Columnمحمد مبشر انوار

آ بیل مجھے مار

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )
دنیا بھر میں اس وقت بے یقینی کی سی کیفیت چھائی ہوئی ہے اور کسی کو کچھ اندازہ نہیں کہ کب کیا ہو جائے، معاملات کس کروٹ بیٹھے، آنے والا لمحہ کس کے لئے کیا لانے والا ہے لہٰذا تمام ریاستیں اور حکمران انتہائی چوکس نظر آتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان کا کیا ہوا کوئی بھی غیر سنجیدہ فیصلہ ملک و قوم کے لئے نقصان کا باعث بن جائے۔ بالخصوص مشرق وسطیٰ کے حالات ایسی منظر کشی کر رہے ہیں کہ پڑوسی ممالک کے لئے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑ رہا ہے کہ مبادا کوئی بھی کوتاہی ان کے گلے نہ پڑ جائے۔ جبکہ پاکستان کے حالات کلیتا اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں کہ یہاں تاحال انا و ضد کے اسیر کسی بھی صورت، ملکی مفادات کو ترجیح دیتے دکھائی نہیں دے رہے بلکہ یوں سینگ پھنسائے ہوئے ہیں کہ ہر صورت فریق مخالف کو جب تک سرنگوں نہیں کر دیتے تب تک، حتمی جیت کا اعلان ہو ہی نہیں سکتا اور نہ انا و ضد کی تسکین ممکن ہے۔ انا و ضد کی تسکین میں ہم کیسے کیسے کام، نتائج کا اندازہ کئے بغیر ، مسلسل کرتے جا رہے ہیں، جو کسی بھی صورت ایک جمہوری حکومت کے دور میں ممکن ہی نہیں، یوں پیش منظر میں موجود ایک جمہوری حکومت کا لبادہ سر بازار اترتا نظر آرہا ہے لیکن اس سے کسی کو کوئی سروکار دکھائی نہیں دیتا۔ عالمی برادری میں بطور جمہوری ملک، کچھ ذمہ داریاں ہیں، کچھ اصول ہیں، کچھ معاہدے ہیں، کچھ یقین دہانیاں ہیں، جو جمہوری ممالک عالمی برادری سے کئے ہوتے ہیں اور ان کی موجودگی میں ایسے ممالک کو کچھ سہولتیں میسر ہوتی ہیں،، جو ریاست کی معیشت کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ ایسے ہی معاہدے، یقین دہانیاں پاکستان نے بھی عالمی برادری سے کر رکھی ہیں اور ان معاہدوں پر عمل درآمد کرنا پاکستان کے لئے اس لئے ضروری ہے کہ جوابا پاکستان کو عالمی برادری نے تجارت کے لئے کچھ ایسی سہولتیں دے رکھی ہیں، جو پاکستانی معیشت کو سہارا دئیے ہوئے ہے وگرنہ ان سہولتوں کی عدم موجودگی میں، جو تھوڑی سی معاشی سرگرمی پاکستان میں دیکھی جا رہی ہے، اس کے ناپید ہونے کے قوی شواہد ہو سکتے ہیں۔ ان معاہدوں میں بنیادی طور پر جمہوریت کے ساتھ ساتھ، خواہ دکھاوے ہی کی ہو بعینہ جیسی اس وقت پاکستان میں ہے، اظہار رائے کی آزادی کے علاوہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا شامل ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں موجودہ جمہوری حکومت کے حوالے سے پوری دنیا میں جو پختہ تر رائے موجود ہے، وہ جمہوریت و حق رائے دہی کے قتل کے مترادف ہے اور ساری دنیا میں انتخابی نتائج کے حوالے سے شدید ترین تحفظات پائے جاتے ہیں اور دوسری طرف عمران خان کی اسیری کو دنیا بھر میں انتقامی سیاست و مقتدرہ کی ذاتی پرخاش کے پس منظر میں دیکھا جاتا ہے۔ صرف عمران خان کی اسیری ہی قوانین کی دھجیاں اڑانے کے مترادف تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کے ووٹرز اور سپورٹرز کے ہونے والے مسلسل احتجاج کو جس فسطائیت کے ساتھ روکا گیا ہے، وہ آزادی اظہار رائے کی حق تلفی کے زمرے میں آتا ہے، جسے عالمی برادری کسی طور بھی پسند نہیں کرتی کہ یہ جمہوری اساس کے خلاف ہے۔
مغربی ممالک کہیں یا جمہوریت پسند ممالک کہیں، فی زمانہ، نظام حکومت کے لئے دنیا بھر میں جمہوری انداز زیادہ پسند کیا جاتا ہے خواہ وہ جمہوریت پارلیمانی ہو یا صدارتی، حد تو یہ ہے کہ یہی ممالک مشرق وسطیٰ میں روبہ عمل بادشاہی نظام کی تبدیلی کے بھی خواہاں ہیں لیکن مشرق وسطیٰ ممالک کی معاشی حیثیت اور معدنی ذخائر کے باعث، ان پر زیادہ موثر طریقے سے اثر انداز نہیں ہو پاتے۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اس کے باوجود مغربی ممالک کا دبا مشرق وسطیٰ کے ان ممالک پر مسلسل رہتا ہے اور نظام حکومت کے باعث مشرق وسطیٰ کے یہ ممالک بسا اوقات ایسے اقدام کرتے رہتے ہیں کہ مغربی طاقتیں ان کو بہت زیادہ تنگ نہ کریں۔ ویسے دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ مشرق وسطیٰ کو اگر جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہے تو انہیں بلا امتیاز اپنی افرادی قوت کو میدان عمل میں لانے کی ضرورت ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اس پر بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلی آ رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ صدیوں سے دینی تعلیمات پر عمل پیرا اس معاشرے کے لئے ایسی تبدیلی قابل ہضم نہیں ہے لیکن حکومت کی جانب سے اسلامی تعلیمات کے حوالے سے بالعموم اور پردے کے حوالے سے بالخصوص کوئی خصوصی احکامات جاری نہیں ہوئے بلکہ یہ عوام الناس کے اختیار پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ جیسے چاہیں اپنی روزمرہ زندگی گزاریں البتہ معاشرے میں بدامنی کی اجازت کسی کو نہیں۔ یہاں کے قوانین جس حد تک کسی بھی شہری کو اجازت دیتے ہیں، اس کے اندر رہتے ہوئے وہ اپنی شکایات مروجہ طریقے کے مطابق احکام تک پہنچا سکتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ شکایت کنندہ کی داد رسی ہوتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، بلاامتیاز قوانین پر عمل درآمد کرواتے ہیں۔ اس پس منظر میں بالعموم عوامی حقوق کا بخوبی تحفظ ہوتا ہے اور عوام الناس کو یقین ہے کہ مملکت کے اندر کسی کو ناحق تنگ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی کو اس کے جائز حق سے محروم رکھا جا سکتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سخت قوانین کی موجودگی اور ان پر عمل درآمد کے باعث، معاشرے میں امن و امان کی حالت انتہائی تسلی بخش ہے اور مقامی و خارجی شہریوں کی جان و مال ، عزت و آبرو محفوظ رہتی ہے اور شہری حکمرانوں سے مطمئن ہیں۔ علاوہ ازیں! حکومت ہمہ وقت ملک سطح پر بڑی بڑی معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے، ملکی تعمیر و ترقی کے ہمہ وقت بروئے کار دکھائی دیتی ہے، جس کی وجہ سے یہاں نہ صرف مقامی شہریوں بلکہ غیر ملکی ہنر مندوں کی مسلسل ضرورت رہتی ہے اور معیشت کا پہیہ رواں دواں رہتا ہے، جس سے روزگار کے مواقع میسر رہتے ہیں اور شہری بھی پرامن دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستانی نظام حکومت کہنے کو جمہوری ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں جمہور ہی کی کوئی شنوائی نہیں اور سب سے زیادہ تذلیل ہی جمہور کی ہوتی ہے، اشرافیہ کے حالات ایسے ہیں کہ انہیں اپنی تجوریاں بھرنے سے فرصت نہیں لہذا عوام کے لئے کیا سوچیں اور عوام کو کیا دیں؟ بات جب عوام کی آتی ہے تو بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی سے وقت کا وزیر اعظم یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ اگر نوجوانوں کو روزگار میسر نہیں تو وہ بیرون ملک جا سکتے ہیں۔ حد تو یہ ہو چکی ہے کہ ایک وقت تھا جب پاکستانی مصنوعات دنیا بھر میں برآمد ہوتی تھی اور اپنے معیار کے باعث پسند کی جاتی تھی لیکن صد افسوس کہ ناقص منصوبہ بندی اور معیشت کش پالیسیوں کے باعث ملکی صنعت زمین بوس ہو چکی جبکہ اسی ناقص منصوبہ بندی کے باعث شرح آبادی میں روز افزوں اضافے نے پاکستان کو صرف افرادی قوت برآمد کرنے والے ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس پر بھی مقام افسوس کہ اس افرادی قوت کی اکثریت ذاتی کاوشوں سے بیرون ملک ہجرت تو کرتی ہے مگر اکثریت بغیر کسی ہنر کے، صرف بیرون ملک جانے کی خاطر، گھر بار چھوڑ دیتے ہیں اور حکومت یہاں بھی اپنی ذمہ داری کماحقہ پوری کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے اور عوام الناس کو نجی ایجنٹوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ڈنکی لگاتے ہوئے حال ہی میں جس طرح پاکستانی دار فانی کوچ کئے ہیں، اس کی ذمہ داری کم از کم ہماری حکومتیں تو تسلیم نہیں سکتی اور نہ کریں گی اور ماں کے لعل یونہی سمندری لہروں کی نذر ہوتے رہیں گے، اللہ کریم سے دعا ہے کہ اشرافیہ سمیت سب کو ہدایت عطا کرے۔
بہرکیف حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ساری دنیا میں جو تماشہ پاکستان کا بنا ہوا ہے، وہ کسی سے ڈھکا یا چھپا نہیں کہ جمہوریت پسند ممالک، جنہوں نے ہماری لولی لنگڑی جمہوریت پر ہی ہمیں اپنی تجارتی پالیسیوں میں چھوٹ دے رکھی تھی، موجودہ غیر جمہوری طرز عمل کو بخوبی دیکھ رہے ہیں اور اس پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے ان کے خدشات ہمیشہ سے واضح رہے ہیں، جن کا ڈھول بھی مسلسل پیٹا جاتا ہے لیکن زیادہ تر اس کا اثر ان ممالک پر ہوتا ہے جن کی گو شمالی مقصود ہوتی ہے البتہ جہاں حقیقتا اور واقعتا انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہوتی ہے لیکن وہاں عالمی طاقتیں ملوث ہوں، وہاں زبانی جمع خرچ سے کام چلا لیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے، جس نے دنیا بھر کا قرض ادا کرنا ہے اور اس کی حیثیت فی الوقت عالمی برادری میں ’’ سب کی بھاوج‘‘ جیسی ہے کہ کوئی بھی کہیں سے بھی اس پر نہ صرف تنقید کرتا ہے بلکہ اچھی خاصی عزت افزائی بھی کر دی جاتی ہے۔ اس وقت بھی جمہوری حوالوں سے جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے، مقتدر حلقوں کو یہ گمان ہے کہ اس پر کسی کی کوئی نظر نہیں ہے لیکن درحقیقت اقوام عالم کی نظریں اس پر گڑی ہیں اور وہ بخوبی ان حالات کا جائزہ لیں رہے ہیں البتہ کسی بھی لائحہ عمل کا اعلان حالات و واقعات کے مطابق کریں گے جس کا اظہار ہونا شروع ہو چکا ہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد سے جس طرح پاکستان میں معاملات کو چلایا جا رہا ہے، اس حوالے سے اقوام مغرب کو اچھی خاصی تشویش ہے کہ ایک طرف انتخابی عمل شفاف نہیں رہا، بعد ازاں قانونی چارہ جوئی میں بھی متاثرہ فریق کو انصاف نہیں مل رہا نتیجتا احتجاج کا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے جس فسطائیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے، اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اس پس منظر میں شہری کیسے اور کیونکر ایسی حکومت پر اعتماد و اعتبار کر سکتے ہیں اور صرف شہری ہی کیا عالمی برادری ان پر کیسے اعتبار اور یقین کرے کہ دھاندلی سے اقتدار پر قابض ہونے والے، شہریوں کو ان کے جمہوری حقوق دینے کے لئے تیار نہیں؟ اس پر طرہ یہ کہ جمہوری ممالک میں یہ طے شدہ و تسلیم شدہ امر ہے کہ سویلین کے مقدمات ہمیشہ روایتی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں جبکہ پاکستان اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اس کی اعلی ترین عدالت، عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کی منظور لی دے چکی ہے اور اس کے نتیجہ میں 25عام شہریوں کو 9مئی کے مقدمات میں فوجی عدالتیں سزائیں سنا کر عالمی برادری میں تماشہ بن چکی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے مطابق، یہ سزائیں بھی اعتراف جرم کے نتیجہ میں سنائی گئی ہیں جبکہ بعینہ ایسے ہی جرم میں تحریک انصاف کے وہ رہنما و کارکنان جو تحریک انصاف سے علیحدگی اور 9مئی واقعات کی مذمت کر چکے ہیں، ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، جو بذات خود انتقامی کارروائی کو ظاہر کرتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ 9مئی واقعات کی غیر جانبدارانہ تفتیش تک نہیں ہوئی، ملزمان کو حق دفاع سے بھی محروم رکھا گیا ہے ( شنید ہے) ، تنصیبات کے حوالے سے بھی رائے مختلف ہے کہ آیا واقعتا وہ فوجی تنصیبات کی تعریف پر پورا اترتی ہیں یا نہیں، یا وہ فوج کے کارہائے نمایاں کی زیبائشی تنصیبات تھی؟ بہرکیف فوجی عدالتوں میں شہریوں کو سزائیں سنانے پر، ماہرین کا خیال یہی ہے کہ پاکستان کو تجارت میں حاصل خصوصی سہولیات پر نظر ثانی کا قوی امکان ہے اور عین ممکن ہے کہ پاکستان سے یہ خصوصی سہولیات واپس لے کر اس کی معاشی سرگرمیوں پر کاری زد لگائی جائے۔ دعا ہے کہ پاکستان اس صورتحال سے سرخرو ہو جائے لیکن ان حالات کے مد نظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات سے حتی الامکان گریز ضروری ہے جو پاکستانی مخدوش معاشی صورتحال میں اضافے کا باعث نہ بنے جبکہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے گزارش ہی کی جا سکتی ہے کہ انا و ضد میں اس قدر آگے نہ جائیں کہ پاکستانی مفادات کو شک پہنچے۔ حب الوطنی کا تقاضہ تو یہی ہے کہ من حیث القوم پاکستانی مفادات کا تحفظ کیا جائے اور کالی بھیڑوں کے خلاف سخت کارروائی ہو لیکن کالی بھیڑوں کا صفایا کرتے ہوئے ذاتی انتقام سے گریز کیا جائے کہ اس کے نتیجہ میں صورتحال کی قطعا ایسی عکاسی نہ ہو کہ یوں لگے جیسے ہم خود کہہ رہے ہوں کہ آبیل مجھے مار!!

محمد مبشر انوار(ریاض )

جواب دیں

Back to top button