Columnمحمد مبشر انوار

امریکی پابندیاں

محمد مبشر انوار
کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جتنے بحران اس سرزمین پر بپا ہوئے ہیں، اتنے بحران کسی دوسری سرزمین پر بپا نہیں ہوئے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اتنے بحرانوں سے کسی دوسری ریاست کو واسطہ پڑتا تو وہ کب کی فنا ہو چکی ہوتی لہذا یہ اعزاز بھی پاکستان کو ہی حاصل ہے کہ اتنے بحرانوں کے باوجود، یہ ریاست تاحال قائم ہے اور دعا ہے کہ یہ سرزمین تاقیامت قائم و دائم رہے، آمین۔ سیاسی و سماجی ماہرین کے مطابق پاکستان کے بیشتر بحران تو ایسے ہیں کہ جنہیں دانستہ بپا کیا جاتا ہے اور اگر اس مفروضے کو درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر اس ریاست کے قائم رہنے کا جواز بھی سمجھ آتا ہے کہ قدرتی بحران، جتنے بھی اس سرزمین پر آئے ہیں، ان کا کامیاب مقابلہ اس کے شہریوں نے بہرطور ایک قوم بن کر کیا ہے،تاہم وہ بحران جو ’’ غیر قدرتی‘‘ رہے ہیں، ان سے نبرد آزما ہونے میں اس کے شہری بہرطور بطور قوم بروئے کار نہیں آئے۔ جبکہ دیگر ریاستوں کی طرف نظر دوڑائیں تو ان کی حتی المقدور کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ریاست میں غیر ضروری بحرانوں میں الجھا کر، اپنی توانائیوں کو بلاوجہ ضائع نہ کریں بلکہ اپنی توانائیوں کو مثبت انداز میں ریاست و شہریوں کی فلاح و بہبود و خوشحالی کے لئے صرف کرتے ہوئے، معاشرے کو پرسکون رکھیں، یہی حقیقی مثبت طرز عمل بھی ہے۔ یہاں ایک لطیفہ یاد آ گیا جو برمحل بھی ہے لیکن ہوبہو رقم کرنے کی بجائے، اشارتا اظہار کرتا ہوں ، کہ عموما ایسے لطیفے تحریر کرنے سے گریز کرتا ہوں کہ کسی نہ کسی حوالے سے ان کا تعلق دینی بن جاتا ہے اور نہیں چاہتا کہ بلاوجہ گناہوں میں اضافہ کروں اس لئے دیار غیر رہنے والوں کے حوالے سے گزارش کرتا ہوں کہ ہمارے متعلق یہ مشہور ہے کہ ہم کسی کو ترقی کرتے دیکھتے ہیں تو خود ہی اس کی ٹانگیں کھینچ کر اسے واپس، اپنے ساتھ شامل کر لیتے ہیں، ایسی ہی صورتحال اس وقت پاکستان کو بھی درپیش نظر آتی ہے۔ تاہم اس کے باوجود ہمارے بیرونی خیر خواہ ایسے ہیں کہ ہماری اس خصوصیت سے واقفیت رکھتے ہوئے بھی، ہمیں کسی بھی طور ترقی کرتے نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ ہماری اس خصوصیت کا استعمال ہم پر بخوبی کرتے دکھائی دیتے ہیں، ہمیں باہم دست و گریباں رکھ کر بھی، ہماری ترقی کے درپے ہی رہتے ہیں۔ ویسے بھی کسی کو کیا ضرورت ہے کہ ہماری ترقی و خوشحالی کے لئے ہلکان ہو، جب ہمیں خود اپنی ترقی و خوشحالی کی پروا نہیں ، ہم خود بطور قوم بن کر سوچنے سمجھنی کے لئے تیار نہیں، تو غیر تو پھر غیر ہیں، جو کسی بھی صورت ہماری ترقی نہیں چاہتے بلکہ جو ترقی ہم کر چکے ہیں، جس کے لئے ہم نے انتہائی کٹھن وقت دیکھا ہے، بے شمار قربانیاں دی ہیں، اس کو ہتھیانے کے درپے ہیں۔
پاکستان نے بعد از آزادی، اپنا قبلہ ریاست ہائے امریکہ کو بنایا، ان تعلقات میں کبھی بھی توازن قائم نہیں رہا او ر نہ ہی یہ کبھی برابری کی سطح کے تعلقات رہے ہیں کہ پاکستان کی آزادی ، اس وقت ہوئی جب امریکہ دوسری جنگ عظیم میں فاتح کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا تھا، اور دنیا کو کسی ایک فاتح کی نظر سے دیکھتا ہے۔ فتح کا نشہ ہی ایسا ہے کہ سر چڑھ کر بولتا ہے، یہی حالت امریکہ کی تھی۔ دنیا دو حصوں میں تقسیم دکھائی دیتی تھی اور دونوں پہلوان، اپنے گرد پٹھوں کو بڑی تعداد میں دیکھنا چاہتے تھے، تا کہ ان کی سرداری قائم رہے۔ اپنی سرداری کو قائم رکھنے کے لئے ،ان طاقتوں کو کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں، کس طرح اصولوں سے روگردانی کرنا پڑتی ہے، اس کا مشاہدہ اقوام عالم میں بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ کمزور یا زیر دست ریاستوں کے ساتھ کس طرح کا اصول روا ر کھا جاتا ہے، سب کے سامنے ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ ا گر ایسے داؤ پیچ استعمال نہ کئے جائیں تو ان طاقتوں کا اثر کم ہو جاتا ہے لہذا اس رسوخ کو قائم رکھنے کے لئے کمزور ریاستوں کو آزادانہ روبہ عمل ہونے کی اجازت نہیں ملتی، نتیجتا یہ ریاستیں بیشتر معاملات میں ان طاقتوں کی مرہون منت رہتی ہیں اور اپنی ترقی کے راستوں پر عمل پیرا ہونے سے قاصر رہتی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود، قانون قدرت کے عین مطابق، ہر سیر کو سوا سیر اور ہر عروج کو زوال کے مصداق، کرہ ارض پر ایسی ریاستیں بھی موجود رہتی ہیں جو ہمہ وقت اس طاقت کے لئے خطرے کا باعث بنتی رہتی ہیں۔ اس حقیقت پر قابو پانے کے لئے ہی، یہ طاقتیں ایک دوسرے پر دباؤ برقرار رکھنے کے لئے مختلف پابندیاں عائد کرتی رہتی ہیں تا کہ طاقت کا توازن برقرار رہے، اس ضمن میں فی الوقت امریکہ ہی ایک ایسی طاقت رہی ہے جو اپنے دیگر ریاستوں پر مختلف حوالوں سے پابندیاں عائد کرتی دکھائی دیتی ہے تا کہ اس کا رسوخ برقرار رہے لیکن یہ سوچ اور لائحہ عمل قانون قدرت کے خلاف ہے۔ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین نے طاقت کا توازن قائم رکھا ہوا تھا مگر گزشتہ چند دہائیوں سے امریکی غلبہ واضح طور پر دنیا پر قائم رہا اور اس غلبہ و طاقت کے نشے میں چور امریکہ سے بھی وہی غلطیاں جن میں سرفہرست جانبدارانہ رویہ سرفہرست ہے، سرزد ہو چکی ہیں کہ جس سے اس کی عالمی حیثیت میں واضح فرق دکھائی دے رہا ہے گو کہ اس دوران امریکہ نے کسی بھی موقع پر اپنی گرفت کو کمزور ہونے سے بچانے کی بھرپور اور سرتوڑ کوششیں کی ہیں لیکن آثار اس امر کی گواہی دے رہے ہیں کہ اب وہ زور باقی نہیں رہا۔ اس عرصہ میں جب امریکہ دنیا پر غالب آنے اور اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے افغانستان میں برسر پیکار رہا ہے، نہ صرف روس بلکہ چین نے اقوام عالم میں اپنی حیثیت بھرپور طریقے سے مستحکم کی ہے اور آج طاقت کا توازن ایک بار پھر دو حصوں میں منقسم دکھائی دیتا ہے۔
امریکہ کے پاس مختلف ضمن میں اپنے مخالفین اور کمزور ممالک پر پابندیوں کی سہولت موجود رہی ہے جسے وہ بے محابہ استعمال کرتا رہا ہے لیکن ان پابندیوں سے وہ خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہی نظر آتا ہے کہ ایک طرف وہ روس پر پابندیوں کی قدغن لگاتا ہے تو دوسری طرف چین کو ان زنجیروں میں باندھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن نتائج اس کی توقعات کے برعکس سامنے آتے ہیں کہ روس و چین جیسی طاقتیں امریکہ کو بھرپور جواب دیتی ہیں جو بالعموم صنعتی و معاشی حوالوں سے دیکھنے میں نظر آتا ہے۔ جبکہ دیگر ممالک میں اگر دیکھا جائے تو ایران وہ ملک ہے جس پر امریکہ نے حد سے زیادہ پابندیاں لگائی ہیں تا کہ وہ کسی بھی طور نہ صرف اپنی دفاعی ضروریات پورا نہ کر پائے بلکہ اپنی معیشت کو بھی مستحکم نہ کر سکے، اور امریکی خواہشات کے مطابق بروئے کار آئے لیکن ان پابندیوں کے باوجود ایران نے کسی بھی موقع پر لچک کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ان پابندیوں کے باوجود، اپنی کامیاب سفارتی کوششوں سے اپنی سالمیت و خود مختاری کا تحفظ کیا ہے، معاشی و دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب بھی رہا ہے۔ دوسری طرف ایسی ہی کوششیں امریکہ نے پاکستان کے حوالے سے بھی مسلسل عائد کئے رکھی ہیں بالخصوص پاکستان کے دفاعی معاملات میں امریکی دوغلی پالیسیوں نے اول روز سے ہی پاکستان کے ساتھ دہرا معیار اپنائے رکھا ہے،65ء اور 71ء کی جنگ ہو یا ایٹمی پروگرام ہو، امریکی پالیسی سازوں کا جھکاؤ ہمیشہ پاکستان کے حریف بھارت کی جانب رہا ہے۔ تاہم اس جانبدارنہ طرز عمل کے باوجود، پاکستان نہ صرف اپنے ایٹمی پروگرام میں کامیاب رہا ہے بلکہ پاکستان نے ایک بہترین ہتھیار حاصل کر رکھا ہے جو نہ صرف امریکہ بلکہ امریکہ کے لے پالک دو ممالک کے لئے ہمیشہ سردرد کا باعث رہا ہے کہ اس ہتھیار کی بدولت یہ دونوں ممالک ہمہ وقت خوف کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اگر ایٹم بم حاصل کرنے کے عوض اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا تو بھٹو کی بیٹی نے اس ہتھیار کو بہترین طریقہ سے ہدف پر پہنچانے کے لئے اور ہدف کو تباہ کرنے کے لئے میزائل پروگرام کا حصول ممکن بنایا تھا، جس کی پاداش میں بے نظیر بھٹو کو بھی اپنی جان نذر کرنا پڑی تھی۔ دھماکہ کرکے شہیدوں میں نام درج کروانے والے تاجر سیاستدان کی حقیقت سب جانتے ہیں کہ دبائو کی شدت کس حد تک برداشت کر پایا تھا اور دھماکے کرنے کے لئے اندرونی حالات کا دباؤ کس قدر تھا وگرنہ دھماکہ ہونا ممکن نہ تھا۔ بہرکیف حقیقت یہ ہے کہ امریکی پابندیاں کوئی نئی نہیں بلکہ ہر دور میں امریکہ اور اس کے حلیفوں کے لئے خطرہ بننے والی ریاستوں کو ان پابندیوں کا سامنا رہا ہے لیکن کسی بھی ریاست نے ان پابندیوں کے سامنے سرنگوں نہیں کیا اور نہ ہی اپنے معاشی و دفاعی معاملات کو امریکہ کے ہاتھوں گروی رکھا ہے تاہم پاکستان کی حالت عجیب سی ہے کہ معاشی طور پر پاکستان آج بری طرح شکنجے میں ہونے کے باوجود، دفاعی حیثیت پر سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آتا۔ اس پس منظر میں امریکی حالیہ پابندیاں جو پاکستان کے میزائل پروگرام میں مدد کرنے والی کمپنیوں پر لگائی گئی ہیں، بہت زیادہ متاثر نہیں کریں گی کہ پاکستان کسی بھی صورت اپنے دفاع سے غافل نہیں ہو سکتا البتہ اس کا طریقہ کار اور راستہ مختلف اور مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button