور مان لیا کہ مذاق جمہوریت والی بات بھی سولہ آنے سچ تھی اور ایک سکے کے دو رخ والی بات بھی، آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ ہر خاندان میں کچھ ہھپھے کٹنیا ہوتی ہیں، جنہوں امن و سکون پسند نہیں آتا، سو وہ حشر اٹھاتی، شور مچاتی اور ماحول کو ناخوشگوار بناتی رہتی ہیں۔ اس کی طرح پھپھے کٹنیا سیاست میں بھی موجود ہیں اور ہر جماعت میں موجود ہیں۔ ن لیگ میں مگر ان کا تناسب کہیں زیادہ ہے۔ انہی میں سے ایک نے ایک جماعت کو تحریک انتشار کہا تو غصے کی بجائے خوب ہنسی آئی۔
سیاست میں اپنے مخالفین کو برا بھلا کہنا کوئی انوکھی بات نہیں مگر جب کسی جماعت سے مذاکرات کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہو تو تب تو ہاتھ ہولا رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ جب اسی پارٹی کا اہم شخص وزیر اعظم بن کر بھی محتاط نہیں رہ سکا تو کسی اور سے یہ امید عبث ہے۔ ایک طرف سزائیں دی جا رہی ہیں۔ ان کو مسلسل شرپسند، ملک دشمن اور ناجانے کیا کیا کہا جا رہا ہے اور دوسری جانب مذاکرات کا ڈول بھی ڈالا جا رہا ہے ۔ ان حالات میں اس کوشش کو ’’ مذاق رات ‘‘ ہی کہنا مناسب ہے۔
ایک ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں ( اور پہلا اجلاس بھی ہو چکا ہے ) اور دوسری جانب وزیر اعظم سے لے کر وزراء تک مخالف جماعت پر چڑھائی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کی ابتدا اسحاق ڈار نے کی ۔ ان کا فرمان ایسا تھا کہ جسے سن کر دیوانوں کی بھی ہنسی نکل جائے اور وہ صاحب بیان کی دماغی حالت پر شک کرنے لگیں ۔ فرماتے ہیں ہم مذاکرات کے تیار ہیں بشرطیکہ وہ دو ہزار اٹھارہ کا الیکشن ہمارے حوالے کر دیں ۔ تاریخ کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو گا کہ ایک ایسی سیاسی جماعت کا رہنما یہ سب کہہ رہا ہے جس نے ایک بھی الیکشن اپنے بل پر نہیں جیتا۔
مذاق رات پر اب کیا بات کی جائے کہ ایک طرف نو مئی کے حوالے سے سزائیں دی جا رہی ہیں۔ اور ایک مذاکرات جاری ہیں ( پہلے اجلاس میں بندے ہی پورے نہیں تھے )۔
نو مئی ڈرامے کی بدترین ناکامی پر جناب امیر کا فرمان یاد آتا ہے’’ میں نے اپنے رب کو پہچانا ارادوں کی شکست، ہمتوں کے پست ہونے اور نیتوں کے بدل جانے سے ‘‘۔
اپنی طرف سے خوب جال بچھایا گیا۔ پوری سرکاری مشینری استعمال کی گئی مگر ناکامی مقدر ٹھہری۔ اب تو نو مئی یار لوگوں کی چھیڑ بن چکی ہے ۔’’ مصنوعات ‘‘ کا بائیکاٹ بھی اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ یہ سب کیا ہے اور کس جانب اشارہ کر رہا ہے۔ صرف اور صرف شہ مات کی طرف۔ یہ مذاکرات کی شروعات ہی شہ مات کی طرف اشارہ ہے ۔
ایک آدمی اور اس کی جماعت کو توڑنے کے لیے ہر غیر اخلاقی حربہ اپنایا گیا ۔ ایک ایک پریس کانفرنس کے بدلے لوگوں کو پاک کیا گیا ۔ اس کے آدمیوں کو سیاست چھوڑنے پر مجبور کرنے کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ۔ ’’ اے ٹی ایمز‘‘ کی مدد ایک پارٹی بنائی گئی ۔ پوری فلم بنائی گئی کہ یہ سپرٹ ہٹ ہو گی مگر ہوا یہ کہ وہ ایک ہفتہ بھی نہ چل سکی اور ڈبہ بند ہو گئی ۔ پتہ چلا کہ وہ ون میں ’’ آرمی ‘‘ ہے اور’’ کلہا ای کافی اے ‘‘۔
اس کو انتخاب میں شکست دینے کے لیے پارٹی نشان چھینا گیا تو ہوا یہ کہ یار لوگ مولی اور جوتی سے ہار گئے ۔ پھر فارم 47 کے ذریعے ایک جعلی حکومت لائی گئی جس کا حشر سب کے سامنے ہے ۔
اس نظام کے چلانے والوں نے ایک شخص کو توڑنے کے لیے ہر سازش کر کے دیکھ لی ۔ نہ میدان میں مقابلہ کر سکے اور نہ سازشوں سے اسے جھکا سکے۔ جن لوگ کی امریکہ سے آئی ایک ٹویٹ سے کانپیں ٹانک جائیں اس کی طاقت پر کیا بات کی جائے ۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ایک سازش کے تحت ایک تاثر قائم کیا جا رہا ہے کہ اس کی پشت پر امریکہ کا ہاتھ ہے اور وہ اس کو چھڑوانا چاہتا ہے ۔ مذاکرات بھی اسی کے ایما پر ہو رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اب اسے اندر رکھنا اور اقتدار سے باہر رکھنا ناممکن ہو گیا ہے ۔ جلد یا بدیر اسے باہر آنا ہے۔ باقی رہا مخالفوں کا یہ ہتھکنڈا کہ اسے بد نام کر دیا جائے کہ اس کی رہائی کسی ڈیل یا ڈھیل کا نتیجہ ہے ، ہمیشہ کی طرح ناکامی سے دوچار ہو گا۔ اس کی مقبولیت کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو کہ اس کے چاہنے والے اس کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ ان کے دلوں میں اس کی محبت بجائے کم ہونے کے بڑھ جاتی ہے ۔ ن لیگ اور پی پی پی کو ایک مشورہ ہے کہ وہ نوے کی دہائی سے باہر نکل آئیں۔ یہ دو ہزار چوبیس ہے سوشل میڈیا کا دور ہے۔





