بے نظیر یادیں ،27دسمبر کے ان سرد اور ستمگر موسموں میں

تحریر : راجہ شاہد رشید
ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ ایک زیرک اور بہادر لیڈر تھے۔ عوامی راج کے لیے متحرک سماج کے لیے ان کی جمہوری جدوجہد و خدمات لکھنے لگیں تو ایک نہیں کئی ایک کالم بن جائیں گے۔
ہمتوں والے شہید بھٹو پہ میرا اپنا ہی ایک شعر ہے کہ
سولی چڑھ کے شیر بھٹو حق کا نعرہ بول گیا
فکر وہ اپنی آفاقی ، سچ میزان پہ تول گیا
بھٹو نے اسلامی ایٹم بم کی بنیاد رکھی۔ اس مملکتِ خداداد کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیا، 1973ء کو ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا۔ جمعۃ المبارک کی چھٹی کے احکامات صادر فرمائے۔ قادیانیوں کو قانوناً کافر قرار دیا۔ بھارت سے 90ہزار فوجی قیدی رہا کرائے۔
آج بھی سارے عالم میں ڈنکے تیرے بجتے ہیں
فخرِ ایشیا قائدِ عوام القاب تجھی کو سجتے ہیں
سٹیل ملز، ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا، POFواہ، چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ اور کامرہ ہیوی مکینیکل کمپلیکس جیسے عظیم منصوبوں کی بنیاد رکھنے والے بھٹو نے انڈس ہائی وے، سپر ہائی وے جیسے مفید منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور لیبر پالیسی کے تحت لاکھوں لوگوں کو بیرون ملک روزگار دلایا۔
اس دھرتی کی جان ہے بھٹو
پاک وطن کا مان ہے بھٹو
میرے دیس کے مزدوروں کی
عزت و عظمت، شان ہے بھٹو
بھٹو نے عام آدمی کو سیاسی شعور دیا۔ سیاست کو جاگیردار کے ڈرائنگ روم، وڈیرے کے ڈیرے سے نکال کر غریب کی جھونپڑی تک پہنچایا۔ غریب عوام کو جگایا، مزدور کسان کو شناخت دی ، جینے کی امنگ بیدار کی، انہیں ان کے حقوق بتلائے اور عوام کو حق مانگنا ایسے سکھایا کہ بڑے بڑے دربار کانپ گئے اور حواری و درباری بھی۔ انتہا پسند جابر بھارتی حکمرانوں کو للکار کر کہا کہ گھاس تنکے کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے، امریکہ ہم سے 10ہزار کلومیٹر دور ہے وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
جابر تجھ سے تھرایا تھا آمر تجھ سے خوفہ تھا
محروموں کی خاطر جگ میں خاص خدا کا تحفہ تھا
بھٹو نے عدلیہ اور پرنٹ میڈیا کو آزادی دی۔ نیشنلائزیشن کے تحت اربوں روپے انڈسٹریوں، فیکٹریوں کے مالکان کو ادا کر کے ملکی اداروں کو بچایا اور از سر نو ادارے بنائے بھی۔ اسلامک ورلڈ بینک، بی سی سی آئی کے بانی بھی بھٹو۔ بھٹو ازم ختم نہیں ہوا بھٹو کا فلسفہ آج بھی زندہ ہے۔ بھٹو غریب عوام کے دلوں میں رہتے ہیں۔
وہ حق کی خاطر لڑنے والا
بات عوام کی کرنے والا
سولی چڑھ کر امر ہوا ہے
بھٹو کب ہے مرنے والا
میری یہ اشعار آپ نے پہلے کبھی نہیں پڑھے ہوں گے۔ یہ کلام میری زیر تکمیل کتاب ’’ بھٹو سے بے نظیر تک‘‘ میں شامل ہے۔ بی بی جی کی شہادت کے بعد تو ہر کسی نے ان پہ نظمیں لکھی ہیں لیکن میری زیادہ تر نظمیں محترمہ کی شہادت سے پہلے کی ہیں۔ یہ نہ صرف بھٹو اور بے نظیر پر بلکہ دو عظیم سیاسی لیڈرز پہ پہلی منظوم کتاب ہوگی۔ ایک لحاظ سے آپ اسے بھٹو خاندان اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جہدِ مسلسل کی مکمل منظوم داستان بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگر محترمہ بے نظیر زندہ ہوتیں تو وہ ضرور اس کتاب کا دیباچہ بھی لکھتیں کیونکہ یہ کتاب میں ان کی زندگی میں ہی شائع کرنا چاہتا تھا۔
کون کہتا ہے کہ صرف سیاستِ اقتدار کی بات کرتی تھی
خُشبو۳ قلندر تھی خلقِ خدا سے پیار کی بات کرتی تھی
لوگوں کو مبارک ہوں تخت و تاج و حکومت کی باتیں
وہ شہید کی بیٹی پھانسی کی اور دار کی بات کرتی تھی
نواب اکبر بگٹی کی شہادت پہ میرا کالم بعنوان ’’ بھٹو ہوں یا بُگٹی ہوں‘‘ متعدد اخبارات میں شائع ہوا۔ صحافت کے شاہ جی سید عباس اطہر ان دنوں روزنامہ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر تھے، انہوں نے نہ صرف کالم پبلش کیا بلکہ فون فرما کے سراہا بھی اور بے نظیر بی بی رانی تک پہنچایا بھی۔ اس وقت جلا وطن بی بی نے فون کر کے کالم کی تعریف کی اور جب میں نے اس منظوم کتاب ’’ بھٹو سے بے نظیر تک‘‘ کا ذکر کیا تو محترمہ نے خود ہی فرمایا کہ پاکستان واپس آ کر میں آپ سے رابطہ کروں گی اور کتاب کے لیے تاثراتی مضمون بھی لکھوں گی لیکن بی بی جی کی واپسی پہ کارساز کراچی میں ایک عوامی سمندر کے ساتھ ساتھ 150سے زائد لاشوں نے ان کا استقبال کیا اور پھر حالات ہی ایسے بنے کہ رابطہ نہ ہو سکا۔ کافی وقت گزرنے کے بعد میں نے بلاول ہاس سے رابطہ کیا تو فرمایا کہ الیکشن مہم جاری ہے آئے روز جلسے اور مصروفیات ہیں ان شاء اللہ الیکشن کے بعد کتاب ضرور چھاپیں گے لیکن صد افسوس کہ وہ بعد آج تک نہ آیا۔ اللہ پاک کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ دسمبر آیا اور پھر 27دسمبر آ گیا۔ کتاب میں شامل شہید بی بی پہ چند متفرق اشعار۔جب بھی جگ میں بات چلے گی عورت کی عالی ہمت کی
یہ دنیا دے گی پھر مثالیں لازم تیری عظمت کی
عورت کی تو عظمت تھی اور حرمت تھی سیاست کی
تُو نے حق کی راہ پہ چل کر سچ پوچھو عبادت کی
بی بی کی شہادت کے بعد میں نے پی پی کے کرتا
دھرتائوں سے رابطے تو کیے مگر ان کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی اور آج تک یہ کتاب پبلش نہ ہو سکی۔ میں لحاظ کر رہا ہوں کسی کا نام نہیں لکھ رہا لیکن دل چاہتا ہے کہ شہید بھٹو اور بی بی شہید کے نام پر ووٹ ، اقتدار اور وزارتیں لینے والوں کے چہروں سے بھٹوز سے محبت کے سب نقاب اتار دوں۔ مدتوں اقتدار کے مزے لینے والے ’’ پِپلیوں‘‘ کے لیے میرا یہ شعر ایک بہت ہی بڑا سوالیہ نشان ہے۔
کون ہے حق، باطل کون ہے۔؟
بے نظیر کا قاتل کون ہے۔۔۔۔؟
اب تو بس وہ حوالے اور بے نظیر یادیں ہی رہ گئی ہیں 27دسمبر کے ان سرد اور ستمگر موسموں میں۔ نہ جانے کیوں میں ہر سال ان تاریخوں میں بے نظیر پارٹی میں شامل ہونے کا سوچتا ہوں اکیلے ہی بولتا ہوں بلکہ پر تولتا ہوں۔ کسی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ہی اس کی اہمیت و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔ شہید بے نظیر بی بی رانی کے جانے کے بعد میرے ملک کو اس لیول کا لیڈر ملا ہی نہیں اور شاید ہمیں اس چیز کا ادراک ہے نہ کوئی پہچان و قدر ہے کہ شیروں کے شکاری صدر زرداری عصرِ حاضر کی سیاست کے تجربہ کار و سر بلند، مدبر و دبنگ اور لجپال لیڈر ہیں جو جمہوریت کے استحکام اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کی خاطر سب کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نظر آتے ہیں حالانکہ ان سے زیادہ مشکل حالات و واقعات و معاملات کسی اور نے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔ موصوف صدر نے 13سال جیل کاٹی اور ماریں کھائی ہیں،سیاست کے دشوار و پرخار کٹھن پتھریلے راستوں سے گزرے ہیں۔ صحافت کے استاد مجید نظامی جی نے ’’ ایویں‘‘ ہی نہیں انہیں مردِ حُر کہا تھا۔ میں سلام پیش کرتا ہوں سیاست کے اس سردار صدر آصف کو جو ساری زندگی ستم رسیدہ ہی رہا نم دیدہ ہی رہا مگر پھر بھی کہا ’’ پاکستان کھپے‘‘۔ برادرم حامد میر نے صد فیصد درست فرمایا تھا کہ ’’ زرداری کا صدر بننا شہباز حکومت کی بقا کی ضمانت ہے‘‘ ۔ سنا ہے صدر زرداری کی ٹانگ میں فریکچر ہوا ہے، میں دعاگو ہوں بفضل اللہ انہیں ’’ تتی ہوا وی‘‘ نہ لگے، وہ ایک مدبر و بہادر لیڈر ہیں اور پاکستانیوں کو ان سے بڑی امیدیں ہیں۔ جوانمردی اور استقلال کے ساتھ طویل جیل کاٹنے والے مرد حر صدر آصف علی زرداری جی کے حوالے سے میری ایک نظم کے چند اشعار حاضر خدمت ہیں۔
کبھی جھکایا سر نہ تُو نے
مانا مول جبر نہ تُو نے
اب تو ہی قائد بی پی کا
اور تو ہی وارث بی بی کا
کوئی دکھا دو رنگ نیارے
ہم سب ہیں سنگ تمہارے
علم اور عدل عام کر دو
دیس عوام کے نام کر دو
راجہ شاہد رشید







