Column

نوکری سے کاروبار بہتر ہے

تحریر: رفیع صحرائی
اللہ جانے یہ سوچ پہلے پہل کس بندے کے ذہن میں آئی تھی کہ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد اچھی نوکری کا حصول ہوتا ہے۔ یہ تصور پھیلتے پھیلتے عقیدے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ دیہات میں تو خاص طور پر یہ سوچ پائی جاتی ہے۔ اسی لیے وہاں کی اکثریت یہ کہہ کر بچیوں کو سکول نہیں بھیجتی کہ ’’ ہم نے کون سا بیٹی سے نوکری کروانا ہے‘‘۔
انہیں یہ علم ہی نہیں کہ تعلیم شعور و آگاہی دیتی اور سلیقہ سکھاتی ہے۔ تعلیم نوکری کے لیے مسلمانوں پر فرض نہیں کی گئی۔ تعلیم آدمی کو انسان بناتی ہے جبکہ تعلیم سے دوری اسے حیوان بنا دیتی ہے۔
ویسے بھی نوکری پیشہ لوگوں کی زندگی پر نظر ڈال کر دیکھ لیں۔ اکثریت آپ کو Hand to mouthنظر آئے گی۔ یہ لوگ سارا مہینہ گھریلو ضروریات کا سامان ادھار خریدتے ہیں۔ ان کی آدھی سے زیادہ تنخواہ قرضوں کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے۔ یوٹیلیٹی بلز اور بچوں کی فیسوں کی ادائیگی کے بعد کھینچ تان کر مہینہ گزارتے ہیں۔ بہت سی اہم ضروریات کئی مہینوں تک پوری نہیں ہو پاتیں۔ صرف بڑے عہدوں پر فائز نوکری پیشہ لوگ ہی خوش حالی کا منہ دیکھ پاتے ہیں۔ 90فیصد ملازمین اپنی تنخواہ سے بس گزارا ہی کر پاتے ہیں۔
ان کے مقابلے میں کاروبار کرنے والے افراد کو دیکھ لیں۔ چاہے آہستہ روی سے ہی سہی مگر ان کا کاروبار ترقی کرتا رہتا ہے اور ایک روز یہ کامیاب بزنس مین بن جاتے ہیں۔ بس کام سے لگن اور محنت شرط ہے۔ لوگ نوکری کو شاید اس لیے بھی پسند کرتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے لگا بندھا روزگار چل پڑتا ہے۔ کاروبار میں گھاٹے کا امکان ہوتا ہے مگر نوکری میں صرف آمدنی ہوتی ہے۔ محنت بھی کم کرنا پڑتی ہے۔
میرے خیال میں محنت سے جی چرانے والے اور سست و کاہل لوگ ہی نوکری کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اپنے بچوں کو بہتر و خوشحال مستقبل نہیں دے سکتے۔ اپنے بچوں کو وہ تعلیم بھی اسی لیے دلواتے ہیں کہ انہیں بہتر نوکری مل جائے گی۔
ایک بڑی کمپنی کے گیٹ کے سامنے ایک مشہور سموسے کی دکان تھی۔ لنچ ٹائم میں کمپنی کے اکثر ملازم وہاں آکر سموسے کھا یا کرتے تھے.
ایک دن کمپنی کے ایک منیجر صاحب سموسے کھاتے کھاتے سموسے والے سے مذاق کے موڈ میں آ گئے۔ سموسیوالے سے کہنے لگے، ’’ یار شاہد، تمہاری دکان تم نے بہت اچھی طرح سے سیٹ کی ہے لیکن کیا تمہیں نہیں لگتا کہ تم اپنا وقت اور ٹیلینٹ سموسے بیچ کر برباد کر رہے ہو؟، سوچو، اگر تم میری طرح اس کمپنی میں کام کر رہے ہوتے تو آج کہاں ہوتے؟ ہو سکتا ہے شاید تم بھی آج منیجر ہوتے میری طرح ‘‘۔
اس بات پر سموسیوالے شاہد نے بڑا سوچا اور بولا، ’’ سر یہ میرا کام آپ کے کام سے کہیں بہتر ہے، 10سال پہلے جب میں ٹوکری میں سموسے فروخت کرتا تھا تبھی آپ کی جاب لگی تھی۔ تب میں مہینہ بھر میں ہزار روپے کماتا تھا اور آپ کی تنخواہ 10ہزار تھی۔ ان 10سالوں میں ہم دونوں نے خوب محنت کی۔ آپ سپروائزر سے منیجر بن گئے اور میں ٹوکری سے اس مشہور دکان تک پہنچ گیا۔ آج آپ مہینے کے 50000کماتے ہیں اور میں مہینے کے 2لاکھ روپے لیکن میں اپنے کام کو آپ کے کام سے بہتر اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ تو میں بچوں کی وجہ سے کہہ رہا ہوں۔
ذرا سوچئے سر۔۔۔! میں نے تو بہت کم روپوں سے دھندہ شروع کیا تھا، مگر میرے بیٹے کو یہ سب نہیں جھیلنا پڑے گا۔ میری دکان میرے بیٹے کو ملے گی.،میں نے زندگی میں جو محنت کی ہے اس کا فائدہ میرے بچے اٹھائیں گے جبکہ آپ کی زندگی بھر کی محنت کا فائدہ آپ کے مالک کے بچے اٹھائیں گے۔ اب آپ اپنے بیٹے کو ڈائریکٹ اپنی پوسٹ پر تو نہیں بٹھا سکتے نا؟، اسے بھی آپ ہی کی طرح زیرو سے شروعات کرنی پڑے گی۔ وہ اپنی مدت کے اختتام میں وہیں پہنچ جائے گا جہاں ابھی آپ ہو جبکہ میرا بیٹا بزنس کو یہاں سے اور آگے لے جائے گا اور اپنے دور میں ہم سب سے بہت آگے نکل جائے گا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کیسے میرا وقت اور ٹیلنٹ برباد ہو رہا ہے؟‘‘۔
منیجر صاحب نے سموسے والے کو 2سموسے کے 100روپے دیئے اور بغیر کچھ بولے وہاں سے کھسک لیے۔
ہمیں بھی اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ نوکری کی تلاش یا نوکری پر انحصار کی بجائے چھوٹے موٹے کاروبار سے زندگی کی شروعات کر کے بتدریج آگے بڑھنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں سرکاری نوکریاں مستقبل میں بہت محدود ہو جائیں گی۔ پرائیویٹ نوکریاں بھی آبادی کے حساب سے دستیاب نہیں ہیں۔ نوکری کرنے کی سوچ بدلیں، آپ کی محنت آپ کا مقدر بھی بدل دے گی۔

جواب دیں

Back to top button