Column

روسی ادب کا ایک دیو

علیشبا بگٹی

دوستوفسکی، جو کہ روسی ادب کا ایک دیو ہے، وہ غربت میں اکیلا رہتا تھا اور وہ انتہائی خراب حالات سے دوچار تھا۔ اس کی بڑی بیٹی کی موت۔ ایک بچہ، اس کے پیارے بیٹے الیوشا کی جوانی میں موت، اس کے رشتہ داروں کی توہین، اس کے ساتھی ادیبوں کے اخلاق کی کمی، اس کے لیے ریاست کی توہین۔ اس تیز طوفان اور اس حقیر دنیا کے سامنے اس کے پاس اپنی مخلصانہ مسکراہٹ، اس کی نیک نیتی، اس کی انسانیت اور اس کے قلم کے سوا کچھ نہیں تھا۔ دوستوفسکی نے اپنے ناول The Poor Peopleمیں یہ کہا تھا کہ غریبی سادہ واقعات کو پیچیدہ اور تکلیف دہ بنا دیتی ہے، غربت انسان کی عزت و وقار کو کھو دیتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا: ’’ میں نے تنہا بدترین لمحات گزارے‘‘۔ لیکن جب ان کا انتقال ہوا تو ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگ ان کے جنازے میں شریک ہوئے۔
ہیمسن کا شہرہ آفاق ناول The Hungerانیسویں صدی کی آخری دو دھائیوں کے مغربی صنعتی معاشرے کا ترجمان ہے جو ایک مصیبت زدہ غریب نوجوان کے ان نفسیاتی عوارض اور ہیجانات کے گرد گھومتا ہے جو کہ اسے غربت، بھوک اور ناداری کی وجہ سے لاحق رہتے ہیں۔ ہیمسن کا اسلوب غربت کے شخصی اثرات کا بھرپور جائزہ پیش کرتا ہے۔ تاہم غربت کے معاشرتی اثرات بھی اپنی جگہ بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں،
ٹالسٹائی نے کہا کہ انسان کی زندگی کے بدترین وقتوں میں سب سے برا وقت ’’ جوانی کی غربت‘‘ ہے۔
دُنیا میں ایک ارب اور پاکستان میں پچاس فیصد سے زیادہ لوگ انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ زندگی میں شاید سب کچھ برداشت کیا جا سکتا ہے، لیکن غربت کا بوجھ ایک ایسی حقیقت ہے جو انسان کی خودداری اور عزتِ نفس کو کچل دیتی ہے۔ جب آپ کے پاس وسائل نہ ہوں تو دنیا کا رویہ یکسر بدل جاتا ہے، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچتا، آپ کی بات کا وزن کم ہو جاتا ہی، اور لوگ آپ کو اس نظر سے دیکھتے ہیں جیسے آپ میں کوئی کمی ہو، شاید غربت ایک ایسا عیب ہے جو ہر خوبی کو چھپا دیتا ہے۔ کیا یہ دنیا واقعی اتنی بے رحم ہے؟ کیا یہ واقعی ضروری ہے کہ انسان کی قدر کا معیار صرف اس کی جیب میں رکھا گیا پیسہ ہو؟ اور پھر ایک حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس دنیا میں زندہ رہنے اور اپنی عزت کو برقرار رکھنے کے لیے پیسہ ایک بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔
سُنا تھا فرشتے جان لیتے ہیں
خیر چھوڑو اب انسان لیتے ہیں
غربت ہے رقصاں ہماری بستی میں
بیچ کر جسم لوگ سامان لیتے ہیں
اس شہر منافق سے تنگ آ گیا ہوں میں
آئو کسی گائوں میں کچا مکان لیتے ہیں
غربت انسان کو اپنے ہی شہر میں ایسا اجنبی بنا دیتی ہے کہ لوگ پہچاننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ کچھ نے غریب اور غربت کا نام سنا ہے مگر ہم نے غربت کو قریب سے دیکھا ہے۔ میں نے غریب اور غربت کو ایسے دیکھا ہے۔ کہ آج تک ان دونوں کے غم سے نکل نہیں پایا میں۔ کوئی بھی جس نے کبھی غربت کے ساتھ جدوجہد کی ہے وہ جانتا ہے کہ غریب ہونا کتنا مہنگا ہے۔
شاعر کہتا ہے کہ
وہ جن کے پاس دولت ہو وہ کر لیتے ہیں تعبیریں
غریبوں کے مقدر میں ہمیشہ خواب رہتے ہیں
غربت انسانی زندگی سے خوشیاں اور سکون کسی دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ جب سر پر بھوک منڈلائے اور بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے معقول وسائل نہ ہوں تو خوشحال زندگی کسی دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہے۔ بدترین غربت میں مبتلا انسان کو رفتہ رفتہ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ اِس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، اور اگر ہے بھی تو وہ نعوذ باللہ غریبوں کا خدا نہیں ہے۔ دنیا میں ہر سال ہزاروں افراد غربت کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کر لیتے ہیں۔ اس غریب طبقے کے پاس کیسی ہی روحانیت، کیسا ہی اخلاق، کیسا ہی کردار کیوں نہ ہو اسے کوئی نہیں دیکھتا۔ ایسے لگتا ہے جیسی غریب ہونا کوئی گناہ یہ جرم عظیم ہے۔ غریب سے سب دور رہتے ہیں اور غریب کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ دُنیا میں غربت کی زندگی جینا محال بلکہ جہاد کی طرح ہے جہاں ہر قدم پر نیا زخم ملتا ہے جو غریبی کا تمغہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی مہنگائی کے عفریت نے ہر جگہ اخراجات کو بے پناہ بڑھا دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ کروڑوں برسر روزگار لوگوں کی زندگی بھی معاشی جہنم کی نذر ہوگئی ہے۔
علیشبا بگٹی

جواب دیں

Back to top button