انصاف اپنا اپنا

روشن لعل
کہتے ہیں جس نے کڑواہٹ کو اپنے حلق کے اندر تک محسوس کیا ہو، شیریں ذائقہ کو اس سے بہتر کوئی اور محسوس نہیں کر سکتا۔ اسی طرح انصاف کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ انصاف کی روح کو اس سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا جسے کہ یہ علم ہو کہ ناانصافی کیا بلا ہے۔ ناانصافی کو انصاف کی ضد بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا میں کون سا ایسا شخص ہو گا جس کی یہ خواہش نہ ہو کہ زندگی کے ہر مرحلے اور معاملے میں اسے انصاف ملنا چاہیے۔ انصاف کا حصول تو ہر انسان کی خواہش ہوسکتی ہے مگر اس خواہش کے باوجود کسی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ خود ہی اپنا منصف بن جائے۔ گزرے وقتوں میں ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ مقولے کے مطابق ہر طاقتور اپنا منصف خود ہوتا تھا۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں تصور تو یہ کیا جاتاہے کہ ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا قانون عرصہ ہوا دفن ہو چکا مگر حقیقت اس تصور کے برعکس ہے۔ اصل میں جس قانون کو درگور سمجھا جارہا ہے وہ مدفون نہیں بلکہ صرف ملفوف ہوا ہے۔ اگر مختلف ملکوں کے شہریوں کے معاملات کا نظر عمیق سے جائزہ لیا جائے تو یہی نظر آئے گا کہ اس دنیا میں اب بھی کسی نہ کسی شکل میں ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ جیسا بدنام زمانہ قانون ہی نافذ ہے۔
اگر اس حوالے سے مختلف ملکوں کی بات کی جائے تو ہمارے اپنے خطے میں نظر آتا ہے کہ وہ مودی جو پاکستان کو کمزور سمجھتے ہوئے آئے روز ’’ گھر میں گھس کر ‘‘ مارنے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے ، طاقتور چین کے فوجیوں نے جون 2020 میں اس کے گھر می ںگھس کر گھونسوں، لاتوں اور ڈنڈوں سے وار کرتے ہوئے بیس بھارتی فوجیوں کی جان لے لی تھی اور بڑھک باز مودی خاموشی سے سب کچھ دیکھتا ہی رہا۔ پاک بھارت تعلقات کے معاملے میں جس طرح مودی اپنا منصف خود بننا چاہتا ہے اسی طرح چین نے خود اپنا منصف بن کر نہ صرف اپنے حق میں فیصلہ دیا بلکہ مودی کو اسے ماننا بھی پڑا۔ مودی کی حقیقت بیان کرنے کا مقصد کسی کو صحیح یا غلط ثابت کرنا نہیں، کیونکہ چین اور بھارت کے فوجیوں کی مذکورہ جھڑپ کے حوالے سے صحیح یا غلط ثابت ہونے کے لیے جس طریقہ کار پر عمل ضروری ہے وہ بھارت اور چین میں سے کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔ مختلف اقوام کے تنازعات کے حل کے لیے ویسے تو اقوام متحدہ کا ادارہ موجود ہے مگر جس ادارے کے اپنے معاملات مختلف طاقتور لابیوں کے تابع ہوں اس کے ساتھ کمزوروں کے لیے انصاف کی فراہمی کا موثر فورم ثابت ہونے کی توقعات کیسے وابستہ کی جاسکتی ہیں۔
انصاف کے ترازو میں صرف طاقتور ملکوں کا پلڑا ہی بھاری نہیں یہاں انسانوں کی طاقت بھی ان کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ ملکوں اور انسانوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ جو بھی معاشی طور پر زیادہ طاقتور ہو وہ مقناطیس کی طرح انصاف کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ یہ خصوصیت صرف انسانوں میں ذاتی طور پر نہیں بلکہ انسانوں کے گروہوں کی بھی ہے۔ اس حوالے سے یورپی ممالک، امریکہ ، کینیڈا، نیوزی لینڈ ، آسٹریلیا ور کچھ افریقی و ایشیائی ممالک میں معاشی طاقت کا استعمال صرف اس حد ہوتا ہے کہ آسود لوگ اپنے مقدمات عدالتوں میں لڑ کر میرٹ پر جیتنے کی بجائے عدالت سے باہر اپنے مخالف فریق کے ساتھ معاملات طے کر کے خود کو قانونی سزا سے محفوظ کر لیتے ہیں۔ ایشیا اور افریقہ کے اکثر ممالک میں معاملات مذکورہ ملکوں سے مختلف ہیں ۔ یہاں طاقتور انسان اور گروہ یا تو انتہائی دیدہ دلیری سے قانون کی گرفت میں آنے کے تمام راستے بند کر دیتے ہیں اور اگر کبھی کوئی معاملہ میڈیا پر زیر بحث آنے کے بعد قانون ان طاقتور انسانوں اور گروہوں تک پہنچ بھی جائے تو ان کے گھر کے دروازے سے جیل کے گیٹ تک کا فاصلہ کبھی طے نہیں ہو پاتا۔
اگر ہم اپنے ملک کی بات کریں تو انصاف کا معیار یہاں دیگر ہم پلہ ملکوں سے زیادہ کم تر نظر آتا ہے۔ قانون میں نظریہ ضرورت کے عجیب و غریب تصور کا ظہور شاید ہمارے ملک میں ہی ہوا۔ نظریہ ضرورت کے پے درپے استعمال کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل جیسے فیصلے اکثر ہمارے عدل کے ایوانوں کے گلے کی ہڈی بنے نظر آئے۔ یہاں ایک عرصہ تک بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر جمہوری حکومتوں کے خاتمے کی سازشوں کو عدالتی فیصلوں کی مہر سے جواز فراہم کیا جاتا رہا ۔ اس معاملے میں بھی نام نہاد قانون کی بجائے محرک قوتوں کی ذاتی پسند و نا پسند بنیادی کردار ادا کرتی نظر آئی۔ مہران بینک کو یہاں دن دیہاڑے لوٹا گیا مگر اس لوٹ مار کے مرکزی کرداروں کے حلفیہ بیانات کے باوجود انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی ایک طرف سے سرکتی محسوس ہوئی۔ 2008ء کے بعد کچھ میڈیا ہائوسز کی طرف سے اربوں روپے کے سیلز ٹیکس کی چوری کا بہت شور و غوغا ہوا، اس کیس میں کراچی کی ٹیکس عدالت نے ایک میڈیا ہائوس کے خلاف فیصلہ دیا جسے ایک اپیل کے ذریعے سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ، اس اپیل پر سندھ ہائیکورٹ میں سالہا سال سماعت ہوتی رہی، ایک دن خبر آئی کہ کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے، یہ محفوظ فیصلہ کبھی عوام کے سامنے نہ آسکا کیونکہ عدالت کے جس بنچ نے یہ فیصلہ محفوظ کیا تھا اس بنچ میں شامل ایک فاضل جج کے سپریم کورٹ میں ترقی پا جانے کی وجہ سے بنچ ٹوٹ گیا ۔ ویسے تو سیاستدانوں کے خلاف یہاں قانون کو زیادہ متحرک رکھا گیا مگر کسی دور میں بھی سیاسی لوگوں پر قانون کا اطلاق یکساں اور مساوی نظر نہیں آیا۔ سیاستدانوں کا ایک گروہ یہاں ہمیشہ قابل گرفت رہا مگر بے رحم میڈیا ٹرائلز کے باوجود ان کے خلاف الزامات کو عدالتوں میں ثابت کرنا ممکن نہ ہو سکا۔ دیگر سیاسی گروہوں کے لوگ یکساں الزامات کے باوجود یا تو ناقابل گرفت رہے یا گرفتاری کے بعد کسی مک مکا کے نتیجے میں ان کے لیے آسانیاں پیدا کر دی گئیں۔ ایسا ہونے میں مکروہ ترین کردار ہماری عدلیہ ادا کرتی رہی۔ ہماری عدلیہ میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج کثیر تعداد میں موجود رہے ، ایسے جج بھی آئے جنہوں نے پہلے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا اور پھر خود ہی پی سی او ججوں کے خلاف زمین آسمان ایک کر دیا، ان کے علاوہ کچھ جج پے درپے خط لکھنے کے لیے بھی مشہور ہوئے لیکن تمام قسم کے جج کم و بیش ایک جیسا کردار ادا کرتے رہے۔
مذکورہ سطور میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ ہماری اپنی اور بیرونی دنیا کی بھی کہانی ہے۔ اس حوالے سے قصہ مختصر یہ کہ انصاف اس دنیا میں ہر کہیں مختلف رنگوں میں طاقتوروں کے گھروں کا پانی بھرتا رہتا ہے۔ کسی ایک آدھ مختلف فیصلے سے یہ گہرے رنگ ہلکے نہیں ہوتے۔ یہ رنگ اسی وقت ہلکے ہونگے جب اپنے لیے اپنی مرضی کا انصاف چاہنے والا اس دنیا کا ہر طاقتور ملک، طاقتور گروہ اور طاقتور انسان اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا کہ انصاف کے حصول کی بنیاد طاقت نہیں مساوات ہونی چاہیے۔ مساوات کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی پر الزام عائد ہو تو تمام ملزموں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا جائے۔





