انتظار حسین۔۔۔ فن اور شخصیت

تحریر : رفیع صحرائی
گوپی چند نارنگ کو عصرِ حاضر کا صفِ اوّل کا اردو نقاد، محقق اور ادیب مانا جاتا ہے۔ انہیں سفیرِ اردو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ گوپی چند نارنگ نے کہا تھا ’’ ہم پاکستان میں فکشن کے حوالے سے تین حُسین کے قائل ہیں۔ انتظار حسین، عبداللّٰہ حسین اور مستنصر حسین‘‘۔
انتظار حسین 21دسمبر 1925ء کو ڈبائی ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ ان کے والد منتظر علی کٹر مذہبی رجحان کے حامل تھے اور ان کی خواہش تھی کہ بیٹے کو بھی روایتی مذہبی تعلیم دلوائیں۔ وہ سکول جانے کے سخت خلاف تھے مگر انتظار حسین کی بڑی بہن نے بہت اصرار کر کے انہیں سکول میں داخل کروا دیا اور یوں ان کی باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ انہوں نے 1942ء میں ایف اے اور 1944ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا پھر اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور لاہور سے باقاعدہ صحافت کا آغاز کر دیا۔ روزنامہ مشرق میں ان کا کالم ’’ لاہور نامہ‘‘ طویل عرصے تک شائع ہوتا رہا۔ یہ اپنے زمانے کا مقبول ترین کالم تھا۔ اس کے علاوہ انتظار حسین نے ریڈیو میں بھی کالم نگاری کی۔
انتظار حسین کو افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ وہ اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہیں جو اپنا ایک الگ اسلوب رکھتے تھے۔ ان کی اہمیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے قدیم داستانوی رنگ کو عصری تقاضوں میں ڈھالا جس کی وجہ سے ان کی تحریروں میں ایک عجیب سی چاشنی اور طلسماتی ماحول پیدا ہو گیا جو قارئین کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ ان کی تحریروں کا ماحول خود ساختہ اور حقیقت سے دور ہوتا ہے، جو کہ قدیم داستانوں کا وصف تھا۔ کہیں کہیں ان کے کردار مافوق الفطرت روپ میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ خالصتاً ان کے تخیل کی کرشمہ سازی تھی۔ وہ اپنے اسلوب کے خود ہی خالق اور خود ہی خاتم ہیں۔ ان کی نقالی کی ہی نہیں جا سکتی کہ بناوٹ میں وہ بے ساختہ پن ممکن ہی نہیں جو ہمیں ان کی تحریروں میں ملتا ہے۔ انہیں کلاسیک سے محبت ہے، وہ ماضی پرست بھی ہیں اور ماضی کی اقدار کے کھو جانے پر نوحہ خواں بھی نظر آتے ہیں۔ انہیں نئی اقدار کی سطحی اور جذباتی ہونے کا دکھ ہے جس کی وجہ سے اکثر جگہوں پر ان کا لب و لہجہ تلخ و ترش ہو جاتا ہے۔
لیکن ماضی پرستی اور مستقبل سے فرار اور انکار کے باوجود بھی انتظار حسین کی تحریروں میں ایک عجیب طرح کا سوز اور ملکوتی حسن نظر آتا ہے جو اپنے اندر ایسی کشش رکھتا ہے جو چاندنی راتوں میں پرانی عمارتوں میں محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے علامتوں اور استعاروں کو ایک نئے ڈھنگ سے پیش کر کے اپنی تحریروں میں نکھار پیدا کیا۔ انہیں زندگی کی ظاہری بناوٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، وہ باطن کی حالت کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔
انتظار حسین بسیار نویس تھے۔ زندگی بھر قلم کی مزدوری کی اور خوب کی۔ انہوں نے بہت لکھا اور سب معیاری لکھا جو بجائے خود ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ان کے ناولوں میں چاند گہن، دن اور داستان، بستی، تذکرہ، آگے سمندر ہے شامل ہیں۔ جبکہ افسانوی مجموعوں میں گلی کوچے، کنکری، آخری آدمی، شہرِ افسوس، کچھوے، خیمے سے دور، خالی پنجرہ اور ان کے ڈراموں کے مجموعے خوابوں کا سفر، نفرت کے پردے میں، پانی کے قیدی، درد کی دوا کیا ہے؟ شامل ہیں۔ انہوں نے رپورتاژ بھی لکھے جو دلی جو ایک شہر تھا اور چراغوں کا دھواں کے نام سے شائع ہوئے جبکہ ان کے کئے تراجم نئی دہلی، نائو اور دوسرے افسانے، سرخ تمغہ، سارہ کی بہادری، ہماری بستی، فلسفہ کی نئی تشکیل، مائوزے تنگ بھی کتابی صورت میں سامنے آئے۔ انہوں نے 1987ء میں زمین اور فلک کے نام سے سفر نامہ بھی لکھا، تنقید پر ایک معتبر کتاب نظریے سے آگے لکھ کر علمی حلقوں سے داد وصول کی جبکہ اپنی سوانح عمری جستجو کیا ہے 2012 میں تصنیف کی۔ اس کے علاوہ ذرے، علامتوں کا زوال اور جملِ اعظم بھی ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ قصہ کہانیاں کے علاوہ انہوں نے جل گرجے کے عنوان سے داستان بھی لکھی۔
انتظار حسین کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ستارہ امتیاز سے نوازا گیا جبکہ 2014 ء میں حکومت فرانس کی طرف سے آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز کا اعزاز دیا گیا۔ انتظار حسین پاکستان کے پہلے ادیب ہیں جن کا نام ’’ مین بکرز پرائز‘‘ کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے انتظار حسین کو پاکستان کے سب سے بڑے ادبی اعزاز کمالِ فن ادبی انعام سے نوازا تھا۔
علم و فن کا پیمبر، ادب کا گہوارا انتظار حسین 2فروری 2016ء کو نوے برس کی عمر میں انتقال کر گیا مگر اپنے بیش بہا ادبی کام کی بدولت وہ ہمیشہ امر رہے گا۔





