Column

شرمندہ

علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
ایک زمانے میں ایک بوڑھی عورت تھی جس کے پاس دو بڑے برتن تھے، جو اس نے اپنے گردن پر لٹکائے ہوئے تھے۔ ایک برتن میں دراڑ تھی جبکہ دوسرا برتن بالکل صحیح تھا اور ہمیشہ مکمل پانی لاتا تھا۔ دو سال تک، یہ روزانہ کا معمول رہا، کہ وہ عورت گھر میں صرف ایک اور آدھے برتن کا پانی لاتی۔ یقیناً، صحیح برتن اپنی کامیابیوں پر فخر کرتا تھا، لیکن دراڑ والا برتن خود پر شرمندہ تھا کہ وہ صرف آدھا کام کر سکا۔ دو سال کی اس تلخ ناکامی کے بعد، ایک دن دراڑ والے برتن نے عورت سے کہا، ’’ میں خود سے شرمندہ ہوں، کیونکہ میرے سائیڈ میں دراڑ کی وجہ سے پانی راستے میں بہہ جاتا ہے‘‘۔ عورت نے مسکرا کر کہا، ’’ کیا تم نے کبھی غور کیا کہ تمہارے سائیڈ پر راستے پر پھول کھلتے ہیں، لیکن دوسرے برتن کے سائیڈ پر نہیں؟‘‘۔ اس نے کہا، ’’ میں ہمیشہ تمہاری خامی جانتی تھی، اس لیے میں نے راستے پر پھولوں کے بیج بو دئیے ، اور ہر دن جب ہم چلتے ہیں، تم انہیں سیراب کرتے ہو‘‘۔ ‘‘ دو سالوں میں، میں نے ان خوبصورت پھولوں کو توڑ کر اپنی میز کو سجایا۔ اگر تم ایسے نہ ہوتے، تو یہ خوبصورتی نہ ہوتی جو گھر کو بابرکت کرتی‘‘۔
ایک زمانے میں ایک بہت امیر نوجوان تھا، اور اس کے والد لعل و جواہر کی تجارت کیا کرتے تھے۔ اپنے حلقہ دوست و احباب میں اس کی بات چلتی تھی اور وہ اپنے دوستوں کے ساتھ انتہائی ایثار و محبت سے پیش آتا تھا۔ بدلے میں، وہ بے مثال انداز میں اس کی عزت اور احترام کرتے تھے۔ دن گزرتے گئے، نوجوان کی والد کا انتقال ہو گیا اور خاندان بہت غریب ہو گیا۔ چنانچہ نوجوان نے اپنی خوشحالی کے دنوں کے پرانے دوستوں کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ اسے پتہ چلا کہ اس کا سب سے پیارا دوست جس کی وہ تکریم کرتا تھا، جس کے ساتھ اسے بہت پیار تھا، جو کبھی اس کی بات کو نہیں ٹالتا تھا بہت زیادہ امیر ہو چکا ہے۔ اور بہت زیادہ محلات اور جائیداد کا مالک بن چکا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے پاس اس امید سے گیا تاکہ وہ اسے کسی نوکری پر رکھ لے یا پھر اس کے حالات بہتر کرنے کا کوئی راستہ تلاش کرنے میں اس کی مدد کرے۔ جب وہ محل کے دروازے پر پہنچا تو خدام نے اس کا استقبال کیا۔ اس نے ان سے گھر کے مالک سے اپنے تعلقات اور ان کے درمیان پرانی محبت کا ذکر کیا۔ خدام گئے اور اپنے مالک کو ان کے جگری دوست کے آنے کی خبر سنائی۔ وہ اٹھ کر پردے کے پیچھے سے ایک ایسے شخص کو دیکھتا ہے جس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں اور غربت و فقیری اس کے چہرے سے عیاں ہے لہذا اس نے ملنے سے انکار کر دیا۔ امیر دوست کے خادم اسے بتاتے ہیں کہ ہمارا مالک کسی سے بھی نہیں ملنا چاہتا۔ پس وہ محل سے اس درد و الم کے ساتھ نکلا کہ کیسے یہ رشتہ محض میری غربت کے سبب مر چکا ہے۔ اور کیسے لوگوں کے دلوں سے اقدار و مروت ختم ہو گئی ہے؟۔ محل کے قریب اس نے دیکھا کہ تین لوگ آپس میں بحث کر رہے ہیں، جیسے وہ کسی چیز کے بارے میں استفسار کر رہے ہوں۔ وہ ان سے پوچھتا ہے کہ وہ کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟ ۔ وہ اس کے والد کا نام لے کر کہتے ہیں کہ وہ فلاں ابن فلاں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس نے ان سے کہا کہ وہ میرے والد ہیں، اور وہ بہت عرصہ پہلے فوت ہوچکے ہیں۔ جس پر وہ بہت افسردہ ہوئے، وہ اس کے والد کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے والد لعل و جواہر کے بہت بڑے تاجر تھے۔ ہمارے پاس مرجان کے قیمتی ٹکڑے ہیں، جو اس نے امانت کے طور پر ہمارے پاس چھوڑے تھے۔ چنانچہ انہوں نے مرجان سے بھرا ہوا ایک بہت بڑا تھیلا اس کے حوالے کیا اور چل دئیے۔ اس نوجوان پر حیرت طاری ہو جاتی ہے اور اسے اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں آتا کہ وہ اسے کیسے سچ مان لے۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوا کہ وہ اسے کہاں اور کس کو بیچے کیونکہ اس کے شہر میں تو کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا جو اس کی قیمت ادا کر سکے۔ لہذا وہ کسی تاجر کی تلاش میں نکلا، تھوڑی دیر کے بعد ایک بڑی عمر کی خاتون سے اس کی ملاقات ہو گئی، جو شکل و شباہت سے نیک سیرت لگتی تھی۔ اس خاتون نے اس سے پوچھا کہ بیٹا مجھے آپ کے شہر میں جوہری کی تلاش ہے، کہاں ملے گا؟۔ نوجوان نے پوچھا کہ آپ کس قسم کے جوہر خریدنا چاہتی ہیں؟۔ خاتون نے جواب دیا! مجھے خوبصورت پتھروں کی تلاش ہے، چاہے وہ کسی بھی قسم کے ہوں اور ان کی قیمت کوئی بھی ہو۔ نوجوان نے پوچھا، کیا آپ مرجان خریدنا چاہیں گی؟۔ اس نے کہا، میں بالکل خریدوں گی۔ نوجوان نے مرجان کے کچھ ٹکڑے تھیلے سے نکالے اور خاتون کے حوالے کر دئیے۔ خاتون نے جب قیمتی پتھر دیکھے تو حیران رہ گئی اور وہ ٹکڑے خرید لیے اور یہ کہتی ہوئی چلی گئی کہ وہ باقی والے ٹکڑے خریدنے کے لیے دوبارہ آئے گی۔ یوں نوجوان کے حالات میں بہتری آنے لگی اور اس کی تجارت بحال ہونے لگی۔ پھر اسے اپنے دوست کی یاد آئی جس نے برے حالات میں اس سے ملاقات کرنا گوارا نہ کی۔ تو اس نے ایک خط میں دو اشعار لکھ کر بھیجے۔
میں ایسے دوستوں کی صحبت میں رہا جن میں وفا نہیں
جو حیلوں اور بہانوں سے دوستی نبھاتے ہیں
وہ میری امیری کے وقت مجھے عزت دیتے ہیں
اور جب میں مفلس ہو گیا تو وہ جاہلوں والا معاملہ کرتے ہیں
جب اس کے دوست نے یہ اشعار پڑھے تو اس نے جواب میں تین اشعار لکھ کر بھیجے۔
جہاں تک تین لوگوں کی بات ہے جو محل کے باہر ملے ہیں
وہ کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک چال تھی
جس عورت نے تم سے مرجان خریدا وہ میری ماں تھی
اور تم میرے بھائی ہو اور میری آخری امید بھی
ہم نے آپ کو بخل و کنجوسی کے سبب نہیں واپس کیا
لیکن ہمیں خوف تھا کہ تم ہمارے سامنے شرمندہ نہ ہو جائو
انسان کو شرمندہ تو ہونا چاہیے، جب وہ پڑھتا نہیں، کچھ علم نہیں حاصل کرتا، کچھ سیکھتا نہیں، تدبر نہیں کرتا، سوچتا نہیں اور پھر بھی وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے، اور یہ گمان کرتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔
انسان کو شرمندہ ہونا چاہیے، جب وہ اپنے گزرے ہوئے آبائو اجداد کے ماضی پر فخر کرتا ہے اور اس کا اپنا حال پسماندہ اور بدبختوں والا ہو۔ جب حقیقت سے منہ موڑ کر اپنی جائے پیدائش اور اس سے منسلک تمام چیزوں کو برتر اور اعلیٰ تصور کرتا ہو اور سائنس اور ترقی یافتہ دنیا کو رد کرتا ہو۔
انسان کو شرمندہ ہونا چاہئے، جب اس کا معاشرہ جس میں وہ رہتا ہے بری طرح سے ناکام ہو چکا ہو، اور وہ اس معاشرے کو اور دنیا کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ بھی پیش نہ کر سکتا ہو۔
فرانز کافکا نے کہا کہ ’’ میں اپنے آپ سے شرمندہ تھا جب مجھے احساس ہوا کہ زندگی ایک ملبوسات کی پارٹی ہے۔ اور میں نے اپنے اصلی چہرے کے ساتھ شرکت کی‘‘۔
مصنف رسول حمزہ توف اپنی کتاب ’’ میرا داغستان‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ابا کہا کرتے تھے ’’ اگر تم نے کوئی شرمناک حرکت ایسی کی ہے جو تمہارے شایانِ شان نہ تھی تو چاہے تم لاکھ دعائیں کرو وہ داغ تمہاری پیشانی سے مٹ نہیں سکتا‘‘۔ ابا یہ بھی کہا کرتے تھے’’ اگر کسی آدمی نے شرمناک رویہ اختیار کیا ہو اور کئی سال بعد اس رویہ پر شرمندہ ہو تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے پرانا قرض ان سِکوں کے ذریعے ادا کرنا جو رائج نہ رہے ہوں‘‘۔
ساحر لدھیانوی کا شعر ہے کہ
اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بے کار تمنائوں پہ شرمندہ ہوں
اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے
نجیب محفوظ نے کہا ہے کہ ’’ اپنے حقوق مانگتے ہوئے شرمندہ نہ ہوں کیونکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو آپ سے حق چھیننے میں شرم محسوس نہیں کرتے‘‘۔

جواب دیں

Back to top button