پولیو مہم کی گونج میں دبے عوامی مسائل

ڈاکٹر محمد ریاض علیمی
ملک کی صورتحال عجیب تماشہ بن چکی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں غربت کا بول بالا ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، لوگ صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں اور زندگی کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، وہاں پوری قوم کو ایک ہی مسئلے کے پیچھے دوڑایا جا رہا ہے، وہ ہے پولیو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ واحد مسئلہ ہو جس نے ملک کے تمام مسائل کو پیچھے چھوڑ دیا ہو۔ ہر طرف شور ہے، گلی گلی مہمات چلائی جا رہی ہیں، سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے اور عوام کو پولیو کے نام پر خوفزدہ کیا جارہا ہے۔
اگر ملک کی دیگر بیماریوں اور مسائل کی فہرست دیکھیں تو وہ نہایت طویل ہے۔ ٹی بی، ہیپاٹائٹس، ڈینگی، ملیریا اور دیگر جان لیوا امراض سے ہر سال ہزاروں جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ غذائی قلت سے بچے مر رہے ہیں، مائوں کے لیے طبی سہولیات کا فقدان ہے اور تعلیم و صحت کے شعبے بربادی کی داستان سنا رہے ہیں۔ مگر ان مسائل پر کسی کی توجہ نہیں۔ نہ کوئی حکومتی مہم نظر آتی ہے، نہ میڈیا کی دلچسپی اور نہ ہی کوئی عوامی شعور بیداری کی کوشش۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان تمام مسائل کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہو اور پولیو کو قومی مسئلہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہو۔
پولیو مہمات کی حالت یہ ہے کہ اگر کوئی والدین اپنے بچوں کو ویکسین پلانے سے انکار کریں تو انہیں قانونی دھمکیاں دی جاتی ہیں، یہاں تک کہ گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں۔ اس مہم کو اس قدر سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے کہ باقی تمام امراض اور مسائل کو غیر اہم سمجھا جانے لگا ہے۔ ایک طرف عوام خودکشیاں کر رہی ہے، بے روزگاری کا عذاب سر پر ہے، لوگ علاج معالجے کی سہولت سے محروم ہیں مگر حکومت کی ترجیحات میں صرف پولیو ہے۔
یہ رویہ ہر ذی شعور فرد کے ذہن میں سوالات کو جنم دیتا ہے کہ آخر پولیو کو اتنی غیر معمولی اہمیت کیوں دی جا رہی ہے؟ کیا یہ واقعی عوام کی بھلائی کے لیے ہے یا اس کے پس پردہ کوئی اور مقاصد کارفرما ہیں؟ حکومت اور بین الاقوامی ادارے پولیو کے خاتمے کے لیے تو بے پناہ وسائل اور توانائیاں صرف کر رہے ہیں لیکن دیگر مہلک اور جان لیوا بیماریوں کے حوالے سے ان کا رویہ انتہائی بے حسی اور عدم توجہی کا شکار کیوں ہے؟
سرکاری اسپتالوں کی ابتر حالت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ نہ ڈاکٹر دستیاب ہیں اور نہ ہی ادویات۔ آپریشن کے منتظر مریضوں کو مہینوں طویل انتظار کی اذیت جھیلنا پڑتی ہے۔ ایمرجنسی کی صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ مریضوں کو بیڈز کی عدم دستیابی کے باعث زمین پر لٹایا جاتا ہے۔ حالات کی بدترین تصویر یہ ہے کہ بعض جگہوں پر آکسیجن کے لیے سائیکل پمپ جیسے ناقص اور غیر معیاری طریقے استعمال ہوتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ اس کے باوجود یہ مسائل کسی بحث کا حصہ نہیں بنتے۔ ان کے لیے نہ کوئی مہم چلائی جاتی ہے، نہ کوئی حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔ مگر پولیو کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے دونوں میدان میں ہیں۔
یہاں تک کہ میڈیا بھی پولیو مہم کا حصہ بن چکا ہے۔ اشتہارات میں بچوں کو معذور دکھا کر خوف پھیلایا جا رہا ہے۔ یہ سوال کوئی نہیں کرتا کہ جن خاندانوں کے بچے غذائی قلت کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں، ان کی کیا مدد کی جا رہی ہے؟ جو لوگ ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں کے علاج کے لیے دربدر ہو رہے ہیں، ان کے لیے کوئی منصوبہ کیوں نہیں؟
پولیو کے حوالے سے ایک اور اہم پہلو ویکسین کے معیار سے متعلق ہے، جس پر اکثر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ متعدد افراد یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان ویکسینز کے استعمال سے مختلف قسم کے سائیڈ ایفیکٹس سامنے آتے ہیں، لیکن ان شکایات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کا رویہ نہ صرف عوام کے تحفظات کو بڑھاتا ہے بلکہ پولیو مہم کی شفافیت اور اس کی ساکھ پر بھی سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔
یہ بھی بڑی المناک حقیقت ہے کہ جو لوگ اس مہم پر تنقید کرتے ہیں یا سوال اٹھاتے ہیں، ان کی زبانوں کو بند کر دیا جاتاہے حالانکہ سوال کرنا ہر شہری کا حق ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پولیو سمیت دیگر تمام مسائل کے حل کے لیے متوازن حکمت عملی اختیار کرے۔ مگر یہاں ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت صرف پولیو کو توجہ کا مرکز بنایا گیا ہے اور دیگر مسائل کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں تعلیم کی شرح انتہائی کم ہو، وہاں صحت اور تعلیم کے مسائل کو نظرانداز کر کے پولیو کو قومی ترجیح بنایا گیا ہے۔ لامحالہ یہ رویہ نہ صرف عوام کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ ان کے بنیادی حقوق سے انکار کے مترادف ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کے تمام مسائل کو یکساں اہمیت دے اور ان کے حل کے لیے جامع حکمت عملی اپنائے۔
اس بات سے انکار نہیں کہ پولیو ایک اہم مسئلہ ہے لیکن اسے اس حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کرنا کہ دیگر تمام مسائل پس منظر میں چلے جائیں، ناانصافی ہے۔ پولیو کے خاتمے کے لیے مہم چلانا بلاشبہ ایک مستحسن اقدام ہے لیکن کیا یہ واحد مسئلہ ہے جس پر تمام وسائل اور توانائیاں خرچ کی جائیں؟ ایک ایسی قوم جو کئی قسم کے معاشی، سماجی اور طبی مسائل میں جکڑی ہوئی ہو، کیا وہ صرف پولیو کے مسئلے کو حل کر کے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے؟ یہ سوال ہر باشعور شہری کو خود سے پوچھنا چاہیے۔





