Column

سانحہ نو مئی، سزائیں، مذاکرات

تحریر : رفیع صحرائی
فوجی عدالتوں نے نو مئی سے متعلق مقدمات کے حوالے سے پہلے مرحلے میں 25مجرموں کو سزائیں سنا دی ہیں۔ یہ سزائیں ان مجرموں کو دی گئی ہیں جو جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاس لاہور، میانوالی ایئر بیس، آئی ایس آئی آفس فیصل آباد، ملتان کینٹ چیک پوسٹ اور رجمنٹل سنٹر مردان پر حملوں میں ملوث تھے۔ جن لوگوں کو سزائیں سنائی گئی ہیں وہ سب پی ٹی آئی کے عام ورکرز ہیں۔ ان میں کوئی بھی پہلے، دوسرے یا تیسرے درجے کا لیڈر نہیں ہے۔ البتہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیا گیا یہ بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ صحیح معنوں میں انصاف اس وقت مکمل ہو گا جب نو مئی کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو آئین و قانون کے مطابق سزا مل جائے گی۔
آئی ایس پی آر کا یہ بیان دراصل آنے والے وقت کے فیصلوں کی طرف ایک واضح اشارہ ہے۔ فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی سپریم کورٹ کی مشروط اجازت کے بعد فیصلوں کی سیریز کا یہ آغاز ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ جنوری میں ہی مزید فیصلے بھی آئیں گے جن میں سزا پانے والے کچھ اہم لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے نزدیک فوجی عدالتوں کے حالیہ فیصلے پی ٹی آئی قیادت کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہیں۔ آنے والے دن پی ٹی آئی کے لیے امتحان اور مشکل کے دن ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان سزاں کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو ایک دہشت گرد جماعت قرار دے کر اس پر پابندی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ لیکن محض فوجی عدالتوں سے سزائیں پی ٹی آئی پر پابندی کا ٹھوس جواز نہیں ہو سکتیں۔ سزائیں پانے والوں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا حق حاصل ہے۔ مناسب یہی ہے کہ سانحہ نو مئی کے باقی ملزمان کے کیسز کا فیصلہ بھی جلد سنا دیا جائے۔ تاکہ وہ اگر بیگناہ ہیں تو ہائی کورٹ میں اپنی بے گناہی ثابت کر کے رہا ہو جائیں بصورت دیگر قرار واقعی سزا بھگتیں۔یاد رہے کہ سانحہ نو مئی کے بعد بانی پی ٹی آئی نے تمام گرفتار شدگان سے اظہارِ لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان لوگوں کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق ہے نہ یہ پی ٹی آئی کے ورکرز ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ پی ٹی آئی کے ورکرز نہیں ہیں تو عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کے لیے ان افراد کی رہائی کا مطالبہ کیوں کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان افراد کے ساتھ اعلانِ لاتعلقی کے بعد جب گرفتارشدگان کا پی ٹی آئی کے ورکرز ہونا ثابت ہو گیا تھا تو بانی پی ٹی آئی کو اپنے موقف میں تبدیلی کرنا پڑی اور انہوں نے پکڑے جانے والے افراد کو بیگناہ کہنا شروع کر دیا ورنہ گرفتاری کے وقت ان سے لاتعلقی کا اظہار ظاہر کرتا ہے کہ وہ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے جس کی وجہ سے ان کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہ تھے۔ یہ ایک بڑی غلطی تھی۔ بانی پی ٹی آئی کو علم تھا کہ یہ انہی کے ورکرز ہیں اور اپنے لیڈر کی محبت میں اس حد تک چلے گئے تھے کہ انہوں نے فوجی تنصیبات اور یادگار شہداء کو تہس نہس کر دیا۔ اب ان کی رہائی کا مطالبہ کر کے وہ انہیں اون کر رہے ہیں۔
سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے فوجی عدالتوں کے فیصلی کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بنیادی حقوق کے منافی قرار دیا ہے۔ جناب عمر ایوب، اسد قیصر اور پی ٹی آئی کی دیگر قیادت نے سارا زور اس بات پر دیا ہے کہ فوجی عدالتوں کا فیصلہ نہیں مانتے۔ یہ عدالتیں سویلین کے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت کا پرانا طریقہ کار اور وتیرہ ہے۔ اپنے ملزمان کی بے گناہی ثابت کرنے کی بجائے کیس کے میرٹس پر بات شروع کر دیتے ہیں۔ آپ کو ان کے 80فیصد سے زائد کیس ایسے ہی ملیں گے جن میں انہوں نے عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے پر سارا زور لگا دیا۔ اگر اس کی بجائے اپنے ملزمان کا دفاع کرنے پر اس سے آدھا زور بھی لگایا جاتا تو کیسز کے جلد فیصلے ہو جاتے۔ ایک عدالت سے سزا مل بھی جاتی تو اپیل میں جا کر اپنی بے گناہی ثابت کر دی جاتی۔ بانی پی ٹی آئی کی طویل قید کی وجہ بھی ان کے وکلاء کا یہی طریقہ کار بنا ہے۔ انہوں نے تاخیری حربے استعمال کر کے اپنے موکل کی قید کی مدت بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب بیگناہی ثابت کرنے کے لیے ثبوت یا مواد کم ہو تو تب اس طرح کے ٹیکٹس استعمال کیے جاتے ہیں۔ بے گناہ کو یہ تکنیک اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو حالات کی سنگینی کا
ادراک ہو چکا ہے۔ وہ ٹکرائو کی پالیسی کو ترک کر کے مذاکرات کی طرف آ گئی ہے۔ اسی لیے اب وہ ماضی کے برعکس حکومت سے مذاکرات کے لیے آمادہ ہے۔ باقی لیڈرشپ کے ساتھ ساتھ بانی پی ٹی آئی بھی مذاکرات چاہتے ہیں۔ حالانکہ ماضی میں وہ مخالفین کو چور اور لٹیرے کہہ کر ان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرتے رہے ہیں۔ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کے خواہاں رہے ہیں۔اگر اب انہوں نے سیاست دانوں کے ساتھ بات کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اسے ان کی مجبوری یا کمزوری سمجھنے کی بجائے بہتری کی جانب مثبت پیش رفت سمجھا جائے۔ ادھر وزیر ِاعظم محمد شہباز شریف نے سپیکر قومی اسمبلی کی تجویز پر حکومتی اتحاد کے ممبران پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ کمیٹی میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، رانا ثنا اللہ خان، سینیٹر عرفان صدیقی، راجہ پرویز اشرف، نوید قمر، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، علیم خان اور چودھری سالک حسین شامل ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے سپیکر قومی اسمبلی سے مذاکرات کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی استدعا کی تھی اور تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش پر زور دیا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اسپیکر قومی اسمبلی کی تجویز مانتے ہوئے حکومتی اتحاد کی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی اور اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ملکی سلامتی اور قومی مفاد کو مقدم رکھا جائے گا۔ حکومت کو اس معاملے میں مکمل سنجیدگی دکھانا ہو گی۔ حکومتی وزرا کو بھی میڈیا اور اسمبلی کے فلور پر اپنے طنزیہ بیانات سے گریز کرنا ہو گا۔ اگر حکومتی وزرا یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے پی ٹی آئی کی فائنل کال کو ناکام کرنے کے بعد اسے روند ڈالا ہے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ پی ٹی آئی ورکر حالات کے جبر کا شکار ہو کر خاموش ضرور ہوا ہے مگر جماعت کے ساتھ اس کی وابستگی برقرار ہے۔ پی ٹی آئی کمزور نہیں ہوئی۔ مناسب یہی ہے کہ اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر پی ٹی آئی لیڈرشپ کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کیے جائیں۔ لفظی گولہ باری دونوں طرف سے بند ہونی چاہیے۔ آپس کی سیاسی لڑائی میں دونوں فریقین کو ملکی سیاست اور معیشت کا نقصان کرنے سے اب احتراز کرنا چاہیے۔ قوم نے آپ کی سیاست کا بہت خمیازہ بھگت لیا ہے۔ خدارا! اس ملک اور قوم کا بھی سوچیں۔

جواب دیں

Back to top button