Column

سیاسی بصیرت اور حب الوطنی کا استعارہ بے نظیر بھٹو شہید

تحریر: امتیاز یٰسین
بھٹو خاندان کا ملکی و قومی سیاست میں ہمیشہ اہم کردار رہا ہے۔ اس خاندان کی سیاست ملک و ملت اور جمہوریت کے لئے قربانیوں کی خوں چکاںلازوال داستان سے عبارت ہے۔ سابق صدر و وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ان کے بیٹے شاہنواز بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو اور ان کی بڑی صاحبزادی دنیا بھر کے اسلامی ممالک کی پہلی خاتون وزیر اعظم ،پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سمیت غیر طبعی موت سے دوچار ہوئے۔21جون1953ء کو کراچی میں پیدا ہونے والی بے نظیر نے ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم دنیا کی بڑی جامعات آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹیز سے مکمل کی۔ انہوں نے پارٹی کی قیادت ایسے ناساز حالات میں سنبھالی جب ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے انقلابی لیڈر ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو ایک متنازع کیس میں عدالتی فیصلہ کے بعد تختہ دار پر چڑھادیا گیا وہ کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکن تھے جس سے زبردست سیاسی خلا پیدا ہو گیا۔فوجی حکومت کی طرف سے بھٹو خاندان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ۔قید و بند کی صعوبتیں ،نظر بندی اور جلا وطنی ان کا مقدر بن گئیں ۔بے نظیر نے بیرون ملک بیٹھ کر اپنی پارٹی کی قیادت کی،کارکنوں کو حوصلہ ،تسلّی و تشفّی دی ،مارشل لا کے خاتمہ اور جمہوریت کے قیام کے لئے بے پناہ اور مدبرانہ سیاسی جدوجہد کی۔ان نا مساعد حالات میں پارٹی کو سنبھالا دیا جب ناقدین اور بد خواہوں پریہ بات زبان زدِعام تھی کہ بھٹو کی وفات کے ساتھ ہی پارٹی بھی ختم ہو گئی ہے۔1986ء میںملک سے مارشل لا اٹھانے اورطالع آزما ضیاء الحق کی طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہونے کے بعد وہ طویل جلا وطنی کے بعد وطن واپس لوٹیں ۔چشم ِ فلک نے دیکھا کہ لاہور میں عوام کے جمِ غفیر نے ہاتھوں ہاتھ لیتی ہوئے ان کا فقید لمثال استقبال کیا جو ان کے عوامی لیڈر ہونے کی غماض تھا ۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے ملک بھر کے دورے اور جلسے کئے۔ جلسوں میںعوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر اور دیگر موزوںزمینی حقائق نے ان کی وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنے کا قبل از وقت منظر نامہ کلیئر کر دیا تھا۔عوام ان سے دلی محبت کرتی تھی ۔راقم کو یاد ہے جب وہ لیہ کے ویراسٹیڈیم آئیں تو دس ایکٹر سے زائد قبہ پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ عوام سڑکوں،مکانوں،سڑکوں،گلیوں اور قریبی درختوں پر چڑھے فلک شگاف نعرے لگاتے ان کا خطاب سننے کو بے تاب تھے ۔بہت سارے عوام کی بھیڑ تلے دبنے اور درخت عوام کا بوجھ برداشت نہ کرنے سے ٹوٹننے سے کئی کارکن زخمی ہوئے تھے ۔ عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد2دسمبر1988ء کو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔ وہ پینتیس سال کی عمر میں پاکستان کی پہلی جبکہ دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنی۔ انہوں نے گیارہویں وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا1993ء میں وہ دوبارہ ملک کی تیرہویں وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے عالمی طاقتوں سے مضبوط اور ذمہ دارانہ خارجہ پالیسی کے ذریعے پاکستان کوایک آزاد اور خود مختار ریاست ثابت کیا۔امریکہ سے دوستانہ تعلقات کو آگے بڑھایا جس سے دفاعی و اقتصادی شعبہ میں زبردست اصلاحات ہوئیں۔ ایٹمی قوت پروگرام جاری رکھنے اور نیو کلیئر صلاحیتوں کے حصول کی کاوشوں پر انہوں نے صدر بش اور امریکی ڈپلومیٹس کے اضطراب کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہیں اور خواہش پر امن مقاصد کے لئے ہیں۔ انہوں نے عالمی CTBTاور NPT معاہدوں پر دستخط کرنے کے حوالے سے یہ مضبوط موقف اپنایا اگر بھارت ان پر دستخط کرتا ہے تو پاکستان بھی تقلید کرنے میں دیر نہیں کرے گا۔ بارہ اکتوبر1999ء میں ایک اور طالع آزما نے جب جمہوری حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو بے نظیر بھٹو نے کشیدہ حالات کے پیش نظر خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی ۔عوام کو اپنی جان اور پاکستان کو اپنے ایمان سے تشبیہ دینے والی بے نظیر ایک مرتبہ پھر میثاقِ جمہوریت کے ذریعے اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو کراچی آئیں تو ان کے دشمنوں نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا ۔سانحہ کار ساز میں ایک سو ستر سے زائد کارکن اور شہری شہید ہوئے مگر یہ واقعہ بھی بے نظیر کو عوام سے دور نہ کر سکا۔ انتخابی مہم کے تسلسل میں27دسمبر2007 ء راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر سازش کے ذریعے اس وقت انہیں ٹارگٹ کر کے شہید کر دیا گیا جب وہ فقید المثال جلسہ عام سے خطاب کے بعد واپس اسلا م آباد جا رہی تھیں۔ عوام اور پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے کارکنان کے جوش و خروش کو دیکھ کر گاڑی سے باہر ہاتھ ہلا کر نعروںکاجواب اور اظہار یکجہتی کے لئے گاڑی کی چھت سے باہر نکلیں۔یوںجس کی سیاست کا فلسفہ عدم تشدد تھا خود بد ترین دہشت گردی کا شکار ہو کر اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر گئیں۔انہوں نے آخری وقت اپنے زندگی بھر کا قول سچ کر دکھایا کہ وہ عوام سے دور نہیں رہ سکتیں۔بلاشبہ ان کی لازوال قربانیوں ،ناقابل فراموش کارناموںکی قوم معترف، گرویدہ اور تاریخ کا حصہ ہے جسے کوئی بھی ملت کے دلوں سے مّحو نہیںکر سکتا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی طرح بے نظیر بھٹو کی بھی شہادت کے محرکات ،اسباب قوم کے سامنے آ سکے نہ ملزمان بے نقاب ہو سکے۔ان کی شہادت سے پاکستانی قوم ایک زیرک سیاستدان و رہنما سے محروم ہو گئے۔

جواب دیں

Back to top button