مذاکرات کیوں؟

تحریر : سیدہ عنبرین
موسمی اعتبار سے سردیوں کا موسم ہے، سیاسی لحاظ سے سزائوں کا موسم ہے۔ 9مئی کے حوالے سے پہلا فیصلہ سنایا گیا ہے، متعدد افراد کو مختلف معیار کی سزائیں دی گئی ہیں۔ کم از کم سزا 2برس اور زیادہ سے زیادہ سزا 10برس ہے۔ یہ سزائیں فوجی عدالتوں نے سنائی ہیں۔ سزائیں دینے والوں کا موقف ہے کہ ان کے جرم کا ناقابل تردید ثبوت موجود یقیناً ایسا ہو گا لیکن سزائوں کے بعد آئندہ روز صرف سزا پانے والوں کی تصویریں میڈیا کیلئے ریلیز کی گئیں، کیا ہی اچھا ہوتا ان مجرموں کے خلاف وہ ثبوت بھی میڈیا کو مہیا کر دیئے جاتے جو دنیا کے سامنے آتے تو مجرموں کو معصوم سمجھنے والوں پر واضح ہو جاتا کہ ثبوت کس قدر ناقابل تردید ہیں۔ فوجی عدالتوں کا اپنا طریقہ کار ہے، وہاں فی الحال اس قسم کی گنجائش شاید نہ ہو، لیکن بدلتے وقت کے تقاضوں کے پیش نظر ایسا کرنا، ایسی گنجائش بنانے میں کوئی حرج نہیں، بالکل ملک کے وسیع تر مفاد میں تو یہ ایک چھوٹا سا قدم ہو گا، لیکن اس کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے امکانات کے مطابق ثبوت تو دو ہی قسم کے ہو سکتے ہیں، ایک تو ویڈیو کلپ جن میں یہ لوگ تخریب کاری کرتے نظر آ سکتے ہیں، دوسرا ثبوت آڈیو ہو سکتا ہے، یعنی بذریعہ ٹیلی فون اس قسم کی منصوبہ بندی اس میں شراکت یا کسی کو تخریب کاری کی ترغیب دینا ہو سکتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں اگر دنیا کے سامنے آ جائیں تو دنیا کے منہ بند ہو سکتے ہیں، ایسا نہیں ہوا لہٰذا دنیا کا منہ کھلا ہے، اب کس کس کے منہ کو بند کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں منہ بند کرنے کے دو طریقے ہیں، ایک فقرہ اس وقت سے جناب نواز شریف سے منسوب ہے جو ان کے انتہائی قریبی ساتھیوں کے ذریعے طشت ازبام ہوا جب وہ پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے، اس دور کی اپوزیشن پیپلز پارٹی تھی، جبکہ بعض دیگر عناصر بھی ان کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے ان پر زبردست تنقید کیا کرتے تھے، ایسے موقع پر یہ شہرہ آفاق فقرہ سننے کو ملتا تھا۔ ’’ ایدے نال مکو‘‘ دوسرا حصہ اس فقرے کا تھا ’’ اینو کسو‘‘۔
مک مکا کرنے اور کس دینے کا عمل عرصہ دراز تک جاری رہا، اقتدار کی ایک درجہ بلند سیڑھی پر قدم رکھا تو فقرے کا پہلا حصہ ’’ ایدے نال مکو‘‘ متروک کر دیا گیا جبکہ دوسرے حصے یعنی ’’ اینو کسو‘‘ پر عملدرآمد ہوتا نظر آیا، گمان ہے کہ مصاحب نے کان میں یہ نسخہ ڈالا ہو گا کہ بادشاہ سلامت کسی نایچ سے مک مکا نہیں کیا کرتے، وہ ناپسندیدہ افراد کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالوا دیا کرتے تھے، ان کی آنکھیں نکلوا دیا کرتے تھے، وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ’’ کس دینے‘‘ کے انداز بدلتے گئے۔ اب بے جا مقدمات بنائے جاتے ہیں، اس سے کام نہ چلے تو ناپسندیدہ شخص مسنگ پرسن بن سکتا ہے۔ بے نظیر بھٹو اور جناب آصف زرداری پر اس ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا، ہم نے بے نظیر بھٹو کو ایک بچہ گود میں اٹھائے، دوسرے کو انگلی لگائے عدالتوں میں خوار ہوتے دیکھا۔ ستم بالائے ستم ان کا ایک ہی تاریخ میں ایک مقدمہ پنجاب اور دوسرا سندھ میں لگایا جاتا۔ آصف زرداری جیل میں بند تھے۔ ملک کے وسیع تر مفاد میں قوانین بنائے جاتے ہیں۔ قانون بنانے والے اس کی زد میں آئے تو انہیں ہی یہ قانون بدلتے بھی دیکھا گیا، قوانین کا اطلاق ہوتا تو اس روز سے ہے جس روز یہ قانون بنایا جاتا ہے، لیکن کبھی کبھار یہ موثر بہ ماضی بھی ہوا۔ آج تک اس بات کی گنجائش موجود ہے۔ بعض قوانین کا اطلاق اگر ماضی سے کر دیا جائے تو درجنوں طاقتوروں کا احتساب ہو سکتا ہے۔ ان پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات بنیں چاہئیں بلکہ فوجی عدالتوں میں مقدمات چلنے چاہئیں، کیونکہ ان کے سستے اور فوری انصاف بلکہ آواز سے زیادہ تیز رفتار انصاف کے بڑے چرچے ہیں، یہ تخریب کار عام عدالتوں سے بچ نکلے۔ اس حوالے سے مشہور کیس کراچی میں بلدیہ ٹائون فیکٹری کو آگ لگانے کا معاملہ سرفہرست ہے، جہاں تخریب کاروں نے اڑھائی سو افراد کو زندہ جلا دیا، کوئی کیفر کردار تک نہ پہنچا۔ کراچی میں ہی ایک اور سانحہ ہوا، جب سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اور بانی پی ٹی آئی کراچی پہنچے تو انہیں شہر میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے پورے کراچی میں کشت و خون شروع کر دیا گیا، ایک ہی دن میں 70سے زیادہ افراد بے گناہ قتل کر دیئے گئے، املاک کو نذر آتش کیا جاتا رہا، دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کس طرح لوگوں کو گاڑیوں سے اتار اتار کر گولیاں ماری گئیں۔ گاڑیوں اور عمارات پر پٹرول چھڑک کر آگ لگائی گئی۔
لاہور میں کرشن نگر کے علاقے میں 14افراد پراسرار طور پر قتل کر دیئے گئے، یہ سب ایک گھر میں مہمان آئے، رات کو ٹھیک ٹھاک سوئے، صبح سب کے گلے کٹے ہوئے تھے، قاتل آج تک سامنی نہ آئے، انہیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔؟۔ لاہور ہی میں ماڈل ٹائون کے علاقے میں پرامن احتجاج کرنے والے 14افراد قتل کئے گئے، فوٹیج میں دیکھا گیا کس طرح گھر کے دروازے پر کھڑی خواتین کے منہ میں گن رکھ کر گولی چلائی گئی، اس کے قاتل بھی گرفتار نہ ہو سکے۔ یہ تمام مقدمات اگر فوجی عدالتوں میں آج بھی چلائے جائیں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ملزموں کو سزا اور معصوموں کو انصاف مل سکتا ہے، اس طرح منی لانڈرنگ کے ایسے مقدمات جن میں اربوں ڈالر آئے نکلوا کر تقسیم بھی کر لئے گئے، یہ مقدمات بھی مالیاتی دہشت گردی ہیں، انہوں نے ملک کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے، وطن کی مٹی کا تقاضا یہ ہے کہ وطن کی محبت میں ان ملزموں کو بھی فوجی عدالتوں میں لایا جائے، کیونکہ عوام اپنی فوج سے پیار کرتے ہیں، اس کے نظام اور نظام انصاف پر یقین رکھتے ہیں، اس کے ہاتھوں جب ملک کے دشمنوں کا سزائیں ملیں گی تو اس کی قدر و منزلت میں اضافہ ہو گا۔
باقی رہا معاملہ غیر ملکی جاسوسوں اور دہشت گردوں کا تو انہیں بھی جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے، ایسا نہ ہو کہیں ان کی حمایت میں ان کے سہولت کار اپنے محافظوں کے خلاف ہی مقدمہ درج نہ کرا دیں، جس طرح ممبئی حملوں کا مقدمہ اس دور کے زمانہ حکومت میں گوجرانوالہ میں درج ہو گیا تھا، ملک دشمن کچھ بھی کر سکتے ہیں۔9مئی کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کے حوالے سے نام ابھی تک منظر عام پر نہیں لائے گئے، جبکہ بتایا گیا کہانی تو شروع ہی یہیں سے ہوتی تھی۔
امریکہ نے 9مئی ملزمان کے خلاف فیصلوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان متحرک ہیں، اس پر توجہ نہ دیتے ہوئے اپنے اصل موقف کی طرف واپس لوٹنا چاہئے کہ تخریب کاروں سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ مذاکرات کا مطلب ہے حکومت کمزور ہوتی ہے، مذاکرات پر مجبور ہوتی ہے اور سیکڑوں بنائے گئے مقدمات بے بنیاد ہیں۔





